مظفر نگر کے فسا دیو ں کے مقدمہ ہوں گے واپس 

لکھنؤ:اتر پردیش کے مظفر نگر میں ہوئے فرقہ وارانہ فسادات کے لے کر درج ہوئے ۱۳۱ مقدمو ں کو یوگی حکومت نے واپس لینے کا فیصلہ کیا ہے

۔بتایا جا تا ہے کہ اس میں زیادہ تر معاملو ں میں نامزد ملزمان کو سات سال یا اس سے زیادہ ہو سکتی ہے۔بتایا جاتا ہے کہ یوگی حکو مت نے مقدمہ واپس لینے کا فیصلہ لوک سبھا الیکشن کے پیش نظر لیا ہے ۔

کیو ں کہ پچھلے لوک سبھا الیکشن میں وہا ں پر رہنے والے جاٹ سماج کے لو گو ں نے بی جے پی کی حمایت کی تھی لیکن ایک سال بعد بھی ریاستی حکومت نے جاٹ سماج کے لوگوں پر درج مقدمہ واپس نہیں لئے تھے جس کی وجہ سے اس کا اثر لوک سبھا میں پڑ سکتاہے۔

فی الحال حکومت کی جانب سے ان مقدمو ں کے بارے میں ضلع انتظامیہ سے رپورٹ طلب کرنے کے بعد آگے کی کارروائی کرنے کی ہدایت دی گئی ہے۔

اترپردیش میں 2013میں مظفر نگر میں فرقہ وارانہ فسادات ہو ئے تھے جس میں شاملی اور آس پاس کے اضلاع کو بھی اپنی زد میں لے لیا تھا۔اس فساد میں ساٹھ سے زیادہ افراد مارے گئے تھے جب کہ ہزاروں کی تعداد میں لوگ بے گھر ہوگئے تھے۔

اس وقت یو پی میں اکھیلیش یادو کا دور تھا۔حکومت کے سخت رویہ کی وجہ سے فسادات کے پانچ سومقدمہ درج کرکے پندرہ سو لوگوں کے خلاف مقدمے درج ہوئے تھے ۔جس میں بی جے پی کے لیڈر سریش رانا ،سنجیو بالیان ، بھارتندو سنگھ ،امیش ملک سنگیتسوم سمیت کئی لیڈروں کے نام شامل ہیں۔

جاٹوں کے خلاف مقدموں کو واپس لینے کیلئے جاٹ سماج کے لیڈروں نے سماج وادی پارٹی کے سربراہ ملائم سنگھ یادو سے بھی ملاقات کی تھی۔گذشتہ 2017میں دونوں فرقوں کی مشترکہ کمیٹی بھی بنائی گئی تھی ۔لیکن اس دوران اسمبلی الیکشن ہونے کی وجہ سے کمیٹی کا مقصد پورانہیں ہوسکا ۔

اسمبلی الیکشن میں بی جے پی کو کامیابی حاصل ہوئی تھی ۔اس کے بعد سے درج شدہ مقدموں کوں واپس لینے کا مطالبے کیا جارہا تھا ۔بتایا جاتا ہے کہ آئندہ ہونے والے لوک سبھا الیکشن کے پیش نظر ان مقدمو ں کی کارروائی میں تیزی لانے کی ہدایت دی گئی ہے