نوئیڈا میں نماز پر پابندی کا معاملہ : مسلمانوں کی مذہبی آزادی چھین کر فرقہ وارانہ ماحول بنانے کی اندیشہ : مسلم دانشوروں کا رد عمل

نوئیڈا کے سیکٹر-58 میں نمازکی اجازت نہ ملنے اورنوئیڈا پولیس کے ذریعہ پارک میں نماز ادا نہ کرنے سے متعلق نوٹس جاری کئے جانے کے بعد یہ معاملہ انتہائی طول پکڑتا جارہا ہے۔ ایک طرف اس مسئلے پرسیاسی لیڈروں کو اپنی سیاست تیز کرنے کا موقع ہاتھ آگیا ہے، وہیں مسلم دانشوروں اورعلمائے کرام نے مسلمانوں سے امن وامان بنائے رکھنے کی اپیل کرتے ہوئے اسے حکومت کا متعصبانہ فیصلہ قراردیا ہے۔

فتحپوری شاہجہانی مسجد کے امام ڈاکٹر مفتی مکرم احمد نے اس نوٹس کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اترپردیش انتظامیہ نے فرقہ پرستی پرمبنی یہ فیصلہ لے کرمسلمانوں کو جذبات کو ٹھیس پہنچائی ہے۔ کیونکہ یہ وہی لوگ ہیں، جو مسلمانوں کی مذہبی آزادی چھیننا چاہتے ہیں۔ مفتی مکرم احمد نے کہا کہ سب سے پہلے تو ہم مسلمانوں سے امن کی اپیل کرتے ہیں. اگرانتظامیہ اجازت دے تو پڑھنی چاہئے، ورنہ ہمیں قانونی لحاظ سے پہلے اجازت لینی چاہئے تاکہ حکومت اورپولیس کوکسی طرح کی قانونی کارروائی کرنے کا موقع نہ مل سکے۔ ڈاکٹرمفتی مکرم احمد نے کہا کہ یوگی حکومت تومساجد اور مدارس کے مکمل خلاف ہے، وہ مسلسل اس طرح کے اقدامات کررہی ہے۔

مسجد تعمیرکرنے کے لئے زمین فراہم کرنے کا مطالبہ

مسلم پرسنل لا بورڈ کے سکریٹری اورمسلم دانشورقاسم رسول الیاس نے کہا کہ ہم انتظامیہ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ قانون کے مطابق شہری کالونیوں میں عبادت گاہوں کے لئے جگہ مختص ہونی چاہئے، اس لئے مسجد کے لئے زمین مہیا کرائی جائے، تاکہ ہم وہاں نماز پڑھ سکیں۔ قاسم رسول الیاس نے کہا کہ جو لوگ اسے سیاسی مسئلہ بنارہے ہیں، وہ اسے سیاسی مسئلہ نہ بنائیں اورنہ ہی یہ ہندو مسلمان کا مسئلہ ہے۔ انتظامیہ سے محض ہمارا یہ مطالبہ ہے کہ انتظامیہ ہمیں مسجد بنانے کے لئے زمین فراہم کردے، جس کے ہمیں مذہبی اختیارات حاصل ہیں۔

 مسلمانوں کے بنیادی حقوق کوچھیننے کی کوشش 

سپریم کورٹ کے وکیل شاہدعلی ایڈوکیٹ کا اس مسئلے پرکہنا ہے کہ ایک طرف سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ نماز کے لے مسجد ضروری نہیں ہے اورجب لوگ پارکوں میں نماز پڑھتے ہیں تو ان پرپابندی عائد کی جاتی ہے، آخریہ دوہرا معیارکیوں ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ہمارے بنیادی حقوق کو چھیننے کی کوشش ہے۔ پارک میں نماز پرپابندی لگانا ہمارے حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ ایڈوکیٹ شاہد علی نے کہا کہ ہماری ہزاروں مسجدوں پرتالے لگا رکھے ہیں، اگراسے کھول دیا جائے توہمیں سڑکوں پر یاپارکوں پرنماز پڑھنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔

اجازت کے بغیر عبادت نہیں ہونی چاہئے

شیعہ پرسنل لا بورڈ کے ترجمان مولانا یعسوب عباس نے کہا کہ چاہے نماز ہو، یا کوئی بھجن کیرتن ہو، جب تک انتظامیہ کی طرف سے اجازت  حاصل نہ ہو، وہاں کسی بھی مذہب کا پروگرام نہیں ہونا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ ہرکسی کو چاہئے کہ وہ کسی بھی طرح کا پروگرام کرنے سے قبل ضلع انتظامیہ سے اجازت لے لیں، اس کے بعد ہی کسی طرح کا قدم اٹھانا چاہئے۔

دہلی اقلیتی کمیشن کا یوپی پولیس کو مکتوب

دہلی اقلیتی کمیشن کے صدرڈاکٹر ظفرالاسلام خان نےاتر پردیش کے ڈائرکٹرجنرل آف پولیس اوم پرکاش کوخط لکھ کر ناراضگی کا اظہارکیا ہے۔  انہوں نے اپنے خط میں کہا ہے کہ کچھ عرصے سے یوپی پولیس کی کافی بدنامی ہورہی ہے، خصوصاً ایک ہزارسے زیادہ انکاؤنٹر کے واقعات کی وجہ سے جس میں یو پی پولیس پچھلے برسوں میں ملوث رہی ہے۔  ڈاکٹر ظفرالاسلام خان نے یو پی ڈی جی پی کے نام اپنے خط میں کہا کہ کسی کمپنی کواس کے ملازمین کے ذاتی اعمال کا ذمہ دارٹھرانا قطعاًغیر قانونی ہے۔

دہلی اقلیتی کمیشن کے چیئرمین نے خط میں لکھا ہے کہ اگرکسی کوکسی پارک میں نماز جمعہ سے پریشانی ہےتوپولیس کا فرض ہے کہ اس مذہبی عمل کے لئے کوئی اورجگہ مختص کردے، جیسا کہ گڑکاؤں میں کیا گیا ہے۔ نمازکا عمل بمشکل آدھے گھنٹے کا ہے، جس کے دوران نمازی چٹائیاں لے کر آتے ہیں اورپھرانھیں واپس لے جاتے ہیں۔ ڈاکٹرظفرالاسلام خان نے اپنے خط میں کہا کہ ہندوستان کا آئین دفعات25 اور28 میں مذہبی آزادی کی ضمانت دیتا ہے اورمسلمان یہ سمجھتا ہے کہ جماعت سے نماز جمعہ ادا کرنا اس کا مذہبی فریضہ ہے۔

سیاسی لیڈروں کا بھی آیا ردعمل

واضح رہے کہ نماز کی اجازت نہ ملنے کے مسئلے پرسیاسی لیڈروں کی بھی بیان بازی شروع ہوگئی ہے۔ اسد الدین اویسی نے ٹویٹ کرکے لکھا “اترپردیش کی پولیس نے کانوڑیوں کیلئے پھول برسائے تھے، لیکن ہفتہ میں ایک مرتبہ پڑھی جانے والی نمازسے امن اور ہم آہنگی بگڑ سکتی ہے. یہ بالکل ویسا ہوا جیسا کہ آپ مسلمانوں سے کہہ رہے ہو کہ آپ کچھ بھی کرلو، لیکن غلطی تو آپ کی ہی ہوگی”۔ وہیں بی ایس پی سربراہ مایاوتی نے آج بدھ کے روزپولیس کی کارروائی کوغلط اوریکطرفہ بتایا۔ انہوں نے کہا کہ اترپردیش کی بی جے پی حکومت کے پاس اگرکوئی پالیسی ہے توتمام اضلاع میں نافذ کریں۔ انہوں نے کہا کہ بغیربھید بھاو کے یہ قواعد وضوابط تمام اضلاع میں نافذ کیوں نہیں ہوتا؟۔