مسلمانوں کی تجارتی و صنعتی سرگرمیاں صفر

تلنگانہ / اے پی ڈائری خیر اللہ بیگ
تلنگانہ کو پرامن ریاست بنانے میں کامیاب ٹی آر ایس حکومت کو عین انتخابات سے قبل بدنام کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ مسلمانوں کے خلاف مبینہ اشتعال انگیز تبصرے کرنے والے سوامی ہری پورن نندا ہندوشیر کو تلنگانہ پولیس نے 6 ماہ کے لیے حیدرآباد سے تڑی پار کردیا ۔ اسی طرح بھگوان رام اور سیتا کی توہین کرنے کی پاداش میں تلگو فلم نقاد کاٹھی مہیش کو بھی 6 ماہ کے لیے شہر بدر بلکہ ریاست سے نکال دیا ۔ یہ دونوں کارروائیاں اس بات کی جانب اشارہ کررہی ہیں کہ تلنگانہ میں فرقہ وارانہ کشیدگی پھیلانے کی منظم سازش کی گئی ہے ۔ چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ کی حکمرانی میں ریاست کے پرامن ماحول کو گرما کر اپنے سیاسی و فرقہ وارانہ ایجنڈہ کو روبہ عمل لانے کے لیے فرقہ پرست تنظیمیں سرگرم دکھائی دے رہی ہیں ۔ سوامی پری پورن نندا نے راشٹرا ہندوسینا کے جلسوں میں مسلمانوں کے خلاف شر انگیز بیانات دئیے تھے ۔ حیدرآباد کی پرامن فضا کو مکدر کرنے کی کوشش کو پولیس نے ناکام بنادیا ۔ گذشتہ چند ماہ سے حیدرآباد میں فرقہ پرستوں نے ڈیرہ ڈالا ہے ۔ اب آنے والے دنوں میں شہر میں دو بڑے ہندو تہوار آنے والے ہیں ۔ بونال اور گنیش تہوار کے موقع پر پولیس کے لیے شہر کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی برقرار رکھنا کڑی آزمائش سے کم نہیں ۔ ایک طرف فلم نقاد نے اظہار خیال کی آزادی کا سہارا لے کر رام اور سیتا کے خلاف تبصرے کیے تو دوسری طرف مسلمانوں کو برابھلا کہا گیا ۔ شہر میں اچانک فرقہ وارانہ کشیدگی کا ماحول پیدا کرنے کے پیچھے سیاسی مفاد پرستی ہی پوشیدہ نظر آتی ہے ۔ بی جے پی کو یہ شکایت ہے کہ پولیس نے ہندو ازم کا پرچار کرنے والوں کے خلاف زیادتیاں کی ہیں ۔ سوامی کے خلاف کارروائی کو اس نے مسئلہ بناکر پولیس کے کام میں مداخلت کرنے کی کوشش کی ۔ اس کارروائی کو پورے ہندو طبقہ کی توہین کے مترادف قرار دیا ۔ اب وی ایچ پی ، بجرنگ دل کے کارکنوں کو یکجا کر کے ریاست گیر احتجاج کرنے کی دھمکی دی گئی ہے ۔ وی ایچ پی ، آر ایس ایس ، بی جے پی اور اکھیل بھارتیہ ودیارتھی پریشد کے کارکنوں کو اگر کھلی چھوٹ ملتی ہے تو یہ لوگ حیدرآباد اور ریاست میں فرقہ وارانہ کشیدگی کا ماحول پیدا کریں گے ۔ پولیس کو بہر حال ریاست کے پرامن ماحول کو بگاڑنے کی کوشش کرنے والوں کے خلاف سخت قدم اٹھانے کی ضرورت ہے ۔ مسلمانوں کو بھی چوکسی برتتے ہوئے اپنے اطراف موجود ایسے شرپسند عناصر کو ناکام کرنا چاہئے ، جو ان کی امن پسندی اور حب الوطنی پر حسد کرتے ہوئے انہیں کسی نہ کسی بہانے پریشان کرنا چاہتے ہیں ۔ حکومت تلنگانہ نے مسلمانوں کے حق میں کئی ایک کام کرنے کا دعویٰ کیا ہے اور اسی میں چند ایک کام دکھائی بھی دے رہے ہیں ۔ حکومت کی موافق مسلم پالیسی سے استفادہ کرنے کا یہ سنہری موقع ہے ، لیکن فرقہ پرستوں کی جانب سے رکاوٹیں کھڑی کی جانے کا بہانا تلاش کیا جاتا رہا ہے ، 12 فیصد تحفظات دینے میں ناکام کے سی آر اب کسی دوسرے طریقہ سے مسلمانوں کو راحت پہونچانے میں دلچسپی دکھا رہے ہیں تو ایسے حالات کا باریکی سے مشاہدہ کرتے ہوئے تجارت میں سرگرم ہونے پر توجہ دی جاسکتی ہے ۔ اگر مسلمانوں کے حق میں تلنگانہ حکومت کی پالیسی موافق ہے تو پھر مسلمانوں کو چھوٹے صنعتی ادارے قائم کرنے پر توجہ دینی ہوگی ۔ ہر زمانہ میں تجارت و صنعت میں ہی برکت پائی گئی ہے ۔ مسلمانوں کو اگر سرکاری ملازمتوں میں مواقع نہیں مل رہے ہیں تو وہ تجارت و صنعت کو اختیار کر کے اپنے بیروزگار نوجوانوں کو روزگار فراہم کرسکتے ہیں ۔ حکومت کے ایک قدم کا فائدہ اٹھا کر اگر مسلمان خاص کر متمول تجارت پسند مسلمان آگے بڑھ کر صنعتی شعبہ میں قدم رکھتے ہیں تو ان کی رہنمائی کی جاسکتی ہے ۔ یہ بات ہر صاحب شعور کے ذہن میں گشت کرتی رہتی ہے کہ مسلمانوں کو اپنے بل پر تجارت و صنعت کو اختیار کرتے ہوئے معاشی استحکام لانے کی کوشش کرنی چاہئے لیکن عدم معلومات اور حکومت کی پالیسیوں سے استفادہ کے طور طریقہ سے ناواقفیت کے باعث سرمایہ رکھنے کے باوجود مسلمانوں کا دولت مند طبقہ خود کو محدود کر رکھا ہے ۔ متمول افراد کو چھوٹی صنعتوں اور متوسط صنعتوں کے قیام پر ہی اپنی توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے اگر مسلمانوں کا دولت مند طبقہ اپنی منجمد دولت کو متحرک کرنے کا حوصلہ پیدا کرے تو ساری مسلم برادری کو بھی ترغیب ملنے لگے کہ وہ بھی کچھ نہ کچھ تجارتی سرگرمیوں سے وابستہ ہوجائیں ۔ خود بھی بہتر معاشی ترقی کریں اور دیگر مسلم نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کریں ۔ اس سے حکومتوں پر تکیہ کرنے کی لعنت سے چھٹکارا ملے گا ، لیکن بدبختی کی بات یہ ہے کہ مواقع ملنے کے باوجود کوشش نہیں کی جاتی ۔ اقلیتی کارپوریشن کے تعاون سے بہت ہی چھوٹے بجٹ سے ہی سہی کاروبار یا صنعت کا آغاز کیا جاسکتا ہے ۔ ایسے افراد کو سرکاری کاموں کی انجام دہی کے ذریعہ تجارت کے خواہاں افراد کی مدد کرنا چاہتے ہیں تو وہ بھی اپنی سرکاری معلومات اور خوبیوں سے مسلم تاجروں کی رہنمائی کرسکتے ہیں ۔ قرضوں کے حصول اور سبسیڈیز سے استفادہ کرنے کی کوشش کرنے والے درمیان میں ہی ہمت چھوڑ دیتے ہیں ۔ ایسے میں سرکاری کاموں میں تجربہ رکھنے والے لوگوں سے رجوع ہو کر رکاوٹوں کو دور کرنے کی ترکیب و طریقہ سے واقفیت حاصل کرلی جائے تو بلاشبہ مسلم طبقہ میں تجارت و صنعت کو فروغ دینے کا سلسلہ شروع ہوجائے گا ۔ بیرونی ملک ملازمتوں کے مواقع مسدود ہوتے جارہے ہیں ۔ سعودی عرب اور دیگر ملکوں سے خارجی اپنے وطن واپس ہونے لگے ہیں ان میں سے بیشتر کے پاس ان کی محنت کی جمع پونجی ہوتی ہے وہ اپنے وطن میں روزگار کا بندوبست کرلینے کی فکر کے ساتھ واپس ہوتے ہیں تو انہیں درست تجارت یا صنعت کا انتخاب کر کے شروعات کرنی چاہئے چونکہ دیکھا یہ جارہا ہے کہ ہندوستان میں صنعتی شعبہ کے اندر مسلمانوں کا فیصد صفر ہے ۔ مسلمانوں میں ہزاروں انجینئرس ، تعلیم یافتہ ، تجربہ کار افراد ہیں لیکن اپنی صلاحیتوں سے محض کاہلی یا عدم دلچسپی کے باعث استفادہ نہیں کرتے اور نہ ہی وہ اپنی صلاحیتوں سے طبقہ کے ساتھی افراد کی مدد کرنا چاہتے ہیں ۔ ایسے میں ہر دو کا نقصان ہورہا ہے ۔ علم اور معلومات کا تبادلہ بہت بڑا صدقہ ہے ۔ کارخیر کا جذبہ اور مسلم قوم کی بہتری کی آرزو سے ہی اجتماعی قوت بنتی ہے ۔ آج کے فرقہ وارانہ تعصب پسندانہ ماحول میں مسلمانوں کو ابھرنے کے لیے طبقہ کے اندر سے ہی صاحب سوچ قابل اور تجربہ کار افراد کے تعاون کی ضرورت ہے ۔ ملک کی ہر ریاست کو زعفرانی رنگ سے رنگنے کی کوشش ہونے کے درمیان اگر مسلمانوں نے اپنا محاسبہ سنجیدگی کے ساتھ نہیں کیا تو یہ فرقہ پرست طاقتیں اپنے مقاصد میں کامیاب ہوجائیں گی ۔ سیاسی پارٹیوں نے 1990 کے بعد سے فنڈ اکھٹا کرنے کا طریقہ کار بھی تبدیل کرلیا ہے ۔ اس وقت ملک میں فنڈس اکھٹا کرنے والی سرفہرست پارٹی بی جے پی کو سمجھا جارہا ہے تو آگے چل کر ملک کی دولت کا بڑا حصہ بی جے پی کے پاس رہ جائے گا ۔ سیاست میں فنڈ رائزنگ مہم کو کافی اہمیت حاصل ہورہی ہے ۔ بی جے پی اس میں سب سے زیادہ کامیاب دکھائی دے رہی ہے اس پارٹی کو ٹریڈرس پارٹی بھی کہا جاچکا ہے ۔ ملک میں بڑے کارپوریٹ گھرانوں کی 90 فیصد رقم بھی بی جے پی کے کھاتے میں جارہی ہے تو ذرا غور کیجئے کہ آنے والے برسوں میں ہندوستانی مسلمانوں کا مقام کیا ہوگا لہذا حیدرآباد تلنگانہ کے مسلمانوں کے اندر قومی سیاسی و معاشی امور کے تعلق سے فہم و فراست پائی جاتی ہے تو یہ لوگ کنویں کے مینڈک بن کر رہنے کے بجائے پرواز شاہین کا کردار اختیار کرسکتے ہیں ۔
kbaig92@gmail.com