مودی حکومت کی پہلی سالگرہ اور اقلیتیں

سید محمد عبدالقدیر عزمؔ
گزشتہ عام انتخابات میں نریندر مودی کی اپنے بل بوتے پر لوک سبھا میں قطعی اکثریت حاصل کرنے اور بحیثیت وزیراعظم حلف برداری کے واقعہ کو ایک سال مکمل ہوچکا ہے۔ نریندر مودی نے یہ انتخابی مہم بی جے پی کے پسندیدہ موضوعات ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر ، یکساں سیول کوڈ اور دستور کی دفعہ 370 کی برخواستگی جس کے تحت ریاست جموں و کشمیر کو خصوصی مرتبہ حاصل ہے اور ترقیات کے موضوع پر لڑے تھے، اپنے دور اقتدار کی ایک سالہ میعاد کے دوران انہوں نے اپنا ایک بھی انتخابی وعدہ پورا نہیں کیا۔ یہاں تک کہ بیرون ملک جمع کالے دھن کی وطن واپسی اور ہر ہندوستانی کے بینک کھاتہ میں 15 لاکھ روپئے جمع کرانے کا وعدہ بھی پورا نہیں کرسکے۔ ایک سال کی تکمیل کے بعد اپنی حکومت کا رپورٹ کارڈ پیش کرتے ہوئے انہوں نے سرکاری خبر رساں ادارہ پریس ٹرسٹ آف انڈیا کو جو انٹرویو دیا ہے، اس میں انہوں نے ترقیات کے موضوع پر کچھ بھی کہنے سے واضح طور پر گریز کیا۔ ان کے ’’اچھے دن‘‘ کے تیقن کو اپوزیشن کانگریس نے مذاق کا موضوع بنالیا ہے کیونکہ اپنے اقتدار کے ایک سال بعد بھی عوام کو اپنے ’’اچھے دن‘‘ کا ہنوز انتظار ہے۔ چنانچہ نریندر مودی نے اس سلسلہ میں صرف اتنا ہی کہا کہ ان کا ایک سالہ دور اقتدار کسی بھی قسم کے اسکینڈل سے پاک ہے۔ یہی ’’اچھے دن‘‘ ہیں۔ ان کامطلب یہ ہے کہ عام آدمی کو چاہے غذائی اجناس کی قیمتوں میں زبردست اضافے، ترکاریوں کی قیمت آسمان پر پہنچ جانے ایندھن کی قیمتوں میں معمولی سی کمی کے بعد مسلسل زبردست اضافہ کا اچھے دنوں سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ اچھے دن صرف اسکینڈل سے پاک حکومت کانام ہے۔

آر ایس ایس اور اس کی دیگر تنظیمیں سمجھتی تھی کہ نریندر مودی نے گجرات میں اقلیتوں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا ہے۔ چنانچہ جب وہ وزیراعظم بن جائیں گے اور وہ بھی قطعی اکثریت کے ساتھ تو ہندوستان کو ہندو راشٹر بناکر دم لیں گے لیکن وزیر داخلہ کے یکے بعد دیگرے بیانات کے بی جے پی اپنے انتخابی تیقنات سے منہ نہیں موڑ رہی ہے لیکن ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر، ملک گیر سطح پر یکساں سیول کوڈکانفاذ اور دستور کی دفعہ 370 کی برخواستگی کیلئے قانون سازی اس لئے ممکن نہیں ہے کیونکہ بی جے پی کو ایوان بالا میں اکثریت حاصل نہیں ہے۔ چنانچہ لوک سبھا میں کسی قانون کی منظوری کے بعد بھی وہ راجیہ سبھا میں رک سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بی جے پی اپنے تیقنات سے انحراف نہیں کر رہی ہے لیکن اقتدار کی موجودہ میعاد میں ان کی تکمیل ناممکن ہے۔ مہاراشٹرا میں بی جے پی زیر قیادت حکومت نے بڑے گوشت کے استعمال اور اسے قبضہ میں رکھنے پر امتناع عائد کردیا ہے لیکن مرکزی وزیر مملکت برائے داخلہ کرن رجیجو نے برسر عام اعلان کیا کہ وہ بڑا گوشت کھاتے ہیں، حالانکہ ہندو ہیں اور اس سے انہیں کوئی نہیں روک سکتا۔ اس کے بعد حکومت کا یہ بیان سامنے آیا کہ ملک گیر سطح پر بڑے گوشت پر امتناع ناممکن ہے۔ رہ گیا ترقی کا انتخابی وعدہ تو ملک کی معیشت نے گزشتہ ایک سال کے دوران میں کسی بھی قسم کی بہتر کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ آج بھی ملک کی معیشت ویسی ہی ہے جیسی کہ سابق وزیراعظم منموہن سنگھ کے دور میں تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اپنے سالانہ رپورٹ کارڈ میں وزیراعظم نے ترقی کے موضوع پر کچھ بھی کہنے سے گریز کیا۔

