مولانا حسرتؔ موہانی (شخصیت اور کارنامے)

ڈاکٹر امیر علی
مولانا حسرتؔ موہانی کا اصل نام سید فضل الحسن ہے ۔ شاعری میں حسرتؔ تخلص اختیار کیا۔ آپ کی ولادت باسعادت 1881 ء کو ہوئی ۔ آپ کا آبائی وطن ضلع اناؤ (یو پی) ہے۔ آپ کا سلسلہ نسب حضرت امام علی موسیٰ رضا تک پہنچتاہے۔ حسرتؔ کے آبا و اجداد میں سے ایک بزرگ سید نیشا پوری نے 1214 ء میں ترک وطن کر کے مختلف مقامات کی سیاحت کے بعد سلطان شمس الدین التمش کے عہد میں ہندوستان تشریف لائے اور موہان میں مستقل سکونت اختیار کرلی ۔ یہاں اُن کی اولاد خوب پھولی پھلی۔ سید محمود نیشا پوری کے دو صاحبزادے تھے،س ید منتخب اور سید جمال۔ حسرتؔ موہانی کا تعلق سید منتخب کی اولاد سے ہے۔حسرتؔ کے خاندان میں چھ پشت اوپر سید شاہ وجیہ الدین محمد نام کے ایک بزرگ 1108 ھ مطابق 1696 ء کو موہان میں پیدا ہوئے ۔ 17 شیوال 1205 ء کو آپ نے وفات پائی اور گلابی باغ کے احاطہ میں مدفون ہوئے ۔ اب یہ مقام درگاہ رسول نما کہلاتا ہے ۔ سید ازہر حسن کی شادی نیاز حسن کی صاحبزادی سے ہوئی جن کا تعلق شہر بانو بیگم سے تھا اور یہ ہی خاتون حسرتؔ موہانی کی والدہ ماجدہ تھیں۔ حسرتؔ موہانی کے چھ (6) بھائی بہنیں ہیں۔ تین بھائی اور تین بہنیں تھیں۔ بھائیوں کے نام اس طرح ہیں: سید روح الحسن ، سید کریم الحسن اور سید مبین الحسن اور بہنیں سلیمتہ النساء ، تسنیمتہ النساء اور مبینتہ النسائ۔ سلیمتہ النساء کا کم عمری ہی میں انتقال ہوگیا ۔ بہ قول حسرتؔ موہانی والد کو دادی صاحبہ کی طرف سے ضلع فتح پور سہوہ تحصیل کھجوہ میں تین گاؤں وراثت میں ملے تھے۔

حسرتؔ کی ابتدائی تعلیم موہان میں ہوئی ۔ وہیں سے انہوں نے مڈل کا امتحان پاس کیا اور اس کے بعد مزید تعلیم کیلئے حسرت فتح پور گئے اور وہاں سے انہوں نے میٹرک کا امتحان پاس کیا ۔ 1903 ء میں انہوں نے بی اے کی تعلیم مکمل کی ۔ سید سجاد حیدر یلدرم اور مولانا شوکت علی ان کے خاص ساتھیوں میں سے تھے ۔ حسرتؔ نے عربی کی تعلیم مولانا سید ظہورالاسلام اور فارسی کی تعلیم مولانا نیاز فتح پوری کے والد محمد امیر خان سے حاصل کی تھی ۔ حسرت سودیشی تحریک کے زبردست حامیوں میں سے تھے اور انہوں نے آخری وقت تک کوئی ولایتی چیز کو ہاتھ نہیں لگایا۔ حسرتؔ اپنے مذہبی عقائد پر انہوں نے خود ان الفاظ میں روشنی ڈالی ہے ۔
’’میں قدامت پسند سنی اور صوفی ہوں۔ تصوف کو مذہب کا جوہر سمجھتا ہوں اور تصوف کا ماحصل میرے نزدیک جذبۂ عشق ہے‘‘۔

