مقامی لوگوں کے زمین دینے سے انکار کے بعد عصمت ریزی کے شکار متوگی کو گاؤں سے اٹھ کیلومیٹر دور لے جاکر دفن کیاگیا

کتھوا۔ راسانا کے ہندوؤں نے تدفین کی مخالفت کی ‘ کہاکہ مذکورہ جائیداد کسی مسلم بکروالا قبائیلی کی نہیں ہے ‘ پھر بھی وہ کئی سالوں سے یہاں غیر قانونی طریقے سے تدفین کررہے ہیں۔

کتھوا کے راسانا گاؤں سے 8کیلومیٹر دو ر فاصلے پر طویل مسافت طئے کرنے کے بعد گیہوں کے کھیت کے ایک کونے میں اس لڑکی کی تدفین عمل میں ائی جس کو جنوری کے مہینے میں عصمت ریزی کے بعد قتل کردیاگیاتھا۔

مذکورہ لڑکی کی پانچ فٹ کی قبر اپنے چار دور کے رشتہ دوروں کی قبروں کے قریب ہے جس کو ابھی تک پختہ قبر میں تبدیل نہیں کیاگیا ہے۔ کچھ گیلی مٹھی دونوں جانب دوبڑے پتھرہی متوفی لڑکی کانشان رہ گئے ہیں۔

متوفی کے ایک رشتہ دار جس کی اراضی ہے نے کہاکہ’’ ہماری روایت کے مطابق ہم فوری طور پرمضبوط قبر نہیں بناتے ۔

ہم یہ کام اس وقت کریں گے جب اس کے والدین اپنے مویشیوں کے ساتھ دوبارہ پہاڑوں سے اپنے سالانہ دورے پر یہاں ائیں گے۔جنوری 17کو جب لڑکی کی نعش برآمد ہوئے تو اس کے والد جس نے بچپن میں ہی متوفی کو گود لیاتھا چاہتے تھے کہ راسانا میں زمین کے ایک چھوٹے سے حصہ میں اس کودفن کریں۔

یہ وہی مقام ہے جہاں پر دس سے قبل متوفی آصیفہ کے تین بھائی اور ماں ایک سڑک حادثے میں ہلاک ہونے کے بعد دفن کردئے گئے تھے۔مگر راسانا کے دیہی لوگوں نے تدفین کی مخالفت کی اور کہاکہ یہ بکروالا قبائیلی مسلمانوں کی جگہ نہیں ہے ۔متوفی کی منھ بولی دادی نے کہاکہ ’’ یہ تقریبا چھ بجے کی بعد ہی قبر کی کھدوائی تقریباآدھی ہوگئی تھی جب گاؤں والوں نے موقع پر پہنچ کر ہمیں کھدوائی کرنے سے روک دیا اور آگے جانے کو کہا۔

انہو ں نے دستاویزات پیش کرتے ہوئے کہاکہ وہ اراضی ہم سے منسوب نہیں ہے‘‘۔ بعد میں اراضی کی پیشکش کرنے والے رشتہ دار کے مطابق دس سال قبل کے قریب متوفی کے داد ا پڑدادا نے ایک ہندو خاندان سے یہ زمین خریدی تھی ۔

رشتہ دار نے کہاکہ ’’ مگر انہو ں نے دستاویزات کی صحیح انداز میں کاروائی نہیں کی۔ لہذا گاؤں والوں کو زمین ہڑپنے کا موقع مل گیا‘‘۔تاہم راسانا کے ہندوؤں کا کہنا ہے جائیداد کا متوفی کے گھر والوں سے کوئی تعلق نہیں تھا گذشتہ سالوں میںیہاں پر ان لوگوں غیرقانونی طریقے سے تدفین کی ہے۔

ایک گاؤں والے روہت کھاجوریہ نے کہاکہ ’’ بکر والا چاہتے ہیں کہ ایک کے بعد دیگر اراضی حاصل کرلیں‘ ہم انہیں ایسا کرنے نہیں دیں گے۔ مگر و ہ ہم ہی تھے جنھوں نے تدفین کے لئے متبادل جگہ کی تجویز پیش کی‘‘۔

جنوری کی کڑی سردیوں میں لڑکی کے گھر والو ں نے بکروال سماج کے درجنوں خاندانوں پر مشتمل گاؤں کو متوفی کی نعش لے کر گئے۔سینکڑوں لوگوں نے جلوس جنازہ میں حصہ لیا۔

اندھیرا ہونے سے قبل پہاڑپر نعش لے کر پہنچے اور زمین کھودی گئی اور معصوم کو دفن کردیاگیا۔ایک رشتہ دار نے کہاکہ ’’ سردی کے باوجود والد نے وہ مقام نہیں چھوڑا۔ ماں او رباپ صبح3بجے تک وہاں پر کھڑے رہے اس کے بعد ہم نے انہیں روم میں لایا‘‘۔

تین ما ہ قبل متوفی کے والدین جب پہاڑیوں میں واپس چلے گئے ماہ ہر دوسرے او رتیسرے دن قبر پر آتی تھی ۔ ’’ وہاں پر بیٹھ کر زار وقطار روتی ‘ سمجھا نے کے بعد ہی وہ گھر واپس جاتی‘‘۔

منھ بولی دادی نے کہاکہ ’’ کتنی زمین لگتی بچی کو دفن کرنے کے لئے؟ جس لڑکی عزت لوٹ کر قتل کردیاگیا ہے اس کو وہ ہمارے ہاتھوں میں تھی ۔ ایسے وقت میں گاؤں والوں کو دل بڑا کرنے کی ضرورت تھی‘‘