محفل ذکر میں با ادب حاضری

سوال : جناب عالی آپ سے پوچھنا یہ ہے کہ ا کثر میں نے دیکھا ہے کہ آیت کریمہ کی محفلوں میں خواتین وقفہ وقفہ سے گٹکھا یا پان کھاتی رہتی ہیں اور تلاوت کا سلسلہ بھی جار رہتا ہے۔ علاوہ ازیں ایسا بھی میں نے دیکھا ہے کہ خواتین بازار میں اچھا خاصا وقت گزار کر جب گھر لوٹتی ہیں تو اکثر مغرب کی اذان ہوتی رہتی ہے، وہ گھر آکر فوراً نماز ادا کرنا شروع کردیتی ہیں، پوچھے جانے پر کہتی ہیںکہ وہ گھر سے وضو کر کے نکلی تھیں، کیا اتنی دیر تک بازار میں گھومنے کے بعد ان کا وضو باقی رہتا ہے؟ کیا گٹکھا اور پان کھانے والی خواتین کو کلی وغیرہ کرنا چاہئے یانہیں ؟ اس کا اگر تفصیلی جواب دیں تو نوازش ہوگی ۔
عفت جہاں، ٹولی چوکی
جواب : حرام اشیاء کا کھانا تو بالاتفاق حرام ہے ۔ البتہ جن اشیاء کی حرمت نص سے ثابت نہیں لیکن ان کا استعمال مضر صحت ہو تو ان سے بچنے اور پرہیز کرنے کی تاکید ہے۔ نیز مساجد یا دینی اور اجتماعی محافل میں ایسی چیز کھاکر جانا جس سے کربھ و ناپسندیدہ بو آتی ہو، شرعاً منع ہے۔ شرح معان الاثار کتاب الکرایھ باب اکل الثوم و البصل والکلراث میں ہے : من اکل من الکراث فلا یغشتا فی مساجدنا حتی یذھب ریحھا فان الملائکۃ نتاذی مما یتا ذی منہ الانسان … و کراھۃ حضور المسجد وریحہ موجود لئلایؤ ذی بذلک من یحضرہ من الملائکۃ و بنی آدم فبھذا ناخد وھو قول أبی حنیفۃ و أبی یوسف و محمد رحمھم اللہ۔
پس آیت کریمہ کی محفل میں گٹکھا یا زردہ والاپان کھانا شرعاً پسندیدہ و مکر وہ ہے۔ وہ نہ صرف آداب ورد و تلاوت کے منافی ہے بلکہ رحمت کے فرشتوں اور حاضرین کی ایذاء رسانی کا باعث ہے۔
مخفی مبارکہ جب تک نواقض وضو میں سے کوئی چیز لاحق نہ ہو وضو نہیں ٹوٹتا۔ بناء بریں خواتین بازار سے لوٹنے کے بعد باوضو ہوں تو وہ نماز ادا کرسکتی ہیں۔ بازار میں زیادہ وقت رہنے کی بناء تجدید وضو کی ضرورت نہیں۔

کیا نفل روزوں کیلئے شوہر کی اجازت ضرور ہے ؟
سوال : میں نفل روزے رکھنا چاہتی ہوں لیکن میرے شوہر مجھے نفل روزے رکھنے سے منع کر رہے ہیں۔ کیا نفل روزے رکھنے کیلئے بیوی کو شوہر کی اجازت لینا ضروری ہے؟
نام …
جواب : روزہ چونکہ طلوع فجر سے غروب آفتاب تک کھانے پینے اور جماع سے اجتناب کرنے سے عبارت ہے ، لہذا اگر بیوی روزے کی حالت میں ہو تو شوہر اپنی ضرورت کی تکمیل نہیں کرسکتا اسی لئے شوہر کو اپنی ضرورت کیلئے بیوی کو نفل روزہ رکھنے سے منع کرنے کا حق دیا گیا اور بیوی کو ہدایت دی گئی کہ اس سلسلہ میں شوہر سے اجازت حاصل کرلے (مراقی الفلاح علی حاشیۃ الطحطاوی ص 641 )
آپ نفل روزہ رکھنا چاہتی ہیں تو اس کیلئے اپنے شوہر سے اجازت طلب کریں اگر اجازت نہیں دیتے تو آپ نفل روزہ نہ رکھیں، ہاں اگر نفل روزہ رکھنے کی وجہ سے جسمانی کمزوری پیدا نہیں ہوتی اور ضرورت کی تکمیل میں کسی اعتبار سے رکاوٹ نہیں ہوتی تو شوہر اجازت دے دے، اس سے بیوی کے جذبہ عبادت میں اضافہ ہوگا۔

