مظفر نگر میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی بہترین مثال: پچھلے چھبیس سال سے مقامی مسلمان مندر کی نگرانی کررہے ہیں 

مظفر نگر : مظفر نگر سے تقریبا ایک کیلو میٹر فاصلہ پر دور لدھے والا علاقہ میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی ایک بہترین مثال منظر عام پر آئی ہے ۔1992ء میں بابری مسجد کی شہید ہونے کے بعد مسلم علاقہ سے ہندو افراد نے تخلیہ کرلیا ۔بہت سارے ہندو لوگ اپنے گھر بار چھوڑ کر یہاں سے ہجرت کر گئے ۔

اس مسلم بستی میں ایک مندر ہے جو 1970ء میں تعمیر کی گئی تھی ۔ہندو مذہب کے لوگ یہاں سے کوچ کرجانے کے بعد اس مندر کی دیکھ بھال مقامی مسلمانوں نے اپنے ذمہ لے لی ہے ۔ اوراس کی بہت اچھے انداز سے نگرانی کرتے ہیں ۔یہاں کے مسلمان روزانہ اس مندر کو دھوتے ہیں ۔ اور ہر دیوالی کے موقع پر اس کو رنگ وروغن کیا جاتا ہے۔ مقامی ساکن ۶۰؍ سالہ مہربان علی نے بتا یا کہ انہیں اچھی طرح یاد ہے کہ یہاں پر فرقہ وارانہ فسادات کے وقت یہاں کے ہندو لوگ اس علاقہ سے کوچ کرگئے ۔ ان میں ایک میرا خاص دوست جتیندر کمار ہے ۔

اس نے بہت دکھ کے ساتھ یہاں سے گیاتھا ۔مہربان علی نے مزید کہا کہ جتیندر کمار او ردوسرے کئی افراد نے وعدہ کیاتھا کہ وہ واپس ضرورآئیں گے ۔ مہربان علی نے کہا کہ ان لوگ کے یہاں سے چلے جانے کے بعد یہاں کے مسلمان ہی اس مندر کو نگرانی کررہے ہیں۔ اسے روزانہ دھوتے ہیں او رہر دیوالی کے موقع پر اسے رنگ کیا جاتا ہے ۔اس بستی میں تقریبا ۳۵؍ مسلمانوں کے مکانات ہیں ۔ یہاں کے مقامی مسلمانوں دلی خواہش ہے کہ ان کے پرانے ہندو پڑوسی دوبارہ لوٹ آئیں ۔ ظہیر نامی ایک شخص نے بتایاکہ ہم اس مندر کو روزانہ صاف کرتے ہیں ۔

ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے ہندو بھائی دوبارہ یہاں آجائیں او راس مندر کو واپس حاصل کرلیں ۔ انہوں نے کہا کہ اس مندر میں مورتی نہیں ہے ۔ فرقہ وارانہ فساد کے بعد یہاں کے ہندو لوگ جب یہاں سے گئے انہوں نے اپنے ساتھ اس مورتی کو بھی لے گئے ۔