مسلمانوں کیلئے بھی تحفظات کی راہ ہموار … ؟

تلنگانہ / اے پی ڈائری خیر اللہ بیگ
مسلمانوں کو 12 فیصد تحفظات دینے چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ کے منصوبے کے لیے راہ ہموار ہورہی ہے ۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے اعلیٰ ذات کے ہندوؤں کے معاشی طور پر پسماندہ افراد کو 10 فیصد تحفظات فراہم کیا ہے ۔ اس سے تحفظات کی مقررہ حد 50 فیصد کی حد ختم ہوجائے گی ۔ مرکزی سطح پر ہی مودی حکومت نے 50 فیصد تحفظات کی حد کو توڑنے کا کام کیا ہے تو پھر یہ چیف منسٹر تلنگانہ اور ان کے ہم منصب چیف منسٹر آندھرا پردیش چندرا بابو نائیڈو کے لیے بہت بڑی سیاسی جیت ہوگی ۔ دونوں تلگو ریاستوں کے چیف منسٹروں نے تحفظات کے وعدے کیے ہیں ۔ کے سی آر کی خواہش ہے کہ مسلمانوں کو معاشی تعلیمی ترقی دینے کے لیے 12 فیصد تحفظات فراہم کئے جائیں ۔ چندرا بابو نائیڈو نے کاپو طبقہ کو پانچ فیصد کوٹہ دینے کی خواہش کی ہے ۔ اگر وزیراعظم نریندر مودی نے اعلیٰ ذات کے ہندوؤں کے غریب افراد کو 10 فیصد تحفظات دینے کے لیے دستور میں ترمیم کردی تو پھر مسلمانوں کو بھی تحفظات دینے کا وعدہ کرنے والے چیف منسٹر کے سی آر کو اپنی پالیسی پر عمل کرنے کا زبردست موقع مل جائے گا ۔ وہ بھی اس دستوری ترمیم کے بعد مسلمانوں کو 12 فیصد تحفظات دے سکتے ہیں ۔ سماجی پسماندگی اور معاشی کمزوری کی بنیاد پر تحفظات ملتے ہیں تو تحفظات فراہم کرنے کی حد 50 فیصد سے تجاوز کرے گی ۔ دستوری ترمیم کرتے ہوئے جب وزیراعظم مودی اپنی پالیسی کو روبہ عمل لاسکتے ہیں تو ان کے سامنے تلنگانہ حکومت کا یہ مطالبہ پیش کیا جائے گا کہ ریاست تلنگانہ کے مسلمانوں کو بھی 12 فیصد تحفظات دینے ٹی آر ایس حکومت کی پالیسی کو منظوری دیدے ۔ کے چندر شیکھر راؤ نے ٹی آر ایس کے ارکان پارلیمنٹ سے کہا ہے کہ وہ تحفظات بل میں ترمیمات کے لیے زور دیں ۔ اعلیٰ ذات کے غریب ہندوؤں کو 10 فیصد تحفظات فراہم کرنے والے بل میں ترمیم کرنے کے لیے زور دیا جائے ۔ مرکزی حکومت نے پارلیمنٹ میں تحفظات بل پیش کیا ہے ۔ اس دستوری ترمیمی بل میں مسلمانوں اور ایس ٹی کو بھی تحفظات دینے کا مطالبہ شامل کیا جائے تو پھر تلنگانہ کے مسلمانوں کو ترقی دینے کے سی آر کا خواب پورا ہوگا ۔ مرکزی حکومت نے جیسے ہی اپنے ووٹ بینک کو مضبوط بنانے 10 فیصد تحفظات دینے کا فیصلہ کیا ہے تو کے سی آر کو اب مضبوط موقف حاصل ہوگیا ہے کہ وہ 10 فیصد کوٹہ کے حوالے سے پسماندہ مسلمانوں کو بھی تحفظات فراہم کرانے پر زور دیں ۔ ٹی آر ایس کے رکن پارلیمنٹ ونود نے گذشتہ دنوں لوک سبھا میں مطالبہ کیا تھا کہ مرکز کو نہ صرف اعلیٰ ذات کے ہندوؤں کو 10 فیصد تحفظات دینے کی پالیسی پر عمل کرنا ہے بلکہ پسماندہ مسلمانوں کو بھی کوٹہ دیا جائے جو کہ حکومت تلنگانہ نے اس کوٹہ کی سفارش کو مرکز کے پاس روانہ کیا ہے ۔ کوٹہ دینے کا فیصلہ تب ہی ممکن ہوگا جب مرکز کی جانب سے ریاستوں کو اختیارات دیئے جائیں ۔

ریاستوں کو اپنے شہریوں کے سماجی مساوات کا خیال آتا ہے تو پھر مودی حکومت کی 10 فیصد کوٹہ پالیسی کا ان ریاستوں کو بھی فائدہ ہوگا اور وہ اس حوالے سے اپنے عوام کو بھی پسماندگی کی لکیر سے اوپر لانے کی کوشش کریں گی ۔ ہندوستانی مسلمانوں خاص کر تلنگانہ کے مسلمانوں کو اب چوکس ہونے کی ضرورت ہے ان کے لیے مودی حکومت نے از خواہ راہ ہموار کردی ہے ۔ اس موضوع پر محنت کرتے ہوئے اپنے لیے تحفظات کے حصول کی کوشش کرنی چاہئے خاص کر مسلمانوں کی نمائندگی کرنے کا دعویٰ کرنے والی پارٹیوں کے لیے یہ بہترین موقع ہے کہ وہ 50 فیصد تحفظات کی حد برخاست کردینے والے مودی حکومت کے اقدام کا فائدہ اٹھائیں ۔ اعلیٰ ذات کے غریب ہندوؤں کو جب 10 فیصد کوٹہ مل سکتا ہے تو پھر پسماندہ مسلمانوں کو بھی کوٹہ حاصل کرنے کا حق ہوگا ۔ مسلمانوں کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ حکومت کی سطح پر ایسے سیاستداں ہیں جو صرف اپنے طبقات کو فائدہ پہونچا رہے ہیں بلکہ یہ لوگ ہندوستانی مسلمانوں کے حصے کا میوہ کھاتے آرہے ہیں اور مسلمان ہیں کہ اپنی کمزوریوں ، تساہلی اور لاشعوری کی وجہ سے ہندوستانی معاشرہ کی صف میں سب سے پیچھے کھڑے ہیں اور پچھلی لائن میں ہی کھڑے رہ کر جمائیاں لیتے رہے ہیں کبھی چوکس نہیں رہے ۔ اگر سست روی اور کاہلی کے ساتھ جمائیاں لیتے رہیں گے ۔ بریانی اور میٹھے کی ڈش پر ٹوٹ پڑنے کو ہی اپنی ہوشیاری اور چالاکی سمجھتے رہیں گے تو انہیں مزید ایک طویل عرصہ تک یہی سننا پڑے گا کہ ان کے حصہ کے میوے کی ٹہنی ٹوٹ گئی ہے یعنی تحفظات یا کوٹہ کے فیصد کی حد ختم ہوگئی ہے ۔ مسلمانوں کو شادی خانوں سے باہر لانے کی ضرورت ہے ۔ انہیں بیدار کرنے کی ضرورت ہے کہ ان کے سامنے اعلیٰ ذات کے غریب ہندوؤں کی صف کھڑی کر کے مرکزی حکومت نے ان کے حصہ کا 10 فیصد کا کوٹہ بھی چھین لیا ہے ۔ اب ان کے سامنے انگور کا باغ رہ گیا ہے ۔ جس کو دیکھ دیکھ کر ایک دن انگور کھٹے ہونے کا گلہ کر کے بیٹھ جائیں گے ۔ ان کے نمائندے ہی ان انگور کے باغوں سے استفادہ کر کے فارم ہاوز میں انوع اقسام کے ڈشوں کی دعوت اڑاتے رہیں گے ۔ مسلمان اپنے قائد کی اس شایانہ ٹھاٹ کے ویڈیوز دیکھتے ہی رہیں گے ۔ اُف تک نہیں کریں گے بلکہ اپنے قائد کی اس شان و شوکت کے گیت گاکر اندر اندر خوش ہوتے رہیں گے کہ ان کا لیڈر بھی کسی راجہ مہاراجہ سے کم نہیں ہے ۔ ان کی یہی تشویشناک سوچ کا فائدہ اٹھا کر یہ لیڈر انہیں بے وقوف بنانے میں کامیاب ہوتے آرہے ہیں ۔ یہ بڑے سیاسی کاریگر ہیں ۔ ووٹ لینے کے بعد انہیں بیچ مجھدار میں چھوڑ کر غائب ہوجاتے ہیں ۔ اگر مسلمانوں کا لیڈر مسیحا ہے تو وہ دستوری ترمیم ( 124 ترمیمی ) بل کو مسلمانوںکے لیے تاریخی بنانے کی کوشش کرتے ہوئے کامیاب ہوسکتا ہے ۔ کیوں کہ حکومت نے خودا پنے ترمیمی بل اقدام کو تاریخی قرار دیا ہے ۔ اس حکومت کے حلق میں انگلیاں ڈال کر مسلمانوں کے لیے بھی تحفظات کو یقینی بنانے کی ہمت کرنے اور مسلمانوں کو ہمت دلانے کی ضرورت ہے ۔ لوک سبھا میں زائد از 323 ارکان نے اس بل کی حمایت کی ہے ۔ جس میں دستور کے آرٹیکل 15 اور 16 میں ترمیم کی حمایت کی گئی ہے ۔ لوک سبھا اور راجیہ سبھا دونوں ایوانوں میں کوٹہ ترمیمی بل کی منظوری مسلمانوں کے لیے بھی خوش آئند ہے ۔ اب مرکزی حکومت مسلمانوں کو کوٹہ دینے میں کوئی حیلہ بہانہ نہیں کرسکتی ۔ اگر اس نے کوئی نہ کوئی حیلہ کیا تو مسلم قائدین اور خود مسلمانوں کو اٹھ کھڑے ہو کر اپنے ہندوستانی ہونے اور اپنے بیداری کا ثبوت دینا ہوگا ۔ ان کے حق میں آواز اٹھانے والی حکمران پارٹی ٹی آر ایس کو بھی یاد دلاتے رہنا ہوگا ۔ ٹی آر ایس ، مرکز پر زور دیتے آرہی ہے کہ وہ ریاستوں کو اپنے طور پر فیصلے کرنے کا اختیار دے ۔ چندر شیکھر راؤ نے بہ بانگ دہل کہا ہے کہ وہ مسلمانوں کے لیے کوٹہ حاصل کر کے ہی رہیں گے ۔ ان کے اس عزم کی ستائش کرتے ہوئے مسلمانوں کو ہی ان کا بھر پور ساتھ دینے کی ضرورت ہے اور ان کے منصوبوں کی حمایت کرتے ہوئے اپنے لیے 12 فیصد تحفظات کے حصول کی جدوجہد میں مصروف ہونے کی ضرورت ہے ۔ اس تمام حقیقت بیانی کے بعد بھی اگر مسلمان اپنے قائد کی دی ہوئی نیند کی گولی کھا کر جمائیاں لیتے رہیں گے تو پھر وہ اس ملک کے دیگر طبقات کی صف میں سب سے پیچھے کی قطار میں ہی کھڑے رہیں گے اور ان کے لیڈر تعزیت کو بھی نہیں آئیں گے ۔ اب تو سمجھ لو کہ انہیں اصل خطرہ ان کے سیاسی چوہدریوں سے ہے ۔۔
kbaig92@gmail.com