گردے کی پتھری اور قرآنی وظیفہ
سوال : میرے گردوں میں پتھری ہے ۔ ڈاکٹر کہتے ہیں آپریشن کروانا پڑے گا۔ حکیم کہتے ہیں دواؤں سے پتھری پگھل کر نکل جائے گی۔ حکیم کی دوائیاں کھا رہا ہوں۔ آپ سے گزارش ہے کہ کوئی ایسی آیت یا آیات کا میں ورد کروں جس کے مسلسل پڑھنے سے اور دعا کرنے سے میری پتھری پگھل کر پیشاب کے ذریعہ ریزہ ریزہ ہوکر ، سفوف بن کر نکل جا ئے ۔مجھے کسی نے کہا ہے کہ قرآن شریف میں ایسی آیات موجود ہیں جس کے پرھنے سے فوری پتھری نکل جاتی ہے چونکہ بہت پریشان ہوں جواب جلد اگلے شمارے میں دیں تو بہت مشکور رہوں گا۔
فرحان بیگ، مستعد پورہ
جواب : عشاء کی سنت کے بعد فرض سے پہلے ستر مرتبہ لقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم پڑھ کر پانی پر دم کریں اور استعمال کریں۔ 21 دن یہ عمل جاری رکھیں۔ گردے کی بیماری کیلئے مجرب ہے ۔ نیز ودکت الجبال دکا پڑھا کریں۔

سردی کی بناء ، تیمم کرنا
سوال : موسم سرما میں عموماً نماز عشاء اور فجر میں شدید سردی محسوس ہوتی ہے ،میں عمر رسیدہ ہوں۔حالیہ عرصہ میں بیمار ہوئی تھی، الحمد للہ اب بہتر ہوں، بسا اوقات فجر کے وقت سردی محسوس ہوتی ہے تو کیا ایسے وقت میں مجھے تیمم کی اجازت مل سکتی ہے یا مجھے وضو کرنا چا ہئے۔
فردوس ، ورنگل
جواب : سردی کی وجہ سے تمام ائمہ کے اجماع کے مطابق تیمم کرنا صحیح نہیں، البتہ اتنی سخت سردی ہو کہ جس کی وجہ سے عضو کے تلف ہوجانے کا اندیشہ ہو یا بیماری کے بڑھنے کا خدشہ ہو تو ایسی صورت میں تیمم کرنا درست ہے۔ نفع المفتی والسائل ص : 14 میں ہے : اذا الم تخف فوات العضو اوزیادۃ المرض وغیرہ من الاعذار المرخصۃ للتیمم لا یجوز التیمم بمجرد شدۃ البرد بالا جماع من خزانۃ الروایۃ عن الغیاثیۃ۔
لہذا حسب صراحت صدر آپ عمل کریں۔ تاہم سردی کے موقع پر آپ پانی گرم کر کے وضو کرلیا کریں تو بہتر ہے۔

رکوع میں سجدہ تلاوت کی نیت
سوال : ہمارے امام صاحب عموماً نماز میں ایسی سورتوں کا انتخاب کرتے ہیں جس میں آیت سجدہ ہوا کرتی ہے۔ کبھی تو وہ آیت سجدہ کی تلاوت کر کے سجدہ تلاوت کرتے ہیں اور بعض دفعہ نہیں کرتے۔ ایک مرتبہ میں نے ان سے دریافت کیا کہ آپ نے آیت سجدہ کی تلاوت تو کی لیکن سجدہ نہیں کیا تو انہوں نے جواب دیا کہ میں نے رکوع میں سجدہ تلاوت کی نیت کرلی،اس طرح رکوع میں سجدہ تلاوت کی نیت کرنے سے سجدہ تلاوت بھی ادا ہوجاتا ہے ، مزید سجدہ تلاوت کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ کیا امام صاحب کا یہ کہنا شرعی لحاظ سے درست ہے یا نہیں ؟ سجدہ تلاوت کی بہتر صورت کیا ہے ؟ اور رکوع کے وقت اس کی نیت کی ضرورت ہے یا نہیں ؟
محمد ندیم ، منگل ہاٹ
جواب : آیت سجدہ اگر ختم سورہ میں ہے تو اس کو پڑھ کر نماز کیلئے رکوع کرنا بہتر ہے۔ اگر سجدہ تلاوت ادا کر کے کھڑا ہوجائے تو چاہئے کہ دوسری سورۃ کی کچھ آیات اس کے ساتھ ملاکر نماز کیلئے رکوع کرے۔ اگر آیت سجدہ سورۃ میں ایسی جگہ واقع ہے کہ اس کی چند آیات کے بعد سورۃ ختم ہوتی ہے تو ایسی حالت میں مصلی کو اختیار ہے کہ آیت سجدہ ہی پر رکوع کر کے سجدے کواسی میں ادا کردے یا سجدہ تلاوت کے بعد کھڑا ہوجائے اور باقی آیتیں پڑھ کر رکوع کرے۔ مبسوط السرخسی جلد ثانی باب السجدۃ میں ہے: و ان کانت السجدۃ عند ختم السورۃ فان رکع لھا فحسن و ان سجد لھا ثم قام فلا بد ان یقرأ آیات من سورۃ اخری ثم یرکع ۔ اسی صفحہ میں ہے : و اذا قرأھا فی صلاتہ و ھو فی آخر السورۃ الا آیات بقین بعدھا فان شاء رکع و ان شاء سجد لھا۔
عالمگیری باب السجدۃ میں ہے: ثم یقوم و یختم السورۃ و یرکع۔ رکوع میں سجدہ تلاوت اس وقت ادا ہوتا ہے جبکہ رکوع کے پہلے سجدہ کی بھی نیت کرلے۔ اگر بغیر نیت کے رکوع میں چلا جائے اور بحالت رکوع سجدہ کی نیت کرے تو اس سے سجدہ ادا نہیں ہوتا۔ عالمگیریہ کے باب السجدۃ میں ہے: ولو قرأ آیۃ السجدۃ فی الصلاۃ فأراد ان یرکع بھا یحتاج الی النیۃ عند الرکوع فان لم توجد منہ النیۃ عند الرکوع لا یجزیہ عن السجدۃ ۔

