نابالغ بچے کا اذان دینا

سوال : اکثر مساجد میں نادان چھوٹے بچے آتے ہیں، کبھی کبھی وہ اذان بھی دیدیتے ہیں۔ نادان و کم عمر بچے کی اذان کا کیا حکم ہے ؟
عبدالصبور، فتح دروازہ
جواب : اگر بچہ قریب البلوغ ہو اور سمجھدار ہو تو اس کا اذان دینا جائز ہے اور اگر بچہ غیر عاقل ہو اس کو تمیز و شعور نہ ہو تو ایسے بچے کا اذان دینا مکروہ تحریمی ہے ۔ در مختار برحاشیہ ردالمحتار جلد اول کتاب الصلاۃ ص 422 میں ہے : (ویجوز) بلا کراھۃ (اذان صبی مراھق و عبد) اور ردالمحتار میں اسی کے تحت ہے : (صبی مراھق) المراربہ العاقل و ان لم یراھق کما ھو طاھر البحر وغیرہ۔ وقیل یکرہ لکنہ خلاف ظاھر الروایۃ۔
واضح رہے کہ قریب البلوغ سمجھدار لڑکے کا اذان دینا اگرچہ جائز ہے لیکن بالغ شخص کا اذان دینا ہی اول و افضل ہے ۔ ردالمحتار میں (بلا کراھۃ)کے ضمن میں ہے : أی تحریمۃ ، لان التنزیھۃ ثابتۃ لما فی البحر عن الخلاصۃ ان غیرھم اولیٰ منھم اھ ع

’’گھر سے نکل جا‘‘ تین مرتبہ کہنے پر طلاق؟
سوال : کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ میں کہ میاں بیوی میں جھگڑا ہوا۔ میاں نے کہا کہ ’’ گھر کام نہیں کرنا ہے ‘‘ یا ’’ میرا کام نہیں کرنا ہے ‘‘ یا ’’ میری بات نہیں ماننا ہے ‘‘ تو ’’ گھر سے نکل جا‘‘ ، ’’ چلی جا ‘‘ کہہ کر دھکیل دیا ۔ برائے مہربانی قرآن و حدیث کی روشنی میں مدلل جواب عنایت فرمائیں۔ برائے مہربانی فقرہ واری جواب عنایت فرمائیں ۔
۱۔ ’’ گھر سے نکل جا‘‘ تین مرتبہ کہتے ہوئے دھکیل دینے پر کیا حکم ہے ؟
۲ ۔ بیوی کے ذمہ شوہر کے بالغ (5 یا 6 ) بھائیوں کا کام کرنا ہے یا نہیں ۔ اس کا کیا حکم ہے ؟
۳ ۔ بیوی اگر بیمار ہو تو اس کے ذمہ ماں باپ یا شوہر کی خدمت بیماری کی حالت میں کرنا لازم ہے یا نہیں اس کا کیا حکم ہے ؟
۴ ۔ شوہر کہے کہ میرے ماں باپ اور بھائیوں کی خدمت کرو وہ اگر خوش ہیں تو میں بھی خوش ہوں ورنہ میں بھی تم سے ناراض ہوں تو اس کے لئے کیا حکم ہے ؟
۵ ۔ بیوی بیماری کی وجہ سے شوہر سے یہ کہے کہ آپ کو صبح جانا ہے اس لئے میں آپ کا جو کام ہے وہ صبح آپ کے جانے سے پہلے کردیتی ہوں اب اس وقت میری طبیعت بہت خراب ہے اور شوہر کہے کہ ’’ نہیں ابھی یعنی رات میں ہی یہ کام کردو‘‘ اور پھر اسی بات پر شوہر مذکورہ بالا فقرہ نمبر (۱) کہتا ہوا دھکیل دیا تو اس کے لئے کیا حکم ہے ؟
۶ ۔ تین منزلہ بلڈنگ میں اوپری تیسری منزل پر باورچی خانہ ہے اور دوسری اور پہلی منزل پر رہائش ہے تو صبح سے شام تک اوپر سے نیچے آنے جانے میں بیوی کے پیروں میں درد ہوگیا ہے تو اس کیلئے شوہر پر کیا ذمہ داری ہے جبکہ شوہر کہتا ہے کچھ بھی ہو تم کو کام کرنا ہی کرنا ہے تو اس کیلئے کیا حکم ہے ؟ (اور اسی وجہ سے حمل بھی ضائع ہوتا جارہا ہے)
