مخالف بی جے پی اتحاد کی توسیع کے لئے کانگریس کی حکمت عملی

نئی دہلی۔ کانگریس جنرل سکریٹری اشوک گیہلوٹ نے چہارشنبہ کے روز کہاکہ بی جے پی کو روکنے کے لئے کانگریس دیگر اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ اتحاد میں الیکشن لڑے گی۔

تنظیم کے ایک انچارج اور راہول گاندھی کے قریبی مانے جانے کی وجہہ سے گہیلوٹ کا یہ تبصرے نہ صرف پارٹی کی مخالف بی جے پی اتحاد کو قومی سطح پروسعت دینے کی تیاری پر قابل یقین ہے بلکہ مدھیہ پردیش‘ راجستھان اور چھتیس گڑہ کے حساس الیکشن کے اگلے دور کی طرف ایک اشارہ بھی ہے۔

گیہلوٹ نے ایک نیوز کانفرنس میں کہاکہ ’’ سماج کا ہر شعبہ بی جے پی کے پچھلے چار سالوں کے بعد مشکلات سے دوچار ہے۔

اپوزیشن پارٹیوں پرعوام کادباؤ ہے کہ ایک پلیٹ فار م پر اجائیں‘‘۔کرناٹک کے نتائج سے یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ مذکورہ نریندر مودی کے فیصلوں کو متحدہ اپوزیشن کے بغیر چیالنج نہیں کیا جاسکے گا۔

مدھیہ پردیش ‘ راجستھان اور چھتیس گڑہ میں کانگریس قائدین اس بات پر زوردے رہے ہیں کہ کم از کم بہوجن سماج پارٹی کے ساتھ اجائیں کیونکہ مذکورہ تین ریاستوں میں اس کی اچھی پکڑ ہے۔

تاہم مذکورہ قائدین کو اس بات کا یقین ہے کہ اس میں بے شمار مشکلات ائیں گے۔ کانگریس کے ایک سینئر لیڈر نے کہاکہ ’’ اپوزیشن کا اتحاد او رقربانیوں کا منشاء کسی کو بنانا نہیں ہے۔ مذکورہ کانگریس کی بڑی قربانی کرناٹک میں کامیاب رہی ۔ ایک پارٹی( جتنادل سکیولر) جس کے ادھی سیٹیں بھی نہیں ہیں اس کو حکومت کی تشکیل کے لئے منظوری دیدی۔ کیادوسری سیاسی جماعتیں اس طرح کے عزم کا اظہار کرسکیں گے؟‘‘۔

وہیں بی ایس پی نے مدھیہ پردیش میں اپنی حمایت کا بنیاد کو جاری رکھا ہے‘ مذکورہ سماج وادی پارٹی اور عام آدمی پارٹینے ریاست کے تمام 230سیٹوں پر مقابلہ کے ارادے کا اعلان کیاہے۔مدھیہ پردیش میں کانگریس لیڈرس کا کہنا ہے کہ سماج وادی پارٹی نے 2003اور2008کے الیکشن میں2فیصد سے بھی کم ووٹ لئے ہیں وہ بھی اتحاد میں اہم رول ادا کرسکتی ہے۔

بی ایس پی نے 2013کے اسمبلی انتخابات میں چار سیٹوں پر جیت حاصل کی اور6.29ووٹ لئے تھے ۔ جبکہ 2008میں سات سیٹوں پر کامیابی حاصل کرتے ہوئے 8.97فیصد ووٹ حاصل کئے۔ کانگریس کو2013میں بی جے پی سے اٹھ فیصد کم ووٹ ملے اور 2008میں پانچ فیصد ‘ وہ جانتے ہیں کہ بی ایس پی سے اتحاد کھیل بدل سکتا ہے۔ایک سینئر لیڈر نے کہاکہ ’ جہاں بی ایس پی ایک اثاثہ ہے وہیں سماج وادی پارٹی ایک ذمہ داری ہے۔

ہم دونوں کو ساتھ لے سکتے ہیں اگر مطالبات واجبی ہوں۔چھوٹی علاقائی جماعتوں سے قربت تب ہی ممکن ہے جب کانگریس قربانی دے‘‘۔راجستھان او رچھتیس گڑہ میں بی ایس پی کی مدد او ربھی مشکل ہے۔چھتیس گڑہ میں کانگریس اور بی جے پی کے درمیان میں صرف1.7فیصد ووٹو ں کا فرق2008میں تھا اور2013میں0.75فیصد ووٹ کا فرق تھا مذکورہ بی ایس پی کو 2008میں6.11اور 2013میں4.27ووٹ ملے۔

مگر اس بار کانگریس کے سامنے ایک او ررکاوٹ دیکھائی دے رہی ہے او روہ ہے اجیت جوگی کے چھتیس گڑہ جنتا کانگریس جس کے ساتھ اب تک اتحاد کی کوئی صورت پیدا نہیں ہوئی ہے۔راجستھان میں بھی مذکورہ کانگریس بی ایس پی کے ساتھ اتحاد میں زیادہ غور کررہی ہے ‘ جہاں پر 2008میں چھ سیٹ پر کامیابی حاصل کرنے کے بعد7.6فیصد اور 2013میں تین سیٹ پر جیت حاصل کرنے کے بعد3.37فیصد ووٹ بی ایس پی کو ملے ہیں۔

کانگریس کو امید ہے کہ یہ قومی سیاسی بحران کو پارٹی کی بنیادوں کو توسیع دینے کے موقع کے طو رپر نہیں دیکھیں گے اور وہ لیڈران بی جے پی کوشکست دینے کی بنیادی عنصر کی حکمت عملی پر غور کریں گے۔ این سی پی کے قدآور لیڈر شرد پاؤر نے کرناٹک میں کانگریس کے پہل کو قابل ستائش قررادیا اور اس امید کا اظہار کیاکہ راہول اور ان کی پارٹی مستقبل میں بھی اس طرح کا تعاون کا اظہار کریگی۔