مسجد الاقصیٰ کے احاطہ میں کھدائی، اسرائیل کی نئی شرانگیزی

براق پلازا اور عہد امیہ کے تاریخی محلات پر یہودیوں کا نشانہ، یونیسکو ٹیم کا دورہ روک دیا گیا

راملہ ۔ 21 مئی (ایجنسیز) یہودی مملکت اسرائیل کے صیہونی حکام نے مسلمانوں کے قبلہ اول بیت المقدس میں مسجد الاقصیٰ کامپلکس کے اطراف کھدائی کا کام شروع کردیا ہے اور اس جرم کی پردہ پوشی کرنے کیلئے اقوام متحدہ کے ادارہ برائے تعلیم، سائنس و ثقافت (یونیسکو) کے وفد کو اس علاقہ کا دورہ کرنے سے روک دیا ہے۔ اقوام متحدہ کایہ وفد پرانا شہر یروشلم میں قدیم آثار کے تحفظ سے متعلق کاموں کا معائنہ کرنے کیلئے اس ہفتہ یہاں پہونچ رہا تھا۔ اسرائیلی مقبوضہ یروشلم میں اسلامی اوقاف کے سربراہ شیخ عظام الخطیب نے کہا کہ اسرائیلی حکام نے براق پلازا میں کھدائی کا کام شروع کردیا ہے۔ اس کے علاوہ مسجد الاقصیٰ کے جنوب میں واقع قدیم امیہ محلوں کو بھی کھدائی کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ اسرائیلی حکام نے نام نہاد اسٹراس ہاؤس کی تعمیر کے لئے براق پلازا کی کھدائی کا آغاز کیا ہے، جس کیلئے یروشلم کی ضلع منصوبہ بندی و تعمیرات کمیٹی نے 2010ء میں منظوری دی تھی۔ اسرائیل اس مقام پر ایک چار منزلہ کامپلکس تعمیر کرنا چاہتا ہے۔ خطیب نے کہا کہ بنوامیہ کے دور کے محلات کے اطراف بھی کھدائی کی جارہی ہے جہاں اسرائیلی حکومت ایک آہنی پل تعمیر کرنا چاہتی ہے تاکہ یہودیوں کی نام نہاد دوسری عبادت کیلئے نقل و حرکت کی سہولت فراہم کی جاسکے۔

ابھرتے ہوئے بازاروں سے سرمایہ کی آمد متحدہ عرب امارات کیلئے مفید
دبئی ۔ 21 مئی (پی ٹی آئی) متحدہ عرب امارات خلیجی تعاون کونسل کے ارکان میں سے خانگی سرمایہ کی آمد میں اضافہ کا سب سے بڑا استفادہ کنندہ بن گیا ہے۔ زیادہ تر سرمایہ متحدہ عرب امارات میں ہندوستان، چین اور روس سے آتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہیکہ یہ ممالک سیاسی اعتبار سے مستحکم ہیں اور ملک میں مثالی مقامی سرمایہ کاری مواقع رکھتے ہیں۔ چوتھی سالانہ انویسکو مشرق وسطیٰ اثاثہ جات انتظامیہ مطالعہ کے بموجب متحدہ عرب امارات کو زیادہ تر خانگی سرمایہ کی ملک میں آمد سے فائدہ حاصل ہوا ہے۔ خلیجی تعاون کے علاقہ میںآنے والے سرمایہ کا 43 فیصد متحدہ عرب امارات کو حاصل ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ بحرین، کویت، عمان، قطر اور سعودی عرب بھی سرمایہ کی آمد سے استفادہ کرتے ہیں۔ مطالعہ کے بموجب خلیجی تعاون کونسل میں صنعتی انتظامیہ کے اثاثہ جات میں اضافہ کے جائزہ سے معلوم ہوتا ہیکہ متحدہ عرب امارات میں ابھرتے ہوئے بازاروں سے سرمایہ کی آمد ہوتی ہے ان میں 15 فیصد ہندوستان، 10 فیصد روس اور 7 فیصد چین سے آتا ہے۔ 13 فیصد خانگی سرمایہ ترقی یافتہ ممالک برطانیہ، یورپ اور شمالی امریکہ سے حاصل ہوتا ہے۔