نریندر مودی جب چیف منسٹر گجرات تھے تو وہاں پر 2002 ء میں مسلم کش فسادات ہوئے تھے، یہ درست ہے کہ اس میں انکے راست ملوث ہونے کا کوئی ثبوت حاصل نہیں ہوا۔ تاہم بحیثیت چیف منسٹر گجرات وہ مسلمانوں کے قتل عام کے ذمہ دار تھے۔ چنانچہ امریکہ نے انہیں ویزا دینے سے انکار کردیا تھا لیکن ان کے وزیراعظم بننے کے بعد حالات تبدیل ہوگئے۔ مودی کی جگہ کوئی اور شخص ہوتا تو شاید وہ وزیراعظم بننے کے بعد بھی امریکہ کا دورہ کرنے سے گریز کرتا لیکن مودی نے نہ صرف امریکہ کا دورہ کیا بلکہ صدر امریکہ بارک اوباماکو ہندوستان کی یوم جمہوریہ تقریب میں بحیثیت مہمان خصوصی شریک ہونے کی دعوت بھی دیدی۔ حالانکہ یو پی اے کی دوسری میعاد میں امریکہ کے ساتھ نیوکلیئر معاہدہ کے سلسلہ میں پیشرفت ہوئی تھی لیکن معاہدہ پر دستخط ہنوز باقی تھے۔ مودی نے جن کی پارٹی اپوزیشن کی حیثیت سے یو پی اے کے دور اقتدار میں نیوکلیئر معاہدہ کی سخت ترین مخالف تھی، اس معاہدہ کو امریکہ کی تمام شرائط منظور کرتے ہوئے قطعیت دیدی ۔ مودی کے وزیراعظم بنتے ہی اقلیتوں میں بے چینی پھیل گئی تھی، بابری مسجد کی شہادت اور گجرات کے مسلم کش فسادات نے مسلمانوں کے دلوں پر جو زخم لگائے تھے، وہ اب ناسور بن گئے ہیں۔ نریندر مودی چاہے کچھ بھی کریں لیکن ان زخموں کا اندمال ناممکن ہے۔ چنانچہ عیسائی طبقہ بھی قبائلیوں کی غالب آبادی والے علاقے ڈانکس میں آر ایس ایس کی کارستانیوں کو فراموش نہیں کرسکتا جہاں ایک عیسائی مبلغ کو اس کے معصوم بچوں کے ساتھ کار میں زندہ جلادیا گیا تھا ۔ رومن کیتھولک عیسائی بھی اس وقت برہم ہوگئے جبکہ آر ایس ایس کے سر چنچالک موہن بھاگوت نے سینٹ کا درجہ رکھنے والی مدر ٹریسا پر رکیک الزامات عائد کئے۔ چنانچہ جولیو ریبیروجیسے سنجیدہ شخص نے بھی اس بیان پر ناراضگی ظاہر کی۔ ان دو واقعات کے علاوہ عیسائیوں کے گرجا گھروں پر حملے ، وہاں توڑ پھوڑ اور ایک عمر رسیدہ نن کی عصمت ریزی عیسائیوں کی برہمی کیلئے کافی سے زیادہ وجوہات ہیں۔
نریندر مودی نے مسلمانوںکو اپنی حکومت کی تائید پر آمادہ کرنے کیلئے ایک نئی حکمت عملی شروع کی۔

