ملک میں عدم رواداری کی فضاء حاوی ہونے سے انکار

ایوارڈس کی واپسی کے پس پردہ سیاسی محرکات۔آر ایس ایس لیڈر دتاتریہ ہوسبلے کا ادعا

رانچی۔/30اکٹوبر، ( سیاست ڈاٹ کام ) آر ایس ایس نے آج ایوارڈس واپس کرنے والوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ یہ فیصلہ خود ساختہ سیکولر عناصر کے سیاسی محرکات کا نتیجہ ہے جو کہ مایوسی کے عالم میں سنگھ پریوار کو پنچنگ بیاگ کے طور پر استعمال کررہے ہیں۔ آر ایس ایس کے جوائنٹ جنرل سکریٹری دتاتریہ ہوسبلے نے کہا کہ سیاستدانوں کی ترغیب پر مٹھی بھر افراد نے اپنے ایوارڈس واپس کرنے کا اعلان کیا ہے جبکہ عدم تحمل کی آڑ میں آر ایس ایس کو نشانہ بنایا جارہا ہے لیکن آر ایس ایس خود ساختہ آزاد خیال سیکولر عناصر کا نشانہ بننے کا موقع نہیں دے گی۔ انہوں نے کہا کہ آر ایس ایس کو یہ سوال کرنے کا حق ہے کہ مصنفین، فلمساز اور سیاستدان اسوقت کیوں خاموش تھے جب گودھرا ٹرین کو جلادینے کا واقعہ اور کشمیری پنڈتوں پر حملے کئے گئے تھے۔ آر ایس ایس لیڈر نے الزام عائد کیا کہ مرکز میں بی جے پی کی زیر قیادت این ڈی اے حکومت تشکیل دیئے جانے کے بعد مذہبی عدم رواداری کا ہوّا کھڑا کرنے کی سیاسی سازش کی جارہی ہے لیکن حقیقت برعکس پائی جاتی ہے۔

بعض لوگوں کو ملک میں تبدیلی ہضم نہیں ہورہی ہے جبکہ یہ تبدیلی بہتری، قوم پرستی اور مادر وطن کے وقار کی سربلندی، معیار زندگی اور ترقی کی سمت گامزن ہے۔ چونکہ تبدیلی کی وجہ سے ان کی نظریاتی دکانات بند ہوگئی ہیں لیکن وہ خبروں کی سرخیوں میں رہنے کیلئے اس طرح کے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کررہے ہیں بصورت دیگر عوام انہیں فراموش کردیں گے۔ راشٹریہ سیوم سیوک لیڈر نے کہا کہ خود ساختہ دانشور اپنے آپ کو یکا و تنہا محسوس کررہے ہیں اور سیاسی محرکات پر مبنی اقدامات کے ذریعہ شہرت حاصل کرنے کی کوشش میں انہوں نے ایسا کیا ہے۔ عدم تحمل کی فضاء گزشتہ 60سالوں سے جاری ہے لیکن اس طرح کے لوگ خاموشی اختیار کئے ہوئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ میں یہ دریافت کرنا چاہتا ہوں کہ وادی کشمیر میں سینکڑوں افراد کو ہلاک کردیا گیا یہ لوگ اسوقت کہاں تھے اور کارسیوکوں کو زندہ جلادیا گیا

لیکن ان لوگوں نے احتجاجی آواز بلند نہیں کی تھی۔مسٹر دتاتریہ ہوسبلے نے کہا کہ دادری کا واقعہ کرناٹک میں ایک ادیب پر حملہ غیر بی جے پی ریاست میں پیش آیا ، یہ لوگ اُتر پردیش اور کرناٹک میں حکومتوں کے خلاف احتجاج کرنے کی بجائے نریندر مودی حکومت کو مورد الزام کیوں ٹھہرا رہے ہیں، یہ دعویٰ کرتے ہوئے اس طرح کے تمام واقعات کی آر ایس ایس نے مذمت کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ آر ایس ایس کسی کالقمہ تر نہیں ہے کہ اس کے خلاف الزامات عائد کئے جائیں۔ جبکہ سنگھ کو حب الوطنی اور قوم پرستی میں زبردست مقبولیت حاصل ہے اور مٹھی بھر مصنفین اور فلمساز اس کی امیج کو متاثر نہیں کرسکتے کیونکہ عوام ہر بات سے واقف ہیں۔ انہوں نے ادعا کیا کہ عوام، آر ایس ایس کی پُرجوش تائید کررہے ہیں اور یہ چاہتے ہیں کہ ہر ایک ریاست میں وہ اقتدارمیں آجائے جوکہ نام نہاد دانشوروں کو ہضم نہیں ہورہی ہے۔

 

مصنفین کے ایوارڈس کی واپسی پر احتجاج
سکھ مخالف فسادات کے خلاف احتجاج نہ کرنے کی شکایت
نئی دہلی۔/30اکٹوبر، ( سیاست ڈاٹ کام ) ملک میں عدم تحمل کے ماحول پر مصنفین کی جانب سے ایوارڈس کی واپسی کے اعلان کے خلاف برہمی کا اظہار کرتے ہوئے سکھ احتجاجیوں کے ایک گروپ نے 1984 میں مخالف سکھ فسادات پر ادیبوں کی خاموشی پر سوالات اٹھاتے ہوئے کتابوں کو جلادیا۔ اس احتجاج کی قیادت گروچرن سنگھ بابر نے کی تھی جنہوں نے 1984 کے فسادات پر بعنوان ’سرکاری قتل عام ‘ ایک کتاب قلمبند کی تھی نے آج یہاں جنتر منتر پر اس کتاب کی 50کاپیاں جلادیں تاکہ 1984 کے فسادات کیسس میں انصاف کی فراہمی میں تاخیر کے خلاف اپنا احتجاج درج کروایا جائے۔ اس موقع پر گروچرن سنگھ بابر نے کہا کہ ملک بھر میں عدم رواداری کی فضاء کے خلاف جن ادیبوں نے ایوارڈس واپس کئے ہیں ان سے میںیہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ گذشتہ32سال سے کہاں تھے اور 1984ء کے فسادات کے وقت اس طرح کا احتجاج اور غم و غصہ کیوں نہیں کیاگیا جبکہ آج تک فسادات کے متاثرین انصاف سے محروم ہیں۔ 1984 کے فسادات پر مسٹر بابر کی تصنیف 4زبانوں ہندی، انگریزی، پنجابی اور اردو میں شائع کی گئی نے کہا کہ فراہمی انصاف میں تاخیر نے عدالت کا وقار مجروح ہوگا۔ ہم آج کے پروگرام کے پیش نظر حکومت سے بین الاقوامی خاطیوں کا جائزہ لیا جائے گا۔