۷ ۔ شوہر صبح سات (7) بجے جاکر رات میں (11) یا (12) بجے تک آتا ہے ۔ اس اثناء میں ماں طعنہ تشنہ سے کام لیتی ہے جس کی وجہ سے بیوی کو مرض دق لاحق ہوگیا ہے تو اب اس پر شوہر کی کیا ذمہ داری ہے اور اس کا حکم کیا ہے ؟
۸ ۔ بیوی اب اپنے ماں باپ کے پاس ہی ہے مزاج کی ناسازی کی وجہ سے شوہر کے لوگ بات چیت کے لئے آرہے ہیں۔ برائے مہربانی قرآن و حدیث کی روشنی میں بیوی کے لئے کیا حکم ہے ، بتائیں تو مہربانی ہوگی ؟
ای میل
جواب : ۱ ۔ ’’گھر سے نکل جا‘‘ ’’ چلی جا‘‘ کنایہ کے الفاظ ہیں اور اسمیں نیت کا اعتبار ہے طلاق کی نیت تھی تو طلاق ہوگی ورنہ نہیں۔
۲ ۔ بیوی کے ذمہ یہ کام واجب نہیں ہے۔
۳ ۔ حسب طاقت شوہر کی خدمت کرے۔ ساس سسر کی خدمت کرنا واجب نہیں۔
۴ ۔ شوہر کو راضی رکھنے کیلئے خدمت کرسکتی ہے۔
۵ ۔ شوہر کا عمل غیر شرعی ہے۔ نیت طلاق کی تھی تو طلاق ہوگی ورنہ نہیں۔
۶ ۔ دونوں آپس میں صلح کرلیں۔ بیوی بھی انسان ہے، انسانیت کو پیش نظر رکھیں۔ بیوی موزوں وقت پر اوپر جاکر باورچی خانہ کا مکمل کام کر کے اترے
۷ ۔ شوہر پر لازم ہے کہ ایسا انتظام کرے کہ بیوی کو اپنی ساس کے طعنے سننے کا موقع نہ ہو یا علحدہ مکان لے کر رکھے۔
مسجد اور گھر میں باجماعت نماز کا ثواب
سوال : میں کینیڈا میں مقیم ہوں، میرے ساتھ چند مسلم نوجوان ہیں۔ ہمارے محلہ میں مسجد نہیں ہے ، معلوم کرنا یہ ہے کہ اگر کسی آبادی سے مسجد کچھ کم یا زائد تین کیلومیٹر کے فاصلہ پر واقع ہو کہ جس کی وجہ سے مسلمانوں کا نماز پنجگانہ میں شریک ہونا دشوار ہو اور ایسی صورت میں مقامی مسلمان کسی ایک مکان کو مرکز بنائیں اور وہاں جمع ہوکر نماز پنجگانہ کا باجماعت اہتمام کریں تو جماعت کا ثواب اور مسجد میں نماز ادا کرنے کی فضیلت حاصل ہوگی یا نہیں ؟
عبدالأحد، ای میل
جواب : کسی مسلم آبادی سے مسجد دور ہونیکی وجہ اگر وہاں کے مسلمان کسی مکان کو عارضی طور پر باجماعت نماز ادا کرنے کے لئے مختص کرلیں تو بفحوائے حدیث پاک ’’ صلوٰۃ الرجل فی جماعۃ تضعف علی صلوٰتہ فی بیتہ و فی سوقہ خمسا و عشرین ضعفا … صلوٰۃ الجماعۃ افضل من صلوٰۃ الف بسبع و عشرین (رواہ البخاری) پچیس گنا یا ستائیس گنا مضاعف اجر و ثواب کے مستحق ہوں گے ۔ تاہم مسجد کی فضیلت جو احادیث میں وارد ہے وہ اس عارضی مکان کو نہ فضیلت حاصل رہے گی نہ ہی آداب مسجد اس میں شرعاً ملحوظ رہیں گے چونکہ اسلامی معاشرہ میں مسجد کو بنیادی اہمیت و مرکزی حیثیت حاصل ہے ۔ اس لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ طیبہ ہجرت فرماکر سب سے پہلے اپنے اصحاب کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ساتھ مل کر مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعمیر فرمائی۔ حدیث پاک میں وارد ہے کہ قیامت کی ہولناک گھڑی میں جہاں جہاں لوگ گرمی کی شدت سے اپنے اعمال کے مطابق پسینہ میں شرابور ہوں گے اور جہاں حصول راحت کیلئے کوئی سایہ نہ ہوگا ، حق سبحانہ و تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے سات قسم کے لوگوں کو عرش کے سایہ میں جگہ عطا فرمائیں گے ، انہیں میں سے ایک وہ بھی ہیں جن کے قلوب مسجد میں لگے رہیں گے۔ قلبہ معلق فی المساجد (بخاری، مسلم بحوالہ مشکوٰۃ المصابیح) اور ایک حدیث پاک میں ہے کہ اللہ کے وہ نیک بندے جو صبح و شام مساجد کا رخ کرتے ہیں ، حق سبحانہ تعالیٰ ان کے لئے جنت میں مہمانی کا سامان مہیا فرماتا ہے ۔ من غدا الی المسجد اوراح اعداللہ لہ نزلہ من الجنۃ کلما غدا اوراح (بخاری، مسلم بحوالہ مشکوٰۃ المصابیح)۔ ایک مرتبہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے ارشاد فرمایا کہ تم جنت کے باغوں سے گزرو تو اپنے آپ کو خوب سیراب کرلو ۔ عرض کیا گیا جنت کے باغ کونسے ہیں ؟ آپ نے ارشاد فرمایا کہ وہ ’’مساجد‘‘ ہیں۔
عن ابی ھریرۃ رصی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذا مرر تم بریاض الجنۃ فارتعوا ۔ قیل یا رسول اللہ و ما ریاض الجناۃ قال المساجد ( مشکوٰۃ المصابیح ص : 70 بحوالہ ابو داؤد) ۔ نیز حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ارشاد ہے کہ روئے زمیں پر سب سے بہترین اور خیر کے حامل مساجد ہیں ۔ ’’ خیر البقاع مساجد‘‘ بحوالہ مشکوٰۃ المصابیح ص : 71 ۔ ( ابن حبان ) مذکورہ آبادی کے مسلمانوں کو چاہئے کہ مسجد کی تعمیر کا اہتمام کریں تاکہ وہاں کے مسلمان مسجد کے مذکورہ بالا برکات و ثمرات سے بہرہ مند ہوسکیں۔

دعاء میں صیغہ کی تبدیلی
سوال : ہمارے محلہ کی مسجد کے امام صاحب اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے پانچوں وقت کی نماز پڑھاتے ہیں۔ رہا سوال یہ کہ قرآن پاک میں لا الہ الا انت سبحنک انی کنت من الظلمین۔ لکھا ہے۔ لیکن ہمارے مسجد کے امام صاحب نماز کے بعد دعا کرتے وقت لا الہ الا انت سبحنک انا کنا من الظلمین پڑھتے ہیں۔ ان دونوں دعاؤں میں کونسی دعا پڑھنا درست ہے۔ براہ کرم ہمیں شرعی طور پر اس مسئلہ کا درست حل دیجئے مہربانی ہوگی ؟
نام ندارد
جواب : ’’ انی کنت من الظلمین ‘‘ میں ’’ انی کنت ‘‘ واحد متکلم کا صیغہ ہے جس کے معنی میں اپنے نفس پر ظلم کرنے والوں میں سے ہوں اور ’’ انا کنا ‘‘ کے ساتھ پڑھیں تو اس وقت معنی یہ ہوں گے کہ ہم اپنے نفسوں پر ظلم کرنے والے ہیں۔ امام صاحب دعاء میں ’’ انا کنا ‘‘ پڑھتے ہیں تو مصلیوں کو اس میں شامل کرتے ہوئے جمع کا صیغہ پڑھتے ہیں جو کہ درست ہے اور اگر قرآن میں جو الفاظ واحد متکلم کے ساتھ آئے ہیں اس سے بھی پڑھ سکتے ہیں۔ جب قرآنی آیت میں واحد متکلم کے صیغہ کو جمع کے ساتھ بطور دعاء پڑھتے ہیں اور مصلیوں کو شک و شبہ پیدا ہورہا ہے تو بہتر یہی ہے کہ قرآنی آیت کو بلفظہ پڑھا جائے۔

