مضبوط انڈیا پر بات کرتے ہوئے جے این یو ۔ وی سی شیام پرساد مکھرجی کا حوالہ دیتے ہوئے جواہرلال نہرو کو تنقید کا نشانہ بنایا

ایم جگدیش کمار نے کہاکہ جے این یو قومی سکیورٹی کے نظریہ پر کافی سنجیدہ ہے او راسی وجہہ سے نیشنل سکیورٹی کے لئے ایک خصوص مرکز قائم کرنے کا فیصلہ لیاگیا ہے
نئی دہلی۔جواہرلال نہر و یونیورسٹی کے وائس چانسلر ایم جکدیش کمار نے ایک روز قبل بھارتیہ جنتا پارٹی کے بانی شیاما پرساد مکھرجی کی تقریر کا حوالہ دیاجس میں سابق وزیر اعظم جواہرلال نہرو کو بڑے سے ذہن کوہٹانے کے لئے ’’ فرقہ واریت کا رونا ‘‘ کوبڑھاوادینے کے ئے تنقید کانشانہ بنایاگیاتھاجن کے نام پر مذکورہ یونیورسٹی قائم کی گئی ہے‘ او رکہاکہ آج بھی ملک کے حالات کو اسی طرح کی صورت حال کا سامنا کرناپڑرہا ہے۔

سنٹر فار میڈیا اسٹڈیز کی جانب سے منعقدہ ایک تقریب کی کمار نگرانی کررہے تھے جس کا عنوان ’’ قومی سکیورٹی‘ قومی یکجہتی‘ اعلی تعلیم میں شیاما پرساد مکھرجی کا تعاون‘ تھا۔

ایم او ایس ‘ پی ایم او جتیندر سنگھ‘ سابق بی جے پی ایم پی ترون وجئے اور لفٹنٹ جنرل سید عطا حسنین ( ریٹائرڈ) نے بھی تقریب میں شرکت کی ۔

تقریب سے اختتامی خطاب کرتے ہوئے کمار نے کہاکہ ’’ اپنی تقریر میں1951جون 2کو بطور رکن پارلیمنٹ موکھرجی نے کہاتھا کہ’فرقہ واریت کا رونہ رونے میں پنڈت نہرو کی وجہہ سے اضافہ ہوا ہے تاکہ ملک کی توجہہ ہٹائی جاسکے اس وقت جب ہم غربت ‘ بھوک ‘ بدانتظامی‘ بدعنوانی اور پوری طرح پاکستان کے ساتھ خودسپردگی اختیار کرلینا‘ جیسے مسائل سے دوچار ہیں۔

آج ہم اسی طرح کے حالات سے دوچار ہیں۔ جب ہم ایک مضبوط‘ منظم بنارہے ہیں ‘ تو یہاں پر ملک کے اندر او رباہر ک غیرمعمولی قوتیں مضبوط اور متحد ملک بنانے سے روکنے کے لئے ہماری توجہہ ہٹانے کی کوشش کررہے ہیں‘‘۔

ایم جگدیش کمار نے کہاکہ جے این یو قومی سکیورٹی کے نظریہ پر کافی سنجیدہ ہے او راسی وجہہ سے نیشنل سکیورٹی کے لئے ایک خصوص مرکز قائم کرنے کا فیصلہ لیاگیا ہے۔انہوں نے کہاکہ ’’ قومی سکیورٹی کے متعلق جے این یو بھی نہایت تشویش میں ہے۔

نصابی کونسل میں تفصیلی مشاورت کے بعد ‘ ہم نے متفقہ طور پر کچھ قدم اٹھائے ہیں ‘ جس کو آگے بڑھانے کا فیصلہ لیا ہے۔

جب ہم نے یوجی سی کو یہ تجویز پیش کی تو انہوں نے بھی رضامندی ظاہر کی ‘‘۔

ایم او ایس جتندر سنگھ نے کہاکہ 2016فبروری9کے روز مبینہ طو پر کیمپس میں ایک تقریب کے دوران لگائے گئے مخالف ملک نعروں کی وجہہ سے جے این یو وائس چانسلر’’الجھن‘‘ کاشکار ہوکر موکھرجی کے الفاظ کو یادلالنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔

سنگھ نے کہاکہ ہندومہاسبھا کا لیڈر ہونے کی وجہہ سے موکھرجی کو ’’ کوتاہ ذہنی ‘‘ سے دیکھا جاتا ہے۔سنگھ نے کہاکہ’’ انہو ں نے اشکوکا او راکبر کو بطور عظیم حکمرانوں کی مثالیں پیش کی جن کے دور حکومت میں اندرونی کشیدگی نہیں تھے۔

مہربانی کرکے یہ نوٹ فرمالیں کے انہوں نے اکبر کو ایک عظیم حکمران قراردیا ہے‘‘۔وجئے نے موکرجھی کے کشمیر کے متعلق خواب پر زوردیا او رکہاکہ وہاں ایک ہی پرچم ہندوستان کا ریاست میں لہرایا جارہا ہے۔انہوں نے کہاکہ ’’ وہ ہمیشہ دونشان‘ دو ویدھان اور دو پردھان کے خلاف احتجاج کرتے رہے ہیں۔

آج وہاں دو ودیدھان او ردو پردھان کی نوعیت ختم ہوچکی ہے۔ ہمیں امید ہے کہ وہاں پر صرف ہندوستانی پرچم ہی رہے گا‘‘۔ حسنین نے موکھرجی کے ایک مذہب پر مبنی ملک کے حوالے سے بحث کی ۔ انہو ں نے کہاکہ ’’ قومیں ایک عقیدہ کی بنیاد پر قائم رہی ہیں مگر وہ ہمیشہ نہیں رہی۔

تاہم قومیت اگر ہر عقیدے کے احترام پر مشتمل ہوں تو اس کی شروعات میں ضرور مشکل ہوتی ہے مگر ہمیشہ جشن کا ماحول بنارہتا ہے‘‘