نوٹ کی منسوخی بڑا، ظالمانہ اور مالیاتی جھٹکہ :سبرامنیم

نئی دہلی29نومبر (سیاست ڈاٹ کام) مودی حکومت کے سابق چیف اقتصادی مشیر اروند سبرامنیم نے نوٹ کی منسوخی کو ملک کے لئے بڑا، سفاکانہ اور مالیاتی دھچکا قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے غیر منظم سیکٹر پر بہت برا اثر پڑا۔مسٹر سبرامنیم کے اعلی اقتصادی مشیر کے عہدے پر رہتے ہوئے ہی نومبر 2016 میں حکومت نے نوٹ کی منسوخی کا اہم فیصلہ کیا تھا۔مسٹرا سبرمنیم نے اسی سال جون میں نجی وجوہات کی بنا پرعہدہ چھوڑ دیا تھا لیکن اس کے بعد انہوں نے اپنی کتاب میں اس فیصلے کو ملک کے لئے مہلک قرار دیا ہے ۔ انہوں نے اپنی اس کتاب ‘آف کاؤنسیل: دی چیلنجز آف دی مودی جیٹلی اکنامی’ میں مودی حکومت کے اس فیصلے کے بارے میں لکھا ہے ۔ ‘‘نوٹ کی منسوخی ایک بڑا، سفاکانہ، مالیاتی جھٹکا تھا – ایک ہی جھٹکے میں 86 فیصد کرنسی لین دین سے باہر ہو گئی ۔ واضح طور سے اس سے حقیقی جی ڈی ڈی کی ترقی متاثر ہوئی ہے ۔ نوٹ کی منسوخی سے پہلے سات سہ ماہیوں میں اوسط ترقی شرح آٹھ فیصد تھی جو نوٹ کی منسوخی کے بعد سات سہ ماہیوں میں گھٹ کر 6.8 فیصد رہ گئی’’۔وزیر اعظم نریندر مودی نے 8 نومبر 2016 کی رات آٹھ بجے قوم کے نام خصوصی ٹیلی ویژن خطاب میں اچانک 500 روپے اور ایک ہزار روپے کے اس وقت جاری 500 روپے اور 1000 روپے کے نوٹوں پر عام استعمال کے لئے پابندی لگانے کا اعلان کیا تھا۔ اسی دن 12 بجے سے یہ فیصلہ نافذ کیا گیا تھا۔سابق چیف اقتصادی مشیر نے اس کتاب میں لکھا ہے جو عام طور پر لین دین میں موجود کرنسی اور جی ڈی پی متوازی چلتی ہے لیکن،نوٹ کی منسوخی کے بعد جہاں کرنسی کا گراف بالکل نیچے آگیا۔ وہیں جی ڈی ڈی کے گراف پر بہت کم اثر پڑا۔ ایسا اس لئے ہوا کیونکہ جی ڈی پی کے اعداد و شمار روایتی معیشت کی بنیاد پر تیار کئے جاتے ہیں۔ غیر رسمی شعبے (غیرمنظم) کی سرگرمیوں کی پیمائش کرنے کا کوئی طریقہ نہیں ہے ۔ لہذا، روایتی شعبے کے اعداد و شمار کی بنیاد پر غیر روایتی شعبے کے لئے اندازً اعداد و شمار تیار کئے جاتے ہیں۔ عام حالات میں یہ طریقہ درست ہوسکتا ہے ، لیکن نوٹ کی منسوخی کے بڑے جھٹکے کے بعد غیر منظم سیکٹر ہی متاثر ہوا ہے ۔ اس طریقے سے ترقی کی شرح کے صحیح اعداد و شمار دستیاب نہیں ہوتے ۔