مولانا حسرتؔ موہانی کی شخصیت کے بانکپن کو جلا دینے میں اُن کی اہلیہ محترمہ نشاط النساء بیگم کا بڑا ہاتھ تھا اور اس کے علاوہ حسرتؔ اس اعبار سے بڑے خوش نصیب تھے کہ انہیں اپنی والدہ اور نانی کا پیار ملا اور ان دونوں خاتونوں کے شعری ذوق ہی نے حسرتؔ کو شاعری کی طرف مائل کیا ۔ نانی کے کہنے پر حسرتؔ نے نسیمؔ دہلوی کے کلام کا مطالعہ کیا تھا ۔ حسرتؔ اپنے اُستاد کا بڑا احترام کرتے تھے اور حسرتؔ موہانی کو اس بات پر بڑا فخر و ناز تھا کہ ان کے گھرانے کی عورتیں پڑھی لکھی ، بہادر ، حوصلہ مند اور سلیقہ شعار ہیں اور حسرت ہی کے خاندان سے ان کا تعلق تھا ۔ 1901 ء میں حسرت کی شادی نشاط النساء بیگم سے ہوئی ۔ نشاط النساء بیگم بھی پڑھی لکھی، سلیقہ مند ،بہادر ، سمجھ دار خاتون تھیں۔ 19 ویں صدی کے اواخر اور 20 ویں صدی عیسوی کے شروع میں جن خواتین نے ہندوستان کی جنگ آزادی میں اہم رول ادا کیا تھا ان میں بیگم حسرتؔ موہانی کا نام سرفہرست ہے ۔ طویل علالت کے بعد بیگم حسرتؔ موہانی کا 18 اپریل 1937 ء کو کانپور میں ان تقال ہوگیا ۔ وہ 37 برس تک حسرتؔ کی شریک حیات رہیں۔ حسرتؔ کو اپنی رفیقہ حیات کی جدائی کا بڑا صدمہ ہوا ۔

حسرتؔ کی شاعری کی ابتداء قصبۂ موہان میں ہوئی جہاں وہ اپنے بچپن کے دوست سید اکبر حسن کے ہمراہ کھیلا کرتے تھے اور مٹھائیاں کھانے کے دوران شعر و شاعری بھی ہوا کرتی تھی۔ مگر ان کی شاعری فتح پور میں پروان چڑھی اور علی گڑھ کے علمی اور ادبی ماحول نے حسرت کے ذوق شاعری کو تقویت بخشی۔ 1896 ء میں حسرت لکھنو چلے گئے جہاں لکھنو اسکول کو غور سے مشا ہدہ کرنے کا موقع ملا۔ شاعری میں اس وقت جلال لکھنوی، حضرت امیرؔ مینائی اور تسلیمؔ لکھنوی کی ہر طرف دھوم تھی اور لکھنو میں ان شعراء کے فکر و فن کا طوطی بول رہا تھا ۔ تسلیم اسکول میں حسرت کا آنا جانا تھا اور حسرتؔنے تسلیم لکھنوی کے رنگ سخن اور ان کی شاعری اور شخصیت سے متاثر ہوکر ان کے شاگرد ہوگئے اور وہ شاعر تو پہلے ہی سے تھے مگر استاد کی نوک پلک نے حسرتؔ کو اور پختہ شاعر بنادیا ۔ حسرتؔ اردو غزل کے دور جدید کے اہم اور منفرد شاعر ہیں۔ حسرتؔ کا نام اردو شاعری میں غزل کے احیاء کے باعث ہمیشہ زندہ رہے گا۔ حسرتؔ کے یاں عشق میں سادگی ، تسلیم و رضا اور ادب و احترام ہے ۔ وہ کبھی بے ادب ہوتے ہیں اور نہ گستاخ ۔ والہانہ جذبات ، لطافت زبان اور نزاکت الفاظ و بیان حسرتؔ کا مخصوص رنگ ہے۔ حسرتؔ کے پورے دیوان میں موت کا ذکر کہیں نہیں ملتا۔ حسرتؔ عشقیہ شاعری کے تانے اور زندگی کے تقاضوں کو پورا کرنے میں اس قدر مصروف رہے کہ موت کی طرف توجہ کرنے کا موقع ہی نہیں ملا۔ حسرتؔ کا دیوان 1959 ء میں شائع ہوا اور اس کے علاوہ ’’قیدِ فرنگ‘‘ اور ’’مشاہداتِ زنداں‘‘ بھی شائع ہوچکے ہیں۔ حسرتؔ کی شاعری میں اشعار کی چاشنی اور جذب کی کیفیت موجود ہے ۔ وہ جو بھی کہتے ہیں کیف و سرمستی میں ڈوبا ہوا ہوتا ہے ۔ آج بھی ان کے اشعار پڑھتے ہی سیدھے دلوں کو محصور کرلیتے ہیں۔ حسرتؔ ایک جگہ اس طرح فرماتے ہیں :

رنگ سونے میں چمکتا ہے طرح داری کا
طرفہ عالم ہے تیرے حسن کی بیداری کا
کٹ گیا قید میں ماہِ رمضان بھی حسرتؔ
گرچہ سامانِ سحر کا تھا نہ افطاری کا
حسرتؔ کی شاعری عاشقانہ شاعری ہے۔ اُن کے کلام میں سستی قسم کی لذت پرستی نہیں ملتی۔ اُن کی آواز اپنی ندرت اور تازگی کی وجہ سے نئی نسل کے غزل سراؤں کے لئے ایک نمونہ بنی۔ حسرتؔ کی شاعری میں نازک خیالی ، ترکیبوں اور بندش کی چستی اور گھلاوٹ اپنی بہاریں دکھاتی ہے اور اُن کی شاعری میں تحت شعوری یادوں کو بڑا دخل ہے۔ یہ ان کے عشق پاک باز کا نتیجہ ہے ۔ حسرتؔ کا مفہوم عام فہم ہے۔ غزل میں زبان کو بڑا دخل ہے اور اُن کو زبان دانی پر کافی عبور حاصل تھا اور زبان کو بے تکلف استعمال کرنے کا انہیں خاص ملکہ حاصل ہے۔ حسرتؔ بنیادی طور پر غزل کے منفرد شاعر ہیں ۔ اُن کا شمار اردو کے معتبر غزل گو شاعروں میں ہوتا ہے ۔ حسرتؔ کا نام اردو زبان و ادب ، صحافت اور شاعری میں ہمیشہ زندہ رہے گا ۔ حسرتؔ ازل سے ہی عشق کا جذبہ اپنے دل میں لیکر پیدا ہوئے تھے ۔ وہ سانس بھی لیتے تو اُن کو یہ محسوس ہوتا تھا کہ عشق کی چھری اُن کے قلب و جگر میں پیوست ہورہی ہے ۔ مگران کا محبوب ہمیشہ نظروں سے اوجھل رہا ۔

حسرتؔ موہانی جہاں اردو کے مایہ ناز اورمنفرد شاعر تھے وہیں پر وہ ایک بے باک صحافی اور عظیم مجاہد آزادی تھے۔ انہوں نے اپنی صحافتی زندگی کا آغاز یکم جولائی 1903 ء سے کیا ۔ علی گڑھ سے اپنا ادبی رسالہ’’اردوئے معلیٰ‘‘ نے اردو صحافت کو زبان دی ، آداب واخلاق سکھائے ، شائستگی کے اُصولوں سے ہمکنار کیا اور شعر و ادب کے نکات سے آشنا کیا ۔ ’’اردوئے معلیٰ ‘‘ نے ملک کے تعلیم یافتہ نوجوان طبقے کے ذہنوں کو بیدار کیا اور ان میں سیاسی اور ادبی شعور پیدا کیا ۔ ’’اردوئے معلیٰ‘‘ تین بار جاری ہوا اور بندہوا۔ 40 سال تک اس ادبی رسالے کو جاری رکھنا بجائے خود ایک عظیم خدمت ہے جسے فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ ’’اردوئے معلیٰ‘‘ حیلے اور حوالوں سے کئی بار برطانوی حکومت کے جبر و استبداد کا نشانہ بنا کیونکہ حسرتؔ کی تحریروں کا اثر یہ ہوا کہ حکومت وقت اپنے مستقبل کے بارے میں سوچنے پر مجبور ہوگئی تھی ۔ حسرت موہانی کا سب اہم کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے ’’اردوئے معلیٰ‘‘ کے ذریعہ اساتذۂ قدیم کے دیوان فراہم کر کے ان کا انتخاب شائع کیا ۔ اُن کی اس سعی کی بدولت حاتمؔ ، سوزؔ مضحفیؔ، جراء تؔ، قائمؔ، میر حسنؔ وغیرہ کے کلام محفوظ ہوگئے اور فنی حیثیت سے بھی نکات سخن ، محاسن سخن اور مائبِ سخن پر ان کے رسالے خاص اہمیت رکھتے ہیں۔ حسرتؔ نے ’’دیوانِ غالبؔ ‘‘ معہ شرح بھی شائع کی ہے۔

مولانا حسرتؔ موہانی ہندوستان کی جنگ آزادی کے ایسے منفرد اور بے باک مجاہد آزادی ہیں جنہوں نے ہر جگہ ملک کی آزادی کیلئے ہر بار بے خوف و خطر اور انجام سے بے پرواہ ہوکر اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے ۔ ان کی شخصیت شاعری ، صحافت اور سیاست حریت سے عبارت تھی ۔ انہوں نے ایک ایسے وقت میں ہندوستان کی کامل آزادی اور انگریزوں کو ہندوستان چھوڑنے کی مانگ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا جبکہ اس کا تصور محال تھا ۔ وہ 1904 ء سے ہی ملک کی سیاست میں سرگرم حصہ لینے لگے جس کی پاداش میں حکومت نے انہیں باغی قرار دے کر کئی بار قید با مشقت کی سزا بھی دی جس کا ذکر انہوں نے اپنی مشہور غزل میں کیا ہے ۔ اس مشہور غزل میں حسرتؔ نے قید فرنگ کے مصائب میں جیل میں چکی پیسنے کا تذکرہ بڑیہی موثر انداز میں کیا ہے ، جب وہ قید میں تھے ۔ وہ کہتے ہیں کہ حسرتؔ ایک طرف تو جیل میں چکی پیسنے کی مشقت کر رہا ہے تو دوسری طرف شعر و سخن کی مشق بھی جاری ہے ۔ ان کی مشہور غزل اس طرح ہے۔
ہے مشقِ سخن جاری چکی کی مشقت بھی
اک طرفہ تماشہ ہے حسرتؔ کی طبیعت بھی
جو چاہو سزا دے لو تم اور بھی کھل کھیلو
پر ہم سے قسم لے لوکی ہو جو شکایت بھی
دشوار ہے رندوں پر انکار کرم یکسر
ائے ساقیٔ جاں پرور کچھ لطف و عنایتبھی
دل بس کہ ہے دیوانہاس حسن گلابی کا
رنگیں ہے اسی رو سے شائد غمِ فرقت بھی
خود چشق کی گستاخی سب تجھ کو سکھالے گی

ائے حسن حیا پرور ، شوخی بھی شرارت بھی
برسات کے آتے ہی توبہ نہ رہی باقی
بادل جو نظر آئے بدلی مری نیت بھی
عشاق کے دل نازک ، اس شوخ کی خو، نازک
نازک اسی نسبت سے ہے کارِ محبت بھی
رکھتے ہیں مرے دل پرکیوں تہمتِ بے تابی
یوں نالۂ مضطرکی جب مجھ میں ہو قوت بھی
ائے شوق کی بیتابی وہ کیا تیری خواہش تھی
جس پر انہیں غصہ ہے ، انکار بھی ، حیرت بھی
ہر چند ہے دل شیدا حریت کامل کا
منظور دعاء لیکن ہے قیدِ محبت بھی
