مودی ۔ نواز شریف مراسلت

گفتار سے کردار ہم آہنگ نہیںہے
شاید ہے یہی عصری سیاست کا تقاضہ
مودی ۔ نواز شریف مراسلت
ہندوستان میں نریندر مودی کے وزارت عظمی سنبھالنے کے بعد سے یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ حکومت اپنے پڑوسی ممالک کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کیلئے ہر ممکن جدوجہد کریگی اور اس سلسلہ میں وہ اپنے طور پر پہل کرنے سے بھی گریز نہیں کریگی ۔ نریندر مودی کی تقریب حلف برداری میں سارک ممالک کے سربراہان حکومت کو مدعو کیا گیا تھا اور خاص طور پر وزیر اعظم پاکستان نواز شریف کو مدعو کرنے کا فیصلہ دور رس اثرات کا حامل رہا تھا ۔ بی جے پی کی جانب سے نواز شریف کو تقریب حلف برداری میں مدعو کرنے پر مختلف گوشوں سے تنقیدیں کی گئیں اور کہا گیا کہ حکومت دوہرا معیار اختیار کر رہی ہے ۔ لوک سبھا انتخابات کیلئے جو مہم چلائی گئی تھی اس میں بی جے پی اور خاص طور پر نریندر مودی نے پاکستان کو مسلسل نشانہ بنایا تھا اور جہاں ضروری نہیں تھا وہاں بھی پاکستان کا نام لے کر ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کی تھی ۔ اس کوشش میں انہیں کامیابی بھی مل گئی تاہم جب حلف برداری تقریب میں نواز شریف کو مدعو کیا گیا تو کئی گوشوں نے اس کو ایک الگ انداز سے دیکھا تھا ۔ حکومت کے حلقوں کی جانب سے تاہم اسے ایک حکمت عملی فیصلہ کہا جانے لگا ہے ۔ اس دعوت پر نواز شریف کو کوئی فیصلہ کرنے میں دقت پیش آئی اور بالآخر انہوں نے بین الاقوامی سطح پر جو تاثر پیدا ہوسکتا تھا اس کو دیکھتے ہوئے دعوت کو قبول کرلیا اور ہندوستان کا دورہ کرکے واپس ہوگئے ۔ انہوں نے نریندر مودی کی والدہ کیلئے ساڑی کا تحفہ پیش کیا تھا اور اپنے دورہ سے واپسی کے بعد انہوں نے وزیر اعظم کے نام مکتوب روانہ کرتے ہوئے دونوں کے مابین تعاون و اشتراک اور باہمی مسائل کو حل کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا ۔ نریندر مودی نے نواز شریف کے اس مکتوب کا جواب دیا ہے اور انہوں نے بھی اس خواہش کا اظہار کیا ہے کہ دونوں ملکوں کے مابین امن اور آپسی تعاون کے نتیجہ میں ترقی کی رفتار کو تیز کیا جاسکتا ہے ۔ دونوں ممالک میں اگر ترقی ہوتی ہے تو اس سے نہ صرف مقامی عوام کو بلکہ دونوں ملکوں کو بھی بحیثیت مجموعی فائدہ ہوسکتا ہے اور سارے جنوبی ایشیا میں صورتحال بہتر بنائی جاسکتی ہے ۔ یہ وہی باتیں جو اکثر و بیشتر دونوں ممالک کی حکومتیں کہتی رہی ہیں لیکن اس سے آگے کچھ نہیں کیا جاسکا ہے ۔
اب جبکہ دونوں ممالک کے وزرائے اعظم عملا ایک دوسرے سے رابطے میں ہیں اور بظاہر خیر سگالی کا مظاہرہ بھی کیا جارہا ہے اور ایک دوسرے کو مکتوب تحریر کرتے ہوئے مسائل کی نشاندہی کی جا رہی ہے تو یہ دونوں ملکوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ حالات کو بہتر بنانے کیلئے باہمی سطح پر تعاون کو فروغ دیا جائے ۔ جب تک ایک دوسرے کے ساتھ اعتماد کی فضا قائم نہیں ہوتی اور جب تک تعاون کو فروغ دینے کیلئے عملی اقدامات نہیں کئے جاتے اس وقت تک زبانی جمع خرچ سے کوئی فائدہ نہیں ہونے والا ۔ دونوں ملکوں کی حکومتوں کو اندرون ملک جو مسائل درپیش ہیں ان سے وہ بخوبی واقف ہیں اور ان مسائل کو حل کرنے کیلئے حکومتوں کو اپنی سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا ضروری ہے ۔ کئی مسائل دونوں ملکوں کے مابین ایسے ہیں جو مشترکہ نوعیت کے کہے جاسکتے ہیں اور ان مسائل کی وجہ سے دونوں ملکوں کے عوام کئی مشکلات کا شکار ہیں۔ یہ مسائل ایسے ہیں اگر ان کو حل کرلیا جائے تو دونوں ملکوں میں عوام کی سماجی اور معاشی صورتحال میں بہتر ی پیدا ہوسکتی ہے اور ان کے معیار زندگی کو بہتر بنایا جاسکتا ہے ۔ ترقی کی شرح اور رفتار دونوں تیز ہوسکتے ہیں۔ یہ مسائل ایسے ہیں جو ایک طویل وقت سے حکومتوں کی توجہ کے طلبگار ہیں ۔ حکومتیں اپنی ترجیحات کی وجہ سے ان پر توجہ دینے میں ناکام رہی ہیں اور عوام مسلسل حالات کی مار کھانے پر مجبور ہوگئے ہیں۔
ایسی صورتحال میں ہندوستان اور پاکستان کی حکومتوں کو ایک دوسرے سے تعاون کرتے ہوئے مسائل کو حل کرنے کی سمت سنجیدگی سے پیشرفت کی کوشش کرنی چاہئے ۔ جب تک حکومتوں کی سطح پر سنجیدگی پیدا نہیں ہوتی اور مسائل کو حل کرنے کا ایک عزم مصمم نہیں ہوتا اس وقت تک یہ مسائل حل نہیں ہوسکتے ۔ جب تک یہ مسائل حل نہیں ہوتے اس وقت تک دونوں ملکوں کے عوام کو راحت نہیں مل سکتی ۔ جب تک عوام کو راحت نہیں ملتی اس وقت تک حکومتیں خود کو بری الذمہ قرار نہیں دے سکتیں ۔ اب جبکہ دونوں ملکوں کے وزرائے اعظم کے مابین خط و کتابت اور ایک دوسرے سے نیک توقعات کا سلسلہ شروع ہوا ہے تو اس کو رکنے یا تھمنے کا موقع دئے بغیر حالات کو بہتر بنانے کی سمت سنجیدگی سے پیشرفت کی کوشش کرنا اہم ہوگا ۔ اس کے نتیجہ میں اگر واقعتا کچھ مسائل کو حل کیا جاتا ہے تو یہ دونوں ملکوں کے عوام کیلئے ایک بڑی کامیابی ہوگی اور اس کا سہرا دونوں ملکوں کی حکومتوں کے سر ہوگا ۔ دونوں ہی حکومتوں کو حالیہ واقعات سے جو توقعات عوام میں پیدا ہوئی ہیں ان کو پورا کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھنی چاہئے ۔