میری کہانی کا انجام …

شمیم الصباح حسینی
آج دفتر کے کسی بھی فائیل پر میرا دل نہیں لگ رہا تھا ، دل نہ لگنے کی وجہ شاید میری دماغی تھکاوٹ ہو۔ تھکاوٹ کی وجہ میری وہ کہانی تھی جس کو مکمل کرکے میں صبح صبح سویا تھا، مگر صبح کے شور و غل نے مجھے اتنا وقت ہی نہ دیا کہ میرے جسم کی پوری تھکاوٹ ختم ہوجاتی۔ چاروناچار میں تھکے قدموں سے ہی دفتر میں داخل ہوا۔
جب کوئی تخلیق کار اپنے کسی بھی فن پارے کی تکمیل میں مصروف ہوجاتا ہے اس کی تمام جسمانی، روحانی ، اندرونی و بیرونی قوتیں ایک ہی نکتے پر آکر مرکوز ہونے لگتی ہیں جس سے اُس کا ذہنی شعور اُس تخلیق سے ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش میں مسلسل جدوجہد کرنے لگتا ہے، یہی کہانی کے موڈ کا سبب بن جاتا ہے۔ جب موڈ کو حالات سازگار حاصل نہ ہوں… تو … پھرکہانی کار کو اپنی تخلیق کا مقصد فوت ہوتا نظر آتا ہے اور وہ ایک اعصابی تناؤ کاشکارہی ہوجاتا ہے، لیکن تخلیق کار ایک سائنسی دور کا انسان ہی ہے وہ بھی اعصابی تناؤ سے ہر حالت میں چھٹکارہ پانا اپنا حق سمجھتا ہے ! ایسی حالت میں وہ چند محرکات سے بھی نبرد آزما ہوتا ہے۔ عمدہ تخلیق ہی دراصل موڈ کو بنائے رکھنے اور ایسے اعصابی تناؤ پر فتح حاصل کرنے، عمل و ردِ عمل کے مسلسل پییم کا نتیجہ ہی ہوتی ہے… انہی خیالات میں گم میں سب سے پہلے اپنی جگہ سے اُٹھا اور حسبِ عادت سگریٹ سلگایا۔
… اور پاس کے چیمبر کی طرف جانے لگا ، لکشمن چپراسی اطمینان سے اپنے دونوں پیر ایک دوسرے پر ڈالے دیوار کا سہارا لیئے کافی حالتِ سکون و اطمینان سے سگریٹ کا دھواں اُڑا رہا تھا۔

کیا میری اس بے چینی اور لکشمن کے اس اطمینان میں کوئی نسبت ہے؟ میں سکون کی تلاش میں ہوں اور وہ سکون سے بیٹھا ہے۔ اُس کے سکون میں ہی میں نے اپنا سکون پالیا۔ طوفان کی آمد سے قبل ماہی گیروں کو ’’ چیتاؤنی ‘‘ دی جاتی ہے کہ وہ سطحِ ساحل سے دور رہیں، یہاں تو طوفان بھی نہیں اور ساحل پر بھی خاموشی ہے…… ساحل کے کنارے پوری زندگی گذارنے والے مچھیروں کو تو طوفان کا اندازہ ، طوفان کی آمد کی اطلاع سے قبل ہی ہوجاتا ہے!
میں سگریٹ سلگایا اور لکشمن کے سامنے آکھڑا ہوا۔ اُس کے ہاتھ کا جلتا ہوا سگریٹ اور میرے ہاتھ جو ابھی ابھی سگریٹ سے گرم ہوئے تھے لکشمن نے مجھے اس طرح دیکھا جیسے میرا وہ ہم راز ہے اور میں اس کا ہم دَم۔
صاحب ! بڑے صاحب کسی انجینئر اور آرکیٹکٹ صاحب کے ساتھ سائٹ پر گیا!
میں نے کہا : سائٹ پر گئے ہیں ؟
ہاں صاحب ۔ سائٹ پر بہت دور… ساغر کالونی میں صاحب ! جہاں اُن کی بلڈنگ بن رہی ہے !
