مذہب کے نام پر مارپیٹ اور قتل وغارت گری جائز نہیں ہے ۔سپریم کورٹ

نئی دہلی۔سپریم کورٹ نے عدالتوں کو ’’ایک مذہب کے خلاف تعصب پر مشتمل‘‘ حکم جاری کرنے کے متعلق انتباہ دیا ۔اور عدالت عظمیٰ نے کہاکہ دوسری مذہبی شناخت کے حامل شخص کو قتل کرنا یا ایسے فرد کے ساتھ مارپیٹ کرنا ہرگز جائز نہیں ہے۔

معزز عدالت نے سختی کے ساتھ نفرت پر مبنی جرائم کونامنظور کیا اور کہاکہ عدالتوں کو یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہئے کہ ہندوستانی معاشرے کے مطابق وہ تکثریت پسندی اپنائیں اور یہ ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ غیر متعصبانہ انداز میں علیحدہ گروپس کے حقوق کا فیصلہ کریں۔

جسٹس ایس اے بابڈے اور ایل ناگیشوار راؤ نے یہ حکم جاری کیا کہ عدالتیں اس بات کی مشاورت ہرگز نہیں کرسکتے جو ایک کمیونٹی کے خلاف تعصب پر مشتمل ہے۔مذکورہ ممبئی ہائی کورٹ نے سال2014کے ایک کیس میں مبینہ طور پر ایک مسلم نوجوان کے قتل کے مقدمے میں ہندوراشٹرایہ سینا کے چار لوگوں کو ضمانت دیتے ہوئے اس بات کا یہ حکم جاری کیاتھا کہ’’ متوفی کو قصور صرف اتنا ہے کہ اس کا تعلق کسی دوسرے مذہب سے ہے۔

میں اس وجہہ کو ملزم کے حمایت قراردیتا ہوں‘‘۔متوفی کے ایک رشتہ دار شیخ محسن کی جانب سے مذکورہ ضمانت کے احکاما ت کے خلاف دائرہ کردہ چیالنج پر سنوائی کے دوران تبصرہ کرتے ہوئے کہاکہ عدالت کے ایسے توقعات کو غیر قانونی ہیں۔

کیس کی سنوائی کے دوران عدالت عظمیٰ نے کہاکہ ابتدائی طور پر یہ سمجھنا دشوار ہے کہ ہائی کورٹ نے ان تینوں کو متوفی کے مذہب کی بنیاد پر ضمانت کس طرح دی ہے ۔

سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ کے احکامات کو مسترد کرتے ہوئے تینوں ملزمین رنجیت شنکریادو‘ اجئے دلیپ لالگی اور وجئے دراجندران گمبھیر عدالت میں خودسپردگی اختیار کرتے ہوئے دوبارہ ضمانت کی عرضی پیش کریں۔