مودی بحیثیت وزیر اعظم ملک کیلئے ’تباہ کن ‘ہونگے :منموہن سنگھ

احمد آباد کی سڑکوں پر بے قصور وں کا قتل عام ’ طاقت ‘ نہیں ۔ لوک سبھا انتخابات کے بعد مستعفی ہونے کا اعلان
نئی دہلی 3 جنوری (سیاست ڈاٹ کام )وزیر اعظم منموہن سنگھ نے آج اعلان کیا کہ وہ لوک سبھا انتخابات کے بعد وزارت عظمی کی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہوجائیں گے اس عہدہ کیلئے انہوں نے راہول گاندھی کی بھر پور تائید کی اور انتباہ دیا کہ نریندر مودی بحیثیت وزیر اعظم ملک کیلئے تباہ کن ہوں گے ۔ انہوں نے اپنی کمیاب پریس کانفرنس میں واضح کردیا کہ 10 سالہ معیاد کی تکمیل کے بعد وہ دوبارہ اس عہدہ کیلئے متمنی نہیں ہیں ۔ 75 منٹ طویل پریس کانفرنس میں مختلف سوالوں کے جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ انہیں یقین ہے کہ تاریخ اُن پر مہربان ہو گی حالانکہ موجودہ ذرائع ابلاغ ان کی مخالفت کررہے ہیں۔

’’کمزور ‘‘وزیر اعظم کے الزام کے بارے میں انہوں نے کہا کہ کیا طاقتور اسی کو کہتے ہیں جو بے قصور عوام کا ’’قتل عام ‘‘کرواتا ہے جیسا کہ 2002 کے گجرات فسادات میں ہوا تھا۔ ایک اور سوال کا جواب دیتے ہوئے جو راہول گاندھی اور مودی کے درمیان مقابلے کے بارے میں تھاانہوں نے کہا کہ مودی کی ’’کانگریس سے پاک ‘‘ہندوستان کی مہم مضحکہ خیز ہے اور ان کا یہ خواب حقیقت نہیں بنے گا۔ منموہن سنگھ نے گذشتہ 10 سال کے دوران صرف تین پریس کانفرنسوں سے خطاب کیا ہے ۔ آج کی پریس کانفرنس میں انہوں نے کئی موضوعات کا بشمول سیاست ،معیشت ،خارجہ پالیسی کا احاطہ کیا ۔ مرکزی وزیر اطلاعات و نشریات منیش تیواری اس پریس کانفرنس کے ناظم تھے ۔ منموہن سنگھ نے امید ظاہر کی کہ ان کا جانشین یو پی اے سے تعلق رکھنے والا ہوگااور کہا کہ راہول گاندھی وزارت عظمی کے امیدوار بننے کی مکمل اہلیت رکھتے ہیںتاہم کانگریس اپنے امیدوار کا اعلان مناسب وقت پر کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ ابھی انہوں نے اپنے مستقبل کی منصوبہ بندی نہیں کی ہے۔

کوئلہ اسکام اور 2G اسکام کے بارے میں انہوں نے کہا کہ یہ اُن کی پہلی میعاد 2004-09سے متعلق ہیںلیکن اس کے باوجود عوام نے 2009 میں یو پی اے کو دوبارہ اقتدار بخشا اس لئے یہ اندیشے کے اب یو پی اے دوبارہ برسر اقتدار نہیں آئے گا صرف ایک تصور ہے۔کانگریس نے دوہرے مراکز اقتدار کے بارے میں سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ صدر کانگریس اور وزیر اعظم کے درمیان جیسی مفاہمت تھی اور جو بہتر کارکردگی کا مظاہرہ ہوا انہیں امید نہیں کہ ہر حال میں ایسا ہی ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ صدر کانگریس سونیا گاندھی نے ان کی کئی بار تائید کی ہے۔ حکومت کے بارے میں صدر اور نائب صدر کا اگر کوئی نظریہ تھا تو انہوں نے کھل کر اس کا اظہار کیا لیکن حکومتی نظام کیلئے کوئی مسئلہ پیدا نہیں کیا بلکہ کئی مسائل کی یکسوئی میں مدد دی ۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ قیمتوں میںاضافہ کی وجہ سے عوام کانگریس مخالف ہوگئے تھے لیکن اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میںاضافہ قابو سے باہر ہوگیا تھا اور یو پی اے حکومت کیلئے ان پر قابو پانا بہت مشکل تھا اس کے باوجود کمزور کے تحفظ کیلئے یو پی اے نے بہت کچھ کیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ انہیں اپنی کامیابیاں گنوانے کی ضرورت نہیں برآمد ہونے والے نتائج خود اس کا اظہار کریں گے ۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں صرف اپنی ناکامیوں سے سبق حاصل کرنا چاہئے۔ جب ان سے ان کے مستقبل کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ جب وقت آئے گا اسی وقت فیصلہ کیا جائے گا۔ ان کی وزارت عظمی کے بہترین اور بدترین لمحوں کے بارے میں سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ان کی عکاسی کرنے کیلئے انہیں کچھ وقت چاہئے تاہم ان کے خیال میں ان کے دور اقتدار کا بہترین لمحہ وہ تھا جب امریکہ کے ساتھ نیو کلیئر معاہدہ طئے ہوا تھا۔ اس سوال پر کہ کیا اسکینڈلس اور مشکلات کی وجہ سے انہوں نے کبھی استعفی دینے پر غور کیا تھا انہوں نے کہا کہ انہیں اپنے کام سے لُطف حاصل ہوتا تھا انہوں نے کسی خوف کے بغیر اور کسی پر مہربانی کئے بغیر اپنا کام انجام دیا ہے ۔ اس سوال پر کہ کیا کانگریس میں کسی نے ان سے استعفی کا مطالبہ کیا ہے انہوں نے کہا کہ ایسا قطعی نہیں ہوا ۔ حکومت پر کرپشن کے الزام کے بارے میں انہوں نے کہا کہ انہوں نے اپنے عہدہ کو کبھی بھی مالدار بننے یا اپنے دوستوں اور رشتہ داروں پر مہربانی کرنے کے بارے میں کبھی نہیں سونچا۔ انہوں نے کہا کہ سی بی آئی کے سربراہ کی علحدگی کے بارے میں قانون میں دفعات کی شمولیت حکومت کے زیر غور ہے ۔