میں اپنے اوپر ایک ڈرامائی کردار کا روپ دھارتے ہوئے کہا ہاں، ہاں مجھے پتہ ہے!
پھر جیسے میں نے بہت کچھ حاصل کرلیا ہو۔ اپنی فائیلوں کو کچھ اس طرح ترتیب دی کہ جیسے میں ابھی ابھی کام کرتا ہوا اُٹھا ہوں۔ اپنی جگہ سے اُٹھااور سڑک پر اپنا فاصلہ طئے کرنے لگا۔ کہاں کے موڈ کو برقرار رکھنے کی اس کوشش میں بار بار باس کا چہرہ سامنے آنے لگا۔ پھر میں نے اپنے دل کو یہ کہہ کر تسلی دی کہ یہ بات تو میری عادت سی بن گئی ہے کہ کچھ کام کرنا اور پھر اس کے کرنے پر پچھتانا۔ گھر پہنچ کر میں اپنی میز پر اپنے کاغذات اُلٹے پلٹے پڑے دیکھے مجھے خیال آیا کہ شاید نجمہ نے میری وہ کہانی پڑھی ہو جس کو میں رات کے ایک بڑے حصے تک لکھتا رہا۔ ہونہ ہو یہ کام نجمہ کے سوائے اور کس کا ہوسکتا ہے؟ بچے چھوٹے ہی ہیں ان میں کسی کو بھی کہانی پڑھنے کا شعورہی کہاں!
پھر میں نے اپنی نئی کہانی کے وہ صفحات تلاش کئے جو اختتام کو پہنچ چکی تھی ۔ ویسے اس کے لئے مجھے زیادہ محنت کرنی نہیں پڑی لیکن یہ کیا ! مجھے صرف آخری صفحات ہی مل پائے اور اس کے ابتدائی اوراق تو بالکلیہ ندارد۔!
اب میرا صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا، میں اپنی جگہ سے اُٹھا پیار و محبت اس کے ساتھ ہی ساتھ کچھ غصہ ، کچھ عجیب و غریب جذبات جو میرے اوپر طاری ہوچکے تھے میں نجمہ کے قریب آیا اور آہستہ سے یہ دریافت کیا کہ نجو ! میری کہانی کے ابتدائی صفحات نہیں مل پارہے ہیں۔
نجمہ نے مجھ پر ایک بھرپور نظر دوڑائی اور دوسری طرف اپنے چہرے کو گھماکر کہا کیا آپ اپنی عمر کہانیوں کی نوک پلک درست کرنے، خیالی مسائل کو اُن کے تصوراتی نتائج سے ہی آگاہ کرتے رہیں گے اور اس پر خوش ہوتے رہیں گے۔ میرے آج سے لپٹے ہوئے جو مسائل ہیں کیوں وہ آپ کے موضوعات قرار نہیں پاتے۔’’ موضوعات‘‘ ’’ مسائل ‘‘ و ’’ نتائج ‘‘ … ان الفاظ کی ایک مسلسل زنجیر نے مجھے اس بات کا یقین دلایا کہ میرے ابتدائی صفحات ضرور کسی اچھی جگہ رکھے ہوں، میں نے اپنے آپ سے پیار و محبت و غصے کے بھرپور سنگم سے جو میں ابھی تک ساتھ لیئے نجمہ سے محو گفتگو تھا اس میں سے غصہ کو بالکلیہ نکال کر صرف پیار بھرے لہجے میں نجمہ سے کہا نجو آخری اختتام والا صفحہ ہی میز پر رکھا ہے! کیا تمہیں اس آخری صحفہ سے دلچسپی نہیں ہے!