انہوں نے ظفر سریش والا جیسے نمائشی مسلمانوں کو اعلیٰ عہدوں اور مالی ترغیبات کا لالچ دیا۔ اور اپنی حکومت کیلئے ان کی تائید حاصل کرلی لیکن ظفر سریش والا جیسے مسلمانوں کی تائید پوری امت مسلمہ کی تائید نہیں سمجھی جاسکتی ۔ آخر مودی کیا ہندوستان کے 14 کروڑ مسلمانوںکو رشوت دے سکتے ہیں ؟ یہ ناممکن ہے۔ اسی طرح یہ بھی ناممکن ہے کہ ظفر سریش والا ، شاہنواز حسین اور مختار عباس نقوی جیسے مسلمانوں کی آواز امت مسلمہ کی آواز بن سکے۔
نریندر مودی کے برسر اقتدار آنے کے بعد سہراب الدین شیخ اور پرجا پتی کے فرضی انکاؤنٹر میں ملوث ہونے کے ملزم، نریندر مودی کے دست راست امیت شاہ کو سی بی آئی نے اپنی تحقیقات کے بعد بے قصور قرار دے دیا۔ حالانکہ دنیا جانتی ہے کہ وہی ان فرضی انکاؤنٹر کے علاوہ 2002 ء کے مسلم کش گجرات فسادات میں بھی ملوث تھے۔ بعد ازاں سابق چیف جسٹس آف انڈیا پی ستا سیوم نے 100 سے زیادہ عورتوں اور بچوں کی قاتل سمجھی جانے والی مجرم مایا کوڈنانی کو ضمانت پر رہا کردیا۔ بجرنگی بابو بھی انہی کی عدالت میں ضمانت پر رہائی کی منظوری حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ ان دونوں فیصلوں کے چند ہی دن بعد ستاسیوم اپنے عہدہ سے سبکدوش ہوگئے اور اندرون چند ماہ مرکزی حکومت کی جانب سے انہیں گورنر مقرر کردیا گیا، مبینہ طور پر وہ اب قومی کمیشن برائے انسانی حقوق کے سربراہ کے عہدہ پر اپنی نظریں جمائے ہوئے ہیں اور بہت ممکن ہے کہ انہیں یہ عہدہ بھی حاصل ہوجائے۔ اس عہدہ کی میعاد کے اختتام تک موجودہ صدر جمہوریہ ہند پرنب مکرجی کی میعاد بھی ختم ہوجائے گی اور ستا سیوم ملک کے آئندہ صدر جمہوریہ بھی مقرر کئے جاسکتے ہیں۔ عدلیہ ایک ایسا ادارہ ہے جس پر عوام کو سب سے زیادہ اعتماد ہے لیکن اگر اس قسم کے فیصلے ہوتے رہیں تو عدلیہ پر سے بھی عوام کا اعتماد اٹھ جائے گا۔ حال ہی میں جیہ للیتا اور سلمان خان کے مقدمات میں عدالت کے فیصلوں نے عوام کا اس پر سے اعتبار متزلزل کردیا ہے۔ تمام گجرات فسادات کے ملزم پولیس عہدیداروں کو ایک کے بعد ایک یا تو ضمانت پر رہا کیا جارہا ہے یا ان کے خلاف مقدمات خارج کئے جارہے ہیں۔ دیانتدار اور اقلیت دوست پولیس عہدیداروں پر جنہوں نے گجرات فسادات کے دوران اقلیتوں کی ممکنہ حد تک مدد کی تھی، حکومت کے عتاب کا شکار بنے اور دیانتدار این جی اوز جنہوں نے اقلیتوں کے حقوق کیلئے جدوجہد کی جیسے تیستا سیتلواد اور ان کے شوہر جاوید آنند کو مختلف فرضی مقدمات میں پھانس دیا گیا ہے۔

خوشی کی بات یہ ہے کہ گجرات کے مسلمان شکست خوردہ ذہنیت کے حامل نہیں ہے۔ مودی کے عروج پر مسلم کش فسادات سے متاثرہ امت مسلمہ میں مایوس ہونے کے بجائے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے اور اعلیٰ عہدے حاصل کرنے کا ارادہ کرلیا ہے تاکہ مودی کو منہ توڑ جواب دیا جاسکے۔ چنانچہ ’’زدنی علماً ‘‘ فلاحی ٹرسٹ انجنیئرنگ اور میڈیکل کے ذہین مسلم طلبہ کو تعلیم حاصل کرنے کیلئے مالی مدد فراہم کر رہا ہے۔ چنانچہ گزشتہ سال اس ٹرسٹ میں 50 لاکھ روپئے ایسے طلبہ میں تقسیم کئے ہیں ، جملہ 350 طلبہ نے اس مدد سے استفادہ کیا جن میں 132 طالبات تھیں ، خوشی کی بات یہ ہے کہ مسلمان طالبات کی زیادہ سے زیادہ تعداد طبی پیشہ سے وابستگی اختیار کر رہی ہے ۔ چنانچہ خواتین کے طبی پیشہ اختیار کرنے کی تعداد میں تیز رفتار اضافہ ہوا ہے اور یہ رجحان انتہائی خوش آئند ہے۔ اگر ملک کے دیگر علاقوں میں مقیم مسلمان ہی اپنی شکست خوردہ ذہنیت سے چھٹکارا حاصل کرلیں اور تعلیم اور اعلیٰ عہدے حاصل کر کے فرقہ پرستوں کا جواب دینے کا فیصلہ کریں تو عالم اسلام کے ایک ارب 60 کروڑ مسلمانوں کیلئے ایک مثالی کردار ثابت ہوسکتے ہیں۔