مودی او رٹرمپ دوست دوست نہ رہے ۔ بقلم شکیل شمسی

ابھی د و مہینے پہلے ہی کی بات ہے کہ 14نومبر کو وہائٹ ہاوز میں دیوالی کا جشن منایاگیاتو ہمارے میڈیا نے ٹرمپ او رمودی کی دوستی کا خوب چرچا کیاتھا‘ اس میں مودی نے ہنداو رامریکہ کی دوستی کو آزادی ‘ خوشحالی او رامن کا غماز قراردیاتھا۔اسی طرح دیڑھ سال قبل جب نریندرمودی 26جون 2017کو امریکہ گئے تھے تو وہائٹ ہاوس میں ٹرمپ نے انڈیا کو ایک گریٹ فرینڈ کہاتھا ۔ اس کو بھی ہمارے میڈیا نے خوب بڑھاچڑھا کر پیش کیاتھا۔

زی نیوز نے تو ایک خصوصی پروگرام پیش کیاتھا’ سچی دوستی کی 20کہانیاں ‘‘ اورتقریبا ہر نیوز چیانل نے ٹرمپ اور مودی کی دوستی کو ایک عظیم لیڈر کے ساتھ ایک عظیم لیڈر کی ملاقات سے تعبیر کیاتھا مگر تین دن قبل امریکہ کے صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے ہمارے ملک کے وزیراعظم کا مذاق آرا کر یہ بتادیا کہ ان کی نگاہ میں کسی کی دوستی یا کسی کی خدمات کی کوئی وقعت نہیں ہے۔

ٹرمپ نے افغانستان کی تعمیر وترقی کے معاملے میں ہندوستان کی تمام کوششوں کو کوڑے دان میں ڈالتے ہوئے کہاکہ ہندوستان کے وزیراعظم نریندر مودی مجھ سے مسلسل کہتے رہتے ہیں کہ انہوں نے افغانستان میں لائبریری بنوائی ہے ‘ اب وہاں ایسے حالات میں لائبریری سے کون استفاد ہ کرے گا۔

ظاہر ہے کہ ٹرمپ کا یہ بیان مسٹر نریندر مودی کی تضحیک کرنے والا نہیں ہے بلکہ تمام ہندوستانیوں کی تضحیک کے مترادف ہے اور اس کی ہر نیوز چینل پر کھل کر مذمت ہونا چاہئے تھی‘ لیکن افسوس کی بات یہ ہے زیادہ تر چینلوں نے ڈونالڈ ٹرمپ کے اس غیر ذمہ دارانہ بیان کو نظر انداز کرنا ہی مناسب سمجھا۔

اب کسی کو بیس یاپچاس کہانیاں یاد نہیں ائیں ‘ جبکہ حقیقت تو یہ ہے کہ ہندوستان نے افغانستان میں سڑکیں بنائیں ‘ ہاسپٹل تعمیر کئے اور وہاں کی پارلیمنٹ کی بلڈنگ بنائی۔

ہندوستان نے ایک ترقی پذیر ملک ہونے کے باوجود افغانستان کی فلاح پر 75کروڑ ڈالر خرچ کئے ۔ ہندوستان کا افغانستان سے کوئی خشکی کا راستہ نہ ہونے کی وجہہ سے ہندوستان سے غذائی سامان او ردیگر ضروریات کی چیزیں پہنچانے کے لئے ایران کے ساتھ چابہار کی بندرگاہ کو ترقی دینے کا فیصلہ کیاتاکہ گجرات سے سامان پہلے ایران جائے اور پھر خشکی کے راستے سے افغانستان کے عوام کو ضروری اشیاء کی فراہمی کی جائے ۔

اتنا ہی نہیں افغانستان سے آمد درفت دشوار ہونے کے باوجود ہزاروں افغانی باشندے ہندوستان میںآکر علاج اور معالجے کی سہولتیں حاصل کررہے ہیں۔افغانی طالب علموں کو وظیفے دینے کے علاوہ ہندوستان نے وہاں کے سفارت کاروں ‘ سرکاری افسروں او رپولیس والو ں کو ٹریننگ کی سہولت فراہم کی ۔ ہندوستان میں پنا ہ لینے کی خواہش مند افغانیوں کو فراخ دلی سے پناہ بھی دی۔

دہلی میں تو افغانی باشندے اتنی بڑی تعداد میں ہوگئے ہیں کہ کئی محلوں میں دوکانوں پر فارسی میں بورڈ بھی لگ گئے ہیں تاکہ افغانی گاہکوں کو متوجہ کیاجاسکے۔ہاں یہ بات سچ ہے کہ ہندوستان نے امریکہ کی مسلط کردہ جنگ میں عملی طور پر حصہ نہیں لیا‘لیکن طالبان کے خلاف اتنا شدید رخ اختیار کیاکہ طالبان ہندوستان کے سب سے بڑے دشمن ہوگئے۔

واضح ہوکہ جس وقت امریکہ نے دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کے نام پر پاکستان کی مدد سے افغانتان پر حملہ کیااس وقت اٹل بہاری واجپائی کی قیادت والی ہندوستانی حکومت نے افغانستان میں کسی بھی فوجی مہم کا حصہ بننے سے انکا ر کردیاتھا۔

امریکیوں کو یہ بات ناگوار ہوئی تھی ا ور انہوں نے پاکستان پر انعام واکرام کی بارش کردی تھی لیکن اٹھارہ سال بعدٹرمپ نے جو لہجہ اختیار کیا اس سے پاکستانیو کو پتہ چلا ہے کہ ظالم کے ساتھ دینے کے باعث کبھی نہ کبھی رسوائی ضرور ہوتی ہے ۔

اچھی بات یہ ہے کہ ہندوستان افغانستان کی جنگ میں شامل نہیں ہوا ۔ بہرکیف ٹرمپ نے ہندوستان کے بارے میں جو توہین آمیز کلمات کہے ہیں وہ ٹرمپ کی اس ذہنی کیفیت کا نتیجہ ہے جس سے وہ آج کل دوچار ہیں۔

ہمیں تو ایسا لگتا ہے کہ میکسکو کی سرحد پر دیوار بناکر مہاجرین کو روکنے‘ جسم فروش عورتوں سے روابط‘ بین الاقوامی معامالات میں تلون مزاجی ‘ انتخابات میں روسی خفیہ ایجنسیوں کی مدد لینے کے الزامات اور کانگریس کے مواخدے کی وجہہ سے اس طرح کی بہکی بہکی باتیں کررہے ہیں اور دوست دشمن کی تمیز بھول گئے ہیں۔