ایک روایت کی تحقیق
سوال : اکثر صوفیاء کرام کی کتابوں میں یہ روایت موجود ہے۔مجھے نہ زمین سماسکی اور نہ آسمان سماسکے مجھے میرے مومن بندے کے دل نے سمایاہے ۔ کیا یہ حقیقت میں حدیث شریف ہے۔ اگر حدیث شریف ہے تو براہ کرم اس کا حوالہ ضرور دیں کیونکہ بعض حضرات اس حدیث کو غیر معتبر قرار دے رہے ہیں ؟
خواجہ نصیرالدین، عابڈس
جواب : سوال میں صراحت کردہ حدیث شریف ، مختلف معتبر کتابوں میںمتن کے اختلاف کے ساتھ مذکور ہے ۔ حضرت شیخ شہاب الدین سہروردی رحمتہ اللہ علیہ نے عوارف المعارف باب 29 ص : 133 میں اور حضرت شیخ یعقوب چرخیؒ نے رسالہ انسیہ ص : 28 میں اور حضرت قیوم زمانی مجدد الف ثانی رحمتہ اللہ علیہ نے دفتر سوم مکتوب شریف 48 میں باین الفاظ نقل کیا ہے : لا یسعنی أرضی ولا سمائی ولکن یسعنی قلب عبدی المومن‘‘ حضرت شیخ محی الدین بن عربی نے فتوحات مکیہ جزء اول ص : 216 میں ’’ ماوسعنی أرضی ولا سمائی و وسعنی قلب عبدی المومن ‘‘ کے الفاظ کے ساتھ نقل کیا ہے ۔
علامہ جلال الدین سیوطی رحمتہ اللہ علیہ نے ’’ الدرالمنثور میں دیگر الفاظ سے اس روایت کونقل کرنے کے بعد فرمایا : ’’ لا اصل لہ ‘‘ اس روایت کی کوئی اصل نہیں۔ تاہم ابو شجاع دیلمی نے ’’ فردوس الاخبار‘‘ میں سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے : قال اللہ عزو جل : لا یسعنی شئی و وسعنی قلب عبدی المومن ۔ (ترجمہ) اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : مجھے کوئی چیز نہیں سماتی اور مجھے میرے مومن بندے کا دل سماتا ہے ۔ (فردوس الاخبار ج : 3 ص : 213 )
کتب حدیث میں اس حدیث شریف کے معنی و مفہوم سے مطابقت رکھنے والی دیگر احادیث موجود ہیں۔ جس سے مذکورالسوال حدیث شریف کے مفہوم کی تقویت ہوتی ہے۔ نیز فتاوی حدیثیہ ص : 290 میں اس حدیث شریف کے معنی و مفہوم اس طرح بیان کئے گئے ہیں۔
صوفیہ کے نزدیک اس حدیث شریف کے معنی اس طرح ہے کہ مومن کا دل ، ایمان باللہ ، محبت و معرفت الہی سے اس طرح لبریز ہے جس سے کائنات کی دیگر اشیاء عاجر و بے بس ہیں۔ متذکرہ در سوال حدیث کا مفہوم سورۃ الاحزاب کی اس آیت شریفہ سے واضح ہے ’’ انا عرضنا الامانۃ علی السموات والارض والجبال فأبین ان یحملنھا و اشفقن منھا و حملھا الانسان۔ (ترجمہ) ہم نے امانت کو آسمانوں ، زمین اور پہاڑوں پر پیش کیا تو وہ اس کو اٹھانے سے انکار کئے اور گھبرا گئے اور اس امانت کو انسان نے اٹھالیا۔

کیا نکاح میں نامحرم گواہ رہ سکتا ہے ؟
سوال : دور حاضر میں نکاح کے وقت نوجوانوں کی گواہی کو افضلیت دی جارہی ہے اس لئے چچا زاد ، خالہ زاد ، ماموں زاد بھائیوں کو گواہ میں شامل کیا جارہا ہے ۔ کیا نکاح میں نامحرم گواہ رہ سکتا ہے ؟
نام ندارد
جواب : گواہ کا عاقل و بالغ ہونا ، آزاد ہونا اور مسلمان ہونا ضروری ہے۔ محرم اور غیر محرم کی کوئی قید نہیں۔ اس لئے چچا زاد ، خالہ زاد ، مامو زاد بھائی جبکہ وہ عاقل و بالغ آزاد مسلمان ہوں گواہ ہوسکتے ہیں۔