مشرا خاتون پچھلے دوسالوں میں گاؤں سے دسویں جماعت میں کامیابی حاصل کرنے والی لڑکی بنی۔

ضلع کے رائے پور بلاک کا مسلم اکثریتی والا علاقے ریہنا کا سرکاری سینئر سینکڈری اسکول 2014-15میں بارہویں جماعت تک کا اضافہ ہوا تھا اس سے قبل یہاں پر اٹھویں جماعت تک ہی تعلیم دی جاتی تھی
پنجکولہ۔نیلے رنگ کا سلوار قمیز زیب تن کئے او رسر پر دوپٹا اوڑھی مشرا خاتون اپنے گھر میں بیٹھی سلائی مشین پر اپنا ہی ڈریس کی سلوائی کررہی تھی۔

پچھلے ہفتہ تک مشرا خان ریہنا کی ایک پندرہ سالہ لڑکی تھی۔

مگر اب وہ گاؤں کی مشہور شخصیت بن گئی ۔ وہ اس سال دسویں جماعت میں کامیابی حاصل کرنے والی واحد طالب بن گئی۔ضلع کے رائے پور بلاک کا مسلم اکثریتی والا علاقے ریہنا کا سرکاری سینئر سینکڈری اسکول 2014-15میں بارہویں جماعت تک کا اضافہ ہوا تھا اس سے قبل یہاں پر اٹھویں جماعت تک ہی تعلیم دی جاتی تھی

مارچ2016میں منعقد ہوئے دسویں جماعت کا امتحان لکھنے والے 35طلبہ میں سے صرف پانچ کامیاب ہوئے۔سال2016-17میں دسویں جماعت کاامتحان لکھنے والے تمام 41طلبہ فیل ہوگئے تھے۔ اس سال امتحان لکھنے والے 63طلبہ میں23لڑکیا ں تھیں بشمول 41جو پچھلے سال فیل ہوئے تھے۔

جو اس مرتبہ بھی فیل ہوگئے۔ مشرا صرف وہ ایک لڑکی ہے جس نے ریہنا کی دسویں جماعت کے بورڈ امتحان میں69فیصد نشانات سے کامیاب ہوئی ہے۔

ریہنا اسکول میں150طلبہ نویں تا بارہویں جماعت ہے اور ان کے پانچ ٹیچرس ہیں ۔ ٹیچرس کی چھ جائیدادیں مخلوعہ ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ اسکول کے تمام سینئر سائنس کلاسس کے لئے صرف ایک ٹیچر ستیش کمار ہے۔

کیمیائی کے ایک ٹیچر کمار نویں او ربارہویں جماعت کے طلبہ کو فزیکس او ربائیلوجی بھی پڑھاتے ہیں اور وہ مشرا کے کلاس ٹیچر بھی ہیں۔ کمار نے کہاکہ ’’کیونکہ ہمارے پاس اکثر اوقات میں ریاضی کے ٹیچر نہیں رہتے ‘ مجھے ریاضی کا بھی درس دینا پڑتا ہے۔ میں انگلش بھی پڑھاتا ہوں۔ مشرا قابل طلبہ ہے ۔ اگر کسی مضمون میں کوئی رکاوٹ پیش ائے یا سمجھنے سے قاصر رہے تو وہ مجھ سے رجوع ہوتی ہے۔ می

ں بہتر سے بہتر کرنے کی کوشش کرتاہوں‘‘۔ تاہم پرنسپل تیجنیدر نے فیملی کے قدامت پسند ماحول کو اس بچو ں کی تعلیم میں رکاوٹ کا سبب قراردیا ہے ۔

ان کا کہناہے کہ ’’ ان بچوں کو والدین مذہبی تعلیم کے لئے مدرسہ بھیجتے ہیں ۔ ہمیں وہاں سے انہیں نکال کر یہاں لانے کی ضرورت ہے تاکہ وہ کلاسس میں شامل ہوسکیں‘‘۔ نگر سرپنچ عالمگیر کا کہنا ہے کہ بچے مدرسہ اس لئے جاتے ہیں کیونکہ وہ عام اسکول میں فیل ہورہے ہیں۔

انہو ں نے کہاکہ ’’ اگر بچوں کوصحیح تعلیم نہیں دی گئی توو ہ کہاں جائیں گے ؟ وہ مدرسہ جاتے ہیں تاکہ کم سے کم قابل مولوی بن سکیں‘‘۔ مشرا کے والد اقبال نے کہاکہ ’’ لوگوں کے تبصرہ سن کر میں روپڑا۔ کچھ مرتبہ لوگوں نے کہاکہ اگر وہ پاس ہوجاتی ہے تو بڑی بات ہوگی۔

ایک لیبر کو یومیہ تین سو روپئے کماتا ہے ‘ اس کے پاس کیااثر ہوگا؟‘‘۔ ان کی آواز فخر سے بھری ہوئی تھی ۔ انہوں نے مزیدکہاکہ ’’ اسکول میں جہاں لڑکے امتحان پاس نہیں کرسکے وہیں مشرا نے بہترین نشانات کے ساتھ کامیابی حاصل کی ہے‘‘۔

اقبال نے یاد کرتے ہوئے کہاکہ وہ فوج میں بھرتی ہونا چاہتا تھا مگر والدین نے اٹھویں جماعت سے نکال کر کام پر لگادیا۔ اقبال ایک کسان ہے جو خاندان کے ایک چھوٹی زمین پرزراعت کرتے ہوئے ماہانہ چھ تا سات ہزار روپئے کی کمائی کرلیتا ہے۔

ایک کمرے کا چھوٹا گھر ہے جس میں ناتو ٹی وی ہے او رریفرجریٹر‘ اور نا کور نا اسمارٹ فون او رنا ہی کوئی گاڑی ہے