مساجد کی بازیابی کیلئے دہلی ہائی کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹانے کی تیاری

نئی دہلی : ساکیت میں واقع شاہی دورکی عالیشان کھڑکی مسجد میں نماز پڑھنے کی اجازت نہ دینے کا معاملہ اب کافی سنگین ہوتا جارہا ہے۔

یہ مسجد آثار قدیمہ کے تحت آتی ہے ۔او ریہاں لگے بورڈپر مسجد لفظ کو مٹانے کی شکایت وزیر اعظم نریندر مودی سے کرنے کے بعد بھی ابھی تک محکمہ آثار قدیمہ کے افسران نیند سے نہیں جاگے ہیں ۔او رابھی بھی یہاں پر لگے سرکارتی بورڈ پر مسجد لفظ نہیں لکھا گیا ہے۔مسجد میں نماز پڑھنے کی اجازت کے لئے ایڈوکیٹ شاہد علی دہلی ہائی کورٹ میں ایک مفاد عامہ داخل کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ آئین ہند میں تمام مذاہب کے لوگو ں کو اپنی اپنی عباد تگاہوں میں عبادت کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔اس کے باوجو د محکمہ آثار قدیمہ اپنے تحت آنے والی مسجدوں میں نماز پڑھنے سے روک رہی ہے۔واضح رہے کہ مسجد کھڑکی کا معاملہ جاریہ سال کے ۲۳ جنوری کو سامنے آیا ۔جب ساکیت کورٹ کے کچھ وکیل شاہدعلی ایڈوکیٹ کے ساتھ نماز ادا کرنے کیلئے وہا ں پہنچے تھے۔

آس پاس میں کوئی مسجد نہ ہونے کی جہ سے یہ لوگ یہا ں نماز ادا کرنے کے لئے پہنچے تھے۔تب انہوں نے دیکھا کہ اتنی عالیشان مسجد ہونے کے باوجو د وہاں پر گندگی کی بھر مار ہے او ر یہاں پر لگے اے ایس آئی کے بورڈ سے لفظ مسجد کو ہٹادیا گیا۔اسکے علاوہ مسجد کے آس پاس شر پسند عناصر نے اپنا قبضہ جمالیا ہے۔

اس کے بعد شاہد علی نے وزیر اعظم مودی ، محکمہ آثار قدیمہ ، سنٹرل وقف کونسل او ر دہلی وقف بورڈ کو ایک عرضی بھیجی تھی۔جس میں ان سے یہاں نمازپڑھنے کی اجازت کے ساتھ مسجد کے حالات کی پوری اطلاع دی تھی۔تقریبا دیڑھ ماہ گذرنے کے بعد سنٹرل وقف کونسل کے علاوہ کسی بھی سرکاری محکمہ کا جواب نہیں آیا۔او رنہ ہی ابھی تک مسجد کے باہر لگے بورڈ کو بدلاگیاہے۔

شاہد علی نے کہا کہ انہیں بہت افسو س ہے کہ بے حد سنگین مسئلہ پر حکومت خاموشی اختیار کئے ہوئے ہے۔انہوں نے کہا کہ وہ اگلے ہفتہ دہلی ہائی کورٹ میں کھڑکی مسجد او ردوسرے تمام مساجد جس پر آثار قدیمہ کا کنٹرول ہے اسے آزاد کرنے کے لئے او روہاں نماز ادا کرنے کی اجازت کے لئے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے جارہے ہیں ۔