قبرستان میں دنیوی گفتگو کرنا
سوال : عموماً نماز جنازہ کے لئے وقت باقی رہے تو لوگ گفتگو کرتے ہیں اور قبرستان میں میت کے قریبی عزیز و اقارب تدفین میں مصروف رہتے ہیں اور دیگر رشتہ دار و احباب باتیں کرتے رہتے ہیں، وہ بھی دنیا کی باتیں کرتے ہیں۔
آپ سے معلوم کرنا یہ ہے کہ ایسے وقت میں ہمیں کیا کرنا چاہئے۔ کوئی خاص ذکر اس وقت مسنون ہے تو بیان کیجئے ؟
محمد عمران ، تالاب کٹہ
جواب : نماز جنازہ میں شرکت کرنا تدفین میں شریک رہنا موجب اجر و ثواب ہے۔ اسی طرح کسی کا انتقال کرجانا دنیا کی بے ثباتی پر دلالت کرتا ہے کہ ایک دن ہمیں بھی اس دنیا سے رخصت ہونا ہے اور ہمارے بدن میں موجود ہماری روح ایک دن اس بدن کو چھوڑ کر روانہ ہوجائے گی پھر اس جسم میں کوئی حس و حرکت باقی نہیں رہے گی۔ اور وہ شخص جو مانباپ کا منظور نظر تھا ، اولاد کا محبوب تھا، دوست و احباب کا دلعزیز تھا ، وہی ماں باپ ، اولاد ، دوست و احباب اس کے بے جان جسم کو جلد سے جلد زمین کے نیچے کرنے کی فکر کریں گے اور اس کے بعد کے منازل اس کو اکیلے ، تنہا طئے کرنے ہوں گے ۔ اس کے ماں باپ ، اولاد ، دوست و ا حباب ، رشتہ دار قبر تک ساتھ آئیں گے پھر واپس چلے جائیں گے ۔ قبر میں تنہا چھوڑ جائیں گے۔ نہ کوئی دوست ہوگا اور نہ کوئی مونس پاس ہوگا ۔ بس وہ ہوگا ، اس کے اعمال ہوں گے اور خدا کا فضل ہوگا ۔ اسی بناء پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے زیارت قبور کی تر غیب دی کیونکہ اس سے آخرت کی یاد اور دنیا سے بے رغبتی پیدا ہوتی ہے۔
بناء بریں حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح ص : 401 میں ہے : جنازہ کے ساتھ جانے والے کے لئے مستحب ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ذکر میں مشغول رہے اور غور و فکر کرے کہ میت کو کیا حالات درپیش ہوں گے اور اس دنیا کے انجام و نتیجہ پر غور کرے اور اس موقعہ پر بالخصوص لا یعنی بے فائدہ گفتگو سے بچنا چاہئے کیونکہ یہ ذکر و شغل اور نصیحت حاصل کرنے کا وقت ہے ۔ تاہم بلند آواز سے ذکر نہ کرے اور ایسے وقت میں غافل رہنا نہایت بری بات ہے اور اگر وہ ذکر نہ کرے تو اس کو خاموش رہنا چاہئے ۔ وفی السراج یستحب لمن تبع الجنازۃ ان یکون مشغولا بذکراللہ تعالیٰ والتفکر فیما یلقاہ المیت وان ھذا عاقبۃ أھل الدنیا ولیحذر عمالا فائدۃ فیہ من الکلام فان ھذا وقت ذکر و موعظۃ فتقبح فیہ الغفلۃ فان لم یذکراللہ تعالیٰ فلیلزم الصمت ولا یرفع صوتہ بالقراء ۃ ولا بالذکر۔