مجھے میرے دوستوں کی وہ اہم باتیں یاد آئیں کہ قارئین کرام کے لئے بعض وقت کہانی کا آخری حصہ دلچسپی کا باعث بنتا ہے۔ دوبارہ میں نے اپنے خیال کو کچھ نجمہ کی فرمائشات کے بھی قریب سیر کرانے کی کوشش میں محو، نجمہ کی طرف دیکھا۔

نجمہ جو میرے دو معصوم بچوں کے درمیان بیٹھی بچوں کی شرارتوں اور اُن کی ہٹ دھرمیوں سے نبردآزما تھی کہہ اُٹھی کہ تم نے مجھے ابھی تک کہانی کے آغاز سے ہی واقف کرایا اس کے ابتدائی حصے کے تیر و ترکش سے زخم کھارہی ہوں، مجھے نہ اتنی فرصت ہوئی کہ اس کے اختتام پر نظر دوڑاؤں، نہ اتنا وقت مجھے ملا کہ اس کے اختتام کے اچھے یا بُرے ہونے کا فیصلہ کرسکوں۔ پپو اور گڈو کی تمہیں کچھ فکر بھی ہے! پپو رات سے بخار میں پڑا کراہ رہا ہے اور گڈو تو ٹھنڈا دودھ ہی منہ کو نہیں لگاتا۔ پھر میں کیا کرتی ……
تب میں نے غصے کے ساتھ جو کچھ دیر قبل بناوٹی انداز میں تھا چیخ کر کہا تم نے رات ہی میں مجھ سے کیوں نہ کہا !
تب نجمہ نے مجھ پر اس طرح نظر ڈالی کہ وہ کسی جنگ کے آغاز پر تُلی ہو۔ تم … تم رات میں کتنی دیر سے اپنے دوستوں کی محفل برخاست کرکے گھر آتے ہو اور میں دن بھر کے کام کاج سے کچھ اس طرح نڈھال ہوجاتی ہوں کہ …
میں نجمہ سے کچھ اور بولتا یا اُس سے کچھ اور سُنتا مجھے کسی خالی ڈبے کے زور زور سے بجنے کی آوازاور اُس کے ساتھ ہی ایک مشہور فلمی گانے کا مکھڑا سنائی دیا ، یہ آواز جیسے ہی قریب آئی باہر کا دروازہ کچھ اس طرح زور سے کُھلا جیسے کوئی مہاجن قرض وصولی کرنے کسی غریب کا دروازہ زور سے مار کر کھولتا ہے ، میں کچھ ٹھنکا۔ جو نظر پڑی تو صاحبزادے ایک خالی ڈبہ لیئے میرے سامنے اس طرح کھڑے ہیں جیسے کسی کارٹونسٹ کے خاکے کا عنوان ’’ کئی بارلائن میں کھڑا رہا لیکن ناکام ‘‘۔
مجھے دیکھ کر ڈبہ نیچے رکھ کر میرا سب سے بڑا بیٹا میرا لخت جگر کچھ سہما سہما سا کچھ حیران سا میری طرف اس طرح دیکھنے لگا جیسے کسی پولیس انسپکٹر کو دیکھ کر مجرم کھڑا ہے اور لاش سامنے دھری ہے!
دوبارہ دروازے کی آہٹ نے مجھے پھر دوسری بار دروازے کی طرف متوجہ کیا ۔ میری دس سالہ خوب صورت بیٹی جسے میں بے بی اور نجمہ گڈی کہا کرتی ہے ، مجھے دیکھ کر بے انتہا خوشی سے چیختی اور ہیلو پپا کہتے ہوئے مجھ سے لپٹ گئی۔

گڈی جو موجودہ اسٹائیل سے بال سنوارے منی اسکرٹ پہنے اور ایک خوش رنگ و دلکش سینڈل پہنے اندر داخل ہوئی اور مجھے غیر متوقع دیکھ کر مجھ سے لپٹ گئی۔ واقعی گڈی کی خوشی حق بہ جانب تھی اور اس کے ساتھ واجبی بھی۔ کیونکہ تقریباً ہر روز وہ میرے بستر سے اُٹھنے سے قبل اسکول چلی جاتی ہے اور میرے گھر لوٹنے سے قبل سوجاتی ہے۔ پھر نجمہ بھی اکثر کہا کرتی کہ گڈی کو آپ سے کتنی محبت ہے! آپ کو محو خواب دیکھ کر وہ کتنی خوش ہوتی ہے اور بغیر آوازکئے کس طرح دبے پاؤں بستہ لئے اسکول چلی جاتی ہے!
