مجوزہ 2019کے عام انتخابات میں ’بوا۔ ببوا‘ ماڈل اگر کارگرد ہوا تو مودی لہر میں بڑی رکاوٹیں پیدا ہونگی

کیا ایس پی اور بی ایس پی کا اتحاد 2019کے بڑے او رپارلیمانی الیکشن میں نئے تاریخ رقم کریگا؟اس سوال پر چہارشنبہ کے روزکچھ علاقائی مخالف بی جے پی جماعتوں نے اس پر خیالی ہاں میں جواب دیا‘‘۔اس کا مطالب ہے روایتی حلیف جماعتوں کے لئے انا کو بلائے طاق رکھ کر ‘ ذاتی مسائل کو درکنار کرتے ہوئے اپنی بقاء کے لئے ایسا کرنا ضروری ہے۔

بڑی تعداد میں مخالف بی جے پی علاقائی جماعتیں جو اقتدار سے باہر ہیں نے اس بات پر رضا مندی کا اظہار کیاہے کہ ایک اتحاد فرنٹ کی تشکیل وقت کی اہم ضرورت ہے۔جیسا کہ گورکھپور اور پھلپور کے ضمنی الیکشن نے نتائج سامنے ائے ہیں ‘ جہاں کی دوسیٹوں پر سے اترپردیش چیف منسٹر یوگی ادتیہ ناتھ اور ڈپٹی چیف منسٹر کیشوپرساد موریہ نے استعفیٰ پیش کرنے کے بعد ضمنی الیکشن کا انعقاد عمل میںآیاتھا ‘ دیکھا گیا کہ سماج وادی پارٹی نے بڑی اکثریت سے جیت حاصل کی ہے۔

اپوزیشن کے سینئر لیڈرس درکنارہوگئے اور یہاں تک کے کانگریس کے امیدوار اپنی ضمانت بچانے میں بھی ناکام رہے ‘ راہول گاندھی نے نتائج کے بعد بی جے پی کو اپنی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے ٹوئٹ کیا کہ بی جے پی سے اپنی ناراضگی کااظہار عوام نے مخالف الکٹورل کے ذریعہ کیاہے۔اس کامیابی سے نہ صرف2019کے پارلیمانی الیکشن میں بھی ایس پی او ربی ایس پی کے درمیان میں اتحاد کی قیاس آرائیاں تیز ہوگئی ہیں بلکہ قائدین کو یہ بھی سونچنے پر مجبور کردیاہے کے علاقائی جماعتوں کو اپنی آپسی مدبھید کو ختم کرکے ساتھ آنے سے بی جے پی کوشکست فاش کیاجاسکتا ہے۔

میل ٹوڈے سے بات کرتے ہوئے جاوید علی سماج وادی پارٹی کے رکن راجیہ سبھا نے کہاکہ ’’ بی ایس پی او رایس پی کے کارکنوں اور حامیوں نے چاہتے ہیں کہ2019میں بھی یہ اتحاد قائم رہے۔ ماضی میں1993کے دوران اسی طرح کا اتحا د کیاتھا کہ جبکہ نئی اوراور مذکورہ جنتا پارٹی کا مغربی اترپردیش مضبوط قلعہ مانا جاتا ہے‘‘جب علی سے پوچھا گیا کہ سیٹوں کی تقسیم او رچیف منسٹر کے چہرے کے متعلق ایس پی او ربی ایس پی کے درمیان میں حل طلب فیصلہ لینے کی بات ائی تو ‘ جس کے جواب میں انہوں نے کہاکہ’’ جب جمہوریت میں اس قسم کی بڑے خطرات درپیش آتے ہیں توپارٹیوں کو ان چیزوں سے بالاتر ہوکر کام کرنا چاہئے‘‘۔

ایک سینئر اپوزیشن رکن پارلیمنٹ نے اپنی پہچان چھپانے کی شرط پر کہاکہ’’ ایس پی اور بی ایس پی کے لئے اب یہ ضروری ہوگیا ہے۔

کیاکبھی کوئی یہ سونچ سکتا تھا کہ لالو پرساد یادو اور نتیش کمار ایک ساتھ ائیں گے؟اسی طرح یہ اتحاد بھی سونچ کے باہر ہے مگر ایسا وقت میں‘ اس طرح کا اتحاد حقیقت میں بی جے پی کو روکنے کا واحد راستہ ہے۔

پھولپور اور گورکھپور سے بی جے پی کے خلاف ایک نئی لڑائی کی شروعات عمل میں ائی ہے جس کے دور س نتائج برآمد ہونگے۔جہاں پر بی جے پی کی تشویش بڑھ رہی ہیں وہیں یوپی اور بہار کے عوام کو اب ایک متبادل مل گیا ہے‘‘۔

جہاں پر آر جے ڈی اور جے ڈی یو اتحاد نے اپنی پرانے مدبھید کو دور کرکے پارٹی سربراہان میں اتحاد کا سبب بنے ‘ وہیں کیا ترنمول کانگریس اور لفٹ کے درمیان میں اگلے بڑے چونکا دینے والا اتفاق ہوسکتا ہے؟

ڈی راجہ نیشنل سکریٹری سی پی ائی نے اس طری کی قیاس ارائیوں کو مسترد کرتے ہوئے کہاکہ’’ ہم خیال پارٹیوں کو متحد ہوکر بی جے پی آر ایس ایس جیسے فسطائی طاقتوں کو روکنے کاکام کرنا ہوگاوہیں آر ایس ایس زائد دستوری ڈھانچے کے طرز پر کام کررہی ہے۔

لفٹ پارٹیوں کے لئے الکٹورل حکمت عملی اس کی مخصوص ریاستوں تک محدود ہے ۔ او رجہاں تک سی پی ائی ایم کی بات ہے تو میں اس کے متعلق کچھ نہیں کہہ سکتا کہ انہیں مغربی بنگال میں کیاکرنا چاہئے۔میں صرف اتنا کہہ چاہوں گے جہاں پر جمہوریت کو خطرہ لاحق ہے وہاں پر تمام ہم خیال سیاسی پارٹیو ں کومتحد ہونے کی ضرورت ہے‘‘

کانگریس کے سابق صدر سونیاگاندھی اپنی پارٹی کی مرکزیت برقرار رکھنے کی جستجو میں ہیں تاہم ان کی پارٹی کو مشترکہ ردعمل مل رہا ہے ۔ سینئر کانگریس قائدین کو راجستھان ‘ مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑ ہ کے مجوزہ اسمبلی انتخابات پر امید ہے جہاں پر اس کا راست مقابلہ بی جے پی سے ہے اور انہیں امید ہے مذکورہ ریاستوں میں وہ اپنا اقتدارحاصل کرنے میں کامیاب رہیں گی۔ممبئی علاقائی کانگریس کمیٹی کے صدر سنجے نروپم نے وضاحت کرتے ہوئے کہاکہ ’’ مہارشٹرا میں ہمارے پاس بہت سارے ہم خیال پارٹیاں ہیں جیسے نیشنل کانگریس پارٹی‘ ریپبلک پارٹی آف انڈیا اور لفٹ۔ مذکورہ کسان مارچ نے مہارشٹرا حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا جس کو سی پی ائی ( ایم) کے ایک ایم ایل جیوا پانڈو گیوٹ نے نکالاتھا‘‘