ہیں شادؔ و صفیؔ شاعر یا شوقؔ و وفاؔ حسرتؔ
پھر ذامنؔ و محشرؔ ہیں، اقبال بھی وحشت بھی
حسرتؔ موہانی بڑے خوددار اور خدا ترس انسان تھے ۔ انہوں نے ملک کی جنگ آزادی کو کامیاب بنانے کیلئے بڑی بڑی مشکلوں کا م دانہ وار مقابلہ کیا ۔ ملنساری ، ہمدردی ، اعلیٰ اخلاق اور خدمت خلق اُن کے جوہر تھے ۔ وہ کانگریس پارٹی کے اہم قائد تھے ۔ حسرت کے قومی رہنماؤں سے گہرے مراسم تھے ۔ سبھی لوگ حسرت کی شخصیت اور شاعری کے مداح تھے ۔ مولانا ابوالکلام آزادؔ کی طرح حسرتؔ کو بھی ملک کی آزادی کے علاوہ ’’ہندو مسلم‘‘ اتحاد بہت عزیز تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ عملی طور پر ’’ہندو اور مسلمان‘‘ اپنے باہمی اختلافات کو فراموش کر کے اتحاد و یگانگت کے ساتھ رہیں اور ملک کی ترقی میں اہم رول ادا کریں اور ملک کی سالمیت کو مضبوط کریں اور ہندوستان کی جنگ آزادی میں اہم رول ادا کریں۔ حسرتؔ نے اپنی شخصیت اور شاعری سے اپنے عہد کو بڑا متاثر کیا جس کے اجلے نقوش آج بھی موجود ہیں۔
حسرت موہانی کے دوست احباب اور شاگردوں کا حلقہ بہت وسیع تھا۔ ان میں دولت مند اور متوسط طبقے کے لوگ شامل تھے اور سبھی لوگ اُن کا دل سے احترام کرتے تھے ۔ ہندوستان کی آزادی1947 ء کے بعد حسرتؔ یوپی اسمبلی اور مرکزی دستور ساز اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے اور کامیاب نمائندگی کی تھی مگر آہستہ آہستہ ان کی صحت ساتھ چھوڑنے لگی اور وہ کبھی بیمار پڑ جاتے اور ٹھیک بھی ہوجاتے تھے ۔ غرض یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہا اور آخر کار انہوں نے 13 مئی 1951 ء کو اپنی جان ، جان آفرین کے سپرد کردی اور اپنے مالک حقیقی سے جا ملے ۔ آپ کے جسدِ خاکی کولکھنو کے انوار باغ کے فرنگی محل احاطے کے قبرستان میں ہزاروں سوگواروں کے بیچ سپرد لحد کردی گئی۔ اردو زبان و ادب ، شاعری ، صحافت، سیاست اور ہندوستان کی جنگِ آزادی میں گراں قدر خدمات کے سبب حسرت موہانی کا نام تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہے گا اور جب کبھی بھی تاریخ و ادب کا مورخ ہندوستان کی جنگ آزادی کا تذکرہ لکھے گا تو حسرت کا نام توقیر سے لیا جائے گا اور ایسے محسن علم و ادب کی خدمات کو کبھی فراموش نہیں کرے گا ۔ مولانا حسرتؔ موہانی نے اپنی زندگی میں تیرہ (13) حج کئے تھے ۔ میر تقی میرؔ کا مشہور شعر مولانا حسرتؔ موہانی کی شخصیت پر پورا صادق آتا ہے۔
بارے دنیا میں رہو غم زدہ یا شاد رہو
ایسا کچھ کر کے چلو یاں کے بہت یاد رہو