نام بدلنے کی سیاست احساس کمتری کی علامت ہے۔

سابق رکن پارلیمنٹ محمد ادیب نے کہاکہ یوگی اور مودی کی موجودہ سیاست کی اس سے بدترین کوئی او رمثال نہیں ہووسکتی‘ پارلیمنٹ مسجد کے امام مولانا محب اللہ ندوی نے کہاکہ یہ عوام کو اصل مسائل سے دورکھنے کی سیاست ہے

نئی دہلی۔ مغل سرائے‘ الہ باد‘ فیض آباد کے بعد اب علی گڑہ‘ احمد ااباد اور حیدرآباد جیسے شہروں کے نام بدلنے کی جاری سیاست پر سابق پارلیمنٹ محمد ادیب اور پارلیمنٹ جامع مسجد کے امام وخطیب مولانا محب اللہ ندوی نے شدید ردعمل ظاہر کیاہے۔انقلاب بیوروسے بات کرتے ہوئے محمد ادیب نے کہاکہ یہ جو نام بدلنے کا سلسلہ ہے یہ احساس کمتری کی علام ہے ۔ انہو ں نے کہاکہ یہ ندنصیب لوگ ہیں جن کو اپنی تاریخ نہیں معلوم ۔

انہوں نے کہاکہ ان کو یہی نہیں معلوم کہ ہندوستان بنا کیسے؟۔انہوں نے کہاکہ ابھی ایک بیان آیا ہے کہ مغلوں نے تہذیب بدل دی لیکن حقیقت یہ ہے کہ مغلوں نے ہی اکھنڈ بھارت کا تصور دیا کہ جو ان کے خواب وخیال میں بھی نہیں تھا۔ لیکن آج وہ ان کے نام کو ختم کرکے نہ جانے کیا چاہتے ہیں ۔

محمد ادیب نے کہاکہ اگر مغلوں او رانگریزوں کی خدمات نہ ہوتی تو اس ملک میںآپ تصور کریں یہاں کیاہوتا؟۔ اگر ان کے ناموں کو ہٹادیجئے تو پھر ہندوستان میں کیا بچتا ہے؟۔صرف کھجوراہو کے مندر بچیں گے۔

انہوں نے کہاکہ لیکن بدنصیبی یہ ہے کہ جب انسان احساس کمتری میں اس حد تک مبتلا ہوجائے تو پھر وہ اپنی قوم کو صرف لیکر نہیں ڈوبتا ہے بلکہ پورے ملک کو لے کر ڈوبتا ہے ۔ انہو ں نے کہاکہ ابھی یہ الہ آباد کا نام بدل رہے ہیں جبکہ یہاں ایک پوری تاریخ ہے۔

انہو ں نے کہاکہ جنگ آزادی کی ھوری تاریخ اس سے وابستہ ہے او راسی طرح فیض آباد کی بھی اپنی تاریخ ہے جہاں سے شہادتوں کا سلسلہ شروع تھا۔ جہاں سے انگریزوں کے خلاف بغاوت کے نعرے لگے تھے لیکن اب اس کا نام بدل رہے ہیں ۔

انہوں نے کہاکہ میری تو سمجھ میں نہیں آتا کہ آخر یہ اس ملک کو اب کس نام سے پکاریں گے۔ انہوں نے کہاکہ ایسا لگتا ہے یہ ملک وہیں جائے گا جہاں پہلے تھا بس افسوس ہے کہ ان کوئی مغل آنے والا نہیں ہے جو اس کو جوڑے گا۔ انہو ں نے کہاکہ اگر اب یہ ملک ٹوٹ گیا تو پھر کوئی ایسا شخص نہیں ائے گا جو اس ملک کو جوڑ سکے۔

انہوں نے کہاکہ ابھی یہ شہروں کے بام بدل رہے ہیں‘ پھر درگاہوں او رمحلوں کے اپنے نام رکھیں گے کیونکہ ان کا خیالات کی جو دنیا ہے اس میںیہ چلے جائیں گے اور پھر ملک کہیں فنا ہوجائے گا۔

محمد ادیب نے کہاکہ اس وقت نوٹ بندی سے لے کر رافیل تک کے معاملات تو چل رہے یں لیکن جو سی بی ائی کا معاملہ سامنے آیا ہے اس پر میں نے پارلیمنٹ میں کہاتھا کہ جس ملک کی انتظامیہ بدعنوان ہے وہاں اچھے سماج کی تشکیل نہیں ہوسکتی۔

انہوں نے کہاکہ ملک کی اہم ایجنسی خواہ وہ سی بی ائی ہو‘ ائی ڈی ‘ ائی بی ہوسب کے بارے میںیہ بات کھل کر سامنے آرہی ہیں کہ سب بدعنوان ہیں اور سب نے فرقہ پرستی کا راستہ اختیار کیاہے او روہ سب کھل کر سامنے آرہے ہیں۔

انہوں نے کہاکہ 2019سے پہلے ہم سلام کرتے ہیں ہندوستان کے ائین اور سلام کرتے ہیںیہاں کے سپریم کورٹ کو کہ اس میں کم از کم اتنی جرات موجود ہے ۔

انہوں نے کہاکہ سپریم کورٹ کا جج ہو یا کوئی جج وہ اللہ کا سرزمین پر نمائندہ ہوتا ہے او راس کاکام ہے کہ وہ منصف بنے‘ انصاف پیدا کرے لیکن مشکل یہ رہی انہو ں نے اس پر بھی ہاتھ ڈالنے کی کوشش کی ‘ لیکن سپریم کورٹ یہ بات ثابت کردی وہ اللہ کے نمائندے ہیں او رحق دلانے والے نمائندے ہیں۔

انہو ں نے کہاکہ اگر عام جاگ گئی تویہ2019میں ایک سو کا نشانہ پار کرنے والے نہیں ہیں۔ مولانا محب اللہ ندوی نے کہاکہ اگر حکومت کے پاس عوام کے لئے مثبت کا م ہوتے تو وہ اس کو پھیلاتی لیکن افسوس کہ ہر طرف تخریبی کام ہورہے ہیں۔

ہرطرف دلوں کو توڑنے کا کام ہورہا ہے جس سے مسلمان نہیں بلکہ ملک کا نقصان ہورہا ہے ۔انہو ں نے کہاکہ انسانی زندگی وقت کے ساتھ چلتی ہے او رروشن ضمیر خیال انسان مستقبل کی طرف دیکھتا ہے لیکن افسوس کے ملک یہ سیاست بھٹک گئی ہے۔