گڈی کی اس آواز سے نجمہ اپنی جگہ سے اُٹھ کر میرے قریب کچھ فاصلے پر اس طرح کھڑی ہوگئی جیسے وہ استغاثہ میں سرکاری گواہ بننا چاہ کر جرح کرنا چاہتی ہو۔ ہر اُس سوال پر اُسے اتنا اعتماد ہے کہ مجرم کی ہر کمزوری سے واقف ہوتے ہوئے فائدہ اٹھانے پر تیار۔ اور پھر اس کے سامنے رحم کی بھی کوئی گنجائش ہی نہیں۔ لیکن اُس کی نگاہیں بار بار میری اور گڈی کی طرف ہی پڑ رہی ہیں کبھی کبھی اپنے لخت جگر کی طرف جو ابھی تک بُت بنا میرے سامنے کھڑا ہے۔
یہ ایک حقیقت، جو سبھی کی مانی ہوئی ہے، چہرہ ایک کتاب ہے تو جذبات و احساسات کی ترجمانی کا بہترین ذریعہ۔ زبان شکایتوں کی زنجیر بنانا چاہتی ہے لیکن دل ، اس خوشی کے لمحات کو ضائع کرنا نہیں چاہتا۔ دماغ جہاں عقل محرک ہے کہتا ہے کہ موقعہ بہتر ہے ۔ دل کہتا ہے کہ ’’ زبان پر مہر لگی ہے تو کیا ‘‘ میں اسے زندان کہوں یا گلشن۔ میں آنکھ سے ڈھلنے والی ان موتیوں پر اپنی زبان رکھ دی ہے۔ یہ موتی وہ ہیں جو خوشی کے لمحات کو ضائع نہیں کرنا چاہتے۔ جو خوشی کا ہی سودا جانتے ہیں، کیا عورت کی یہی کمزوری ہے! جو رشتوں کی خوشی کو خلوص سے نبھانے میں اپنا سب کچھ قربان کردیتی ہے، کیا عورت کی یہی کہانی ہے؟
غالب کے یہاں شمع ہر ایک میں جلتی ہوئی سحر تک جا پہنچتی ہے۔ ایسی شمع جب ہوا سے کچھ بھڑکنے لگتی تو مضبوط ہاتھ ان کی لو کی طرف بڑھ کر ان کو سہارا دیتے جب ہاتھ ہوا کے جھونکوں کو روکنے کیلئے بڑھے تو دو انگلیوں کے درمیان کا خلاء بھی اتنا مضبوط ہوجاتاکہ کوثی بھی جھونکا شمع تک بڑھنے کی ہمت نہ کرسکتا۔ لیکن آج ہاتھ اتنے کمزور کہ وہ اُٹھ بھی نہیں سکتے اتنے بزدل کے ہمت بھی نہیں کرپاتے۔ شمع تو آج بھی جل رہی ہے اور بس جل رہی ہے، جنہیں نہ سحر کا انتظار ہے نہ اُفق سے نمودار ہونے والی کسی پہلی کرن کا۔
انہی خیالات میں محو میں کھڑا اُس پھول کو دیکھ رہا ہوں جو وقت کا فاصلہ طئے کرنے سے قبل مرجھا نہیں گیا بلکہ شب و روز کی گرمی سے متاثر ضرور ہوا ہے اور کلی جس کے کھلنے سے میں خوش بھی ہوںاور خوفزدہ بھی ہوں اور پھر پریشان سا بھی … جس کہانی کے موڈ کو لیئے میں گھر میں داخل ہوا تھا سوچ رہا ہوں کہ اُس کو کس طرح اختتام تک پہنچاؤں !