نئی یہودی بستی کی تعمیر کے خلاف فلسطینیوں کا احتجاج

یروشلم ۔ 31 مارچ (سیاست ڈاٹ کام) فلسطینیوں نے اسرائیلی کابینہ کی جانب سے مقبوضہ کنارہ میں نئی بستی تعمیر کرنے کے منصوبہ کو منظوری دینے پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے احتجاج کیا زائد از 20 سال میں پہلی مرتبہ اسرائیل نے سرکاری طور پر باقاعدہ نئی بستی کے قیام کی منظوری دی ہے۔ سیکوریٹی کابینہ نے جمعرات کی شب دیر گئے نئی بستی کے قیام کی متفقہ طور پر حمایت کرتے ہوئے اسے منظور کرلیا۔ اس اقدام سے ظاہر ہوتا ہیکہ اسرائیل میں کٹر دائیں بازو کی حکومت نے تاریخ کو پیروں تلے روند کر اپنے توسیع عزائم کو بروئے کار لانے کی کوشش شروع کی ہے۔ بین الاقوامی تنقیدوں کے درمیان اس کی نوآبادیاتی پالیسی پر عمل آوری کی فلسطینیوں نے مخالفت کی۔ فلسطین کے سینئر عہدیدار حنان اشروی نے کہا کہ اس اقدام سے ظاہر ہوتا ہیکہ اسرائیل نے فلسطینی عوام کے انسانی حقوق کی کوئی پرواہ نہیں کی ہے۔ اپنے غیرقانونی اقدام کے ذریعہ اس نے فلسطینیوں کے انسانی حقوق پر کاری ضرب لگایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل اپنے غیرقانونی توسیع پسندانہ پالیسیوں کو روبہ عمل لانے میں کسی بھی  حد تک جانے کا مظاہرہ شروع کیا ہے۔ اسرائیل کو اس خطہ کے استحکام اور امن کیلئے مطلوب اقدامات کرنے کے بجائے اشتعال انگیز پالیسیاں روبہ عمل لارہا ہے۔ اس نئی یہودی بستی کو سابق وائیلڈ کیاٹ یہودی آوٹ پوسٹ کے قریب بسا جارہا ہے جو امونا کے نام سے مشہور ہے جس کو اسرائیلی ہائیکورٹ کے احکام کے مطابق فبروری میں مسمار کردیا گیا تھا۔ عالمی برادری نے اسرائیل کے تمام نوآبادیات پر اظہارتاسف کیا ہے۔ مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں یہودی بستیوں کا قیام غیرقانونی ہے۔ اس سے مشرق وسطیٰ امن کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ پیدا ہوگی۔