ناقابل علاج ذیابیطس کا موثر علاج دریافت کرنے کا دعویٰ

ذیابیطس کو لاعلاج مرض قرار دیا جاتا ہے جس سے مکمل نجات تو ممکن نہیں مگر طرز زندگی میں تبدیلیاں لاکر لوگ خود کو صحت مند رکھ سکتے ہیں۔مگر اب طبی ماہرین نے ایسی دوا کی تیاری میں پیشرفت کا دعویٰ کیا ہے جو کہ انسولین بنانے والے خلیات کی تعداد کئی گنا بڑھا کر ذیابیطس کا علاج ثابت ہوسکتی ہے۔یہ دعویٰ امریکہ میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آیا۔
مآنٹ سینائی ہاسپٹل کے Icahn اسکول آف میڈیسین کی تحقیق میں اس دوا ہارمائن کی تیاری کا دعویٰ سامنے آیا جو لبلبے کے خلیات کو بہت زیادہ متحرک کرکے انسولین بنانے والے بیٹا سیلز کی تعداد دس گنا بنانے میں مجبور کردیتی ہے۔
ذیابیطس کے شکار افراد کو لبلبے میں بیٹا سیلز کی کمی کا سامنا ہوتا ہے جو کہ انسولین بناتے ہیں، انسولین کی ناکافی مقدار کے باعث جسم گلوکوز کو پراسیس نہیں کرپاتا۔
اس نئی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ ہارمائن کا امتزاج ایک اور دوا جو کہ عام طور پر ہڈیوں کی نشوونما کے لیے استعمال ہوتی ہے، سے کیا جائے تو ایک دن میں 40 گنا زیادہ بیٹاسیلز بننے لگتے ہیں۔
یہ دوا ابھی تجرباتی اور ٹیسٹنگ مراحل سے گزر رہی ہے مگر محققین کا خیال ہے کہ انسولین بنانے والے خلیات پر اس کے طاقتور اثرات ٹائپ ون اور ٹائپ ٹو ذیابیطس کے علاج کے لیے اسے انقلابی ثابت کرسکتے ہیں۔
دنیا بھر میں ذیابیطس کا مرض ایک وبا کی طرح پھیل رہا ہے جس کی وجہ موٹاپا اور ناقص طرز زندگی ہے۔اگر ذیابیطس کو کنٹرول میں نہ رکھا جائے تو سنگین طبی پیچیدیوں جیسے گردوں کو نقصان پہنچنا، بینائی سے محرومی، امراض قلب، فالج اور دیگر کا سامنا ہوسکتا ہے۔اس نئی تحقیق میں شامل ٹیم کا کہنا تھا کہ اس وقت ایسی کوئی دوا موجود نہیں جو ذیابیطس کے مریضوں میں بیٹا سیلز دوبارہ بننے میں مدد دے سکے۔یہ تحقیق درحقیقت اس ٹیم کے ماضی کے کام کا تسلسل ہے۔
اس ٹیم نے 2015 میں ایک تحقیقی مقالہ جاری کیا تھا جس میں ہارمائن کی دریافت کے بارے میں بتایا گیا تھا جو کہ چوہوں میں نئے بالغ انسانی بیٹا سیلز بننے میں مددگار ثابت ہوئی۔
2017 میں دوسری تحقیق کے مقابلے میں بیٹا سیلز اور انسولین کے درمیان تعلق پر روشنی ڈالتے ہوئے مختلف پیچیدگیوں کا ذکر کیا گیا تھا۔اب نئی تحقیق میں تحقیقی ٹیم نے ایسی ادویات کی شناخت کی ہے جو انسانی بیٹا سیلز بننے کے عمل کو ہارمائن کے ساتھ مل کر تیز کرسکتی ہیں۔
محققین کا کہنا تھا کہ ہم نتائج کو دیکھ کر بہت پرجوش ہیں کیونکہ پہلی بار ہم نے انسانی بیٹا سیلز کی نقل بننے کے عمل کو انتہائی تیز دیکھا ہے۔انہوں نے کہا کہ اب اس طریقہ کار کو انسانوں پر آزمانا باقی ہے جس کے بعد ہی یہ مریضوں کے لیے دستیاب ہوسکے گی۔