نظام دورحکومت تلنگانہ پسماندگی کی اہم وجہ

حیدرآباد ۔ 29 جون ۔ ( سیاست نیوز) کہتے ہیں سیاستدانوں کے قول و فعل کا کوئی بھروسہ نہیں وہ کہتے کچھ اور ہیں اور کرتے کچھ اور ہیں ۔ کبھی اِس کی ٹوپی اُس کے سر پرڈال دی تو کبھی سر پر ٹوپی پہن کر عوام کو لبھالیا ۔ لیکن ان دنوں ہمارے چیف منسٹر کے چندرشیکھر راؤ کے تعلق سے کچھ اور ہی خیال کیا جارہا ہے۔ ان کے دوہرے موقف سے پریشان مسلم اقلیت اب اُن کی نیت پر بھی شک کرنے لگی ہے ۔ کے سی آر کے وعدوں اور دعوؤں میں فرق سے مسلم اقلیت تشویش کاشکار ہے۔ کے سی آر کی سیاسی صلاحیت اور سیاسی بصیرت کے چرچہ عام ہیں۔ قابلیت، انقلابی کیفیت ، اور مخالفین کو اپنے انداز میں جواب دینے کے معاملہ میں سیاسی میدان میں ہر مخالف ان کی صلاحیتوں کا معترف ہے لیکن اب تلنگانہ کی عوام ان کے دوہرے موقف سے پریشان ہیں اور ان کی نیت پر بھی شک کرنے لگے ہیں۔ چونکہ اکثر سیاسی محاذوں اور شہ نشین پر نظام حیدرآباد کی سراہنا اور نظام دور حکومت کی تعریف کے پل باندھنے والے چیف منسٹر تحریری طورپرنظام کے مخالف تو نہیں؟ چونکہ انھوں نے عالمی بنک کو روانہ کی گئی درخواست مکتوب میں نظام دور حکومت کو تلنگانہ کی پسماندگی کی اہم وجہ بتایاہے ۔ مشہور تلگو روزنامہ آندھرا جیوتی کی رپورٹ کے مطابق تلنگانہ حکومت کی جانب سے ورلڈ بینک کو پیش کردہ درخواست میں 5ا ضلاع میں بہت زیادہ غریبی کو پیش کیا گیا ہے اور ان 5اضلاع کے بشمول کل 10 اضلاع میں ترقی نہ ہونے کی اہم وجہ نظام دور حکومت کے زمینداری اور جاگیرداری نظام کو بتایا گیا ہے ۔ حکومت کی درخواست کے مطابق 10 فیصد عوام دیہی سطح پر شدید مالی پریشانی کا شکار ہیں اور حکومت اس بات کا بھی اعتراف کرتی ہے کہ فاقہ کی اموات پیش آئی ۔ حکومت نے ایک تحقیقاتی و معلوماتی رپورٹ کا بھی حوالہ دیا اور بتایا گیا ہے کہ 1993-94 سے سال 2004-05 تک تلنگانہ اضلاع میں صرف دولت مندوں نے ترقی کی اور تلنگانہ کے اضلاع میں 150 منڈل شدید غربت کا شکار ہیں جہاں تعلیم ، طلب ، شخصی آمدنی ، روزگار ، صحت جیسے سنگین مسائل پائے جاتے ہیں۔ نظام حکومت کے تعلق سے کے سی آر کا عملی موقف مسلمانوں میں تشویش کا باعث بنا ہوا ہے چونکہ کے سی آر مسلمانوں کی پسماندگی کی دہائی دیتے ہوئے مسلمانوں کی ترقی کیلئے کئی وعدے کرچکے ہیں۔ تلنگانہ چیف منسٹر کے مطابق جاگیردار اور زمیندار نظام دور حکومت کا مضبوط حصہ تھے جس کے سبب ترقی ماند پڑ گئی اور اس دوران ساحلی آندھرا اور رائلسیما کاتقابل کریں تو وہاں ترقی تلنگانہ سے زائد ہوئی ۔ کئی مرتبہ تنقیدوں اور مخالفتوں کا سامنا کرنے کے باوجود نظام کے تعلق سے کے سی آر کی ہمدردی اور نظام کی تعریف کو حق پسندی تصور کیا جاتا تھا تاہم اب عملی شکل میں نظام سے کے سی آر کی مخالفت تشویش کا باعث بنی ہوئی ہے ۔ دانشوروں اور مسلم قوم کے رہنماؤں نے فکر کا اظہار کرتے ہوئے کے سی آر کی نیت پر بھی شکوک و شبہات کااظہار کیا ہے چونکہ وعدے تو وعدے ہوتے ہیں لیکن عملی اقدامات میں وعدوں کی مخالفت میں اقدامات حیرت ناک عمل ہے ۔ نمائش حیدرآباد کی افتتاحی تقریب ہو یا پھر جامعہ نظامیہ کی صد سالہ تقاریب ان دونوں موقعوں پر کے سی آر کی نظام ہمدرد پالیسی اور عالمی بنک کو روانہ کردہ رپورٹ میںنظام کی مخالفت کا موقف ان کے دوہرے روپ اور حقیقی چہرے کو ثابت کرنے کے مترادف ہے ۔ تاہم اب کے سی آر کے اس طرح کے موقف سے مسلمانوں میں شدید بے چینی پیدا ہوگئی ہے کہ آیا کے سی آر خوش کرنے کیلئے ایک پالیسی اور عملی طورپر دوسری پالیسی اپنا تے ہیں جو راحت نہیں بلکہ زحمت کا سبب بن جاتی ہے۔ مسلمانوں کی تعلیمی اور سیاسی میدان میں 12 فیصد تحفظات اور ہر شعبہ میں مسلمانوں کی ترقی کو یقینی بنانے کا کے سی آر کئی بار وعدے کرچکے ہیں اور اپنے وعدہ پر کاربند ہونے کا بھی دعویٰ کرچکے ہیں ان کے وعدہ اور عمل آوری کے دعوے مسلمانوں کو لے ڈوبنے کے مترادف ثابت نہ ہوجائیں۔ ایسے شبہات تلنگانہ کی مسلم اقلیت میں پیدا ہورہے ہیں ۔