لپسی کا چارمینار گھر بنا!

رندؔ سرشار
اگرچہ کہ پانڈیچری فرانسیسی فوجوں کے لئے تجارتی مرکز کی حیثیت رکھتا تھا۔ اٹھارہویں صدی کے نصف میں فرانسیسی فوجیوں کے لئے سیاسی سرگرمیوں کا حیدرآباد ایک اہم مرکز بن گیا تھا۔ بہت بعد میں برطانوی فوجیوں نے حیدرآباد کا رخ کیا۔
فرانس پہلا یورپین ملک تھا جو حیدرآباد کے قریبی علاقوں پر قبضہ کرلیا تھا اور ایک علاقہ پر حکمرانی کرتے رہے اور فرانسیسی فوجیوں کے اخراجات کی پابجائی کیلئے سرکار علاقہ کو جو اب آندھرا پردیش کا ساحلی علاقہ ہے، ان کے نام کردیا گیا۔ حیدرآباد میں فرانس کی حکمرانی کو مضبوط بنانے کے لئے ’’جنرل لپسی‘‘ نامی ایک فوجی جنرل کو نامزد کیا گیا جو پانڈیچری کے گورنر ڈپولکس کے احکامات کی پابجائی کیلئے ایک مضبوط فوجی دستہ کے ساتھ ماہ فروری 1751ء میں حیدرآباد پہنچ گیا۔ یہ جنرل پسی ہی تھا جس نے نواب صلابت کو نئے نظام کی حیثیت سے ریاست حیدرآباد کے تخت پر بٹھایا۔ مظفر جنگ کے قتل کے بعد 1748ء میں حیدرآباد میں اقتدار کے لئے نظام کے فرزندان کے درمیان زبردست رسہ کشی شروع ہوگئی۔ نظام آف حیدرآباد کے چھ لڑکے اور چھ لڑکیاں تھیں۔ ان کے پہلے صاحبزادہ نواب غازی الدین دہلی میں مغل حکمراں کے دربار میں حیدرآباد کی نمائندگی کرتے تھے۔ پہلے ہی سے ان کا ارادہ حیدرآباد کا تخت حاصل کرنے کا نہ تھا۔ دوسرے لڑکے نواب ناصر جنگ کو حیدرآباد کا حکمراں بنادیا گیا۔
پانڈیچری کے گورنر جنرل ڈپولکس کو ایک موقع ہاتھ آگیا کہ وہ اس موقع سے فائدہ اٹھائے۔ اسی دوران ریاست ارکاٹ میں اقتدار کے لئے رسہ کشی شروع ہوگئی جہاں نواب چندہ صاحب ارکاٹ کی سلطنت پر اقتدار حاصل کرنا چاہتے تھے جو وہاں کے نواب محمود علی کے داماد تھے۔ جنرل ڈپولکس نے نواب مظفر جنگ کو ارکاٹ آنے کی دعوت دی تاکہ ارکاٹ کے اقتدار کی رسہ کشی کا تصفیہ کیا جاسکے۔ مظفر جنگ اور فرانس کی فوجیوں نے نواب انور الدین کو شکست دی اور چندہ صاحب ارکاٹ کے نواب بنادیئے گئے۔ برطانوی فوج جو مدراس میں موجود تھی، وہ یہ چاہتی تھی کہ کسی بھی فرانسیسی کے اثر و نفوذ کو ختم کردیا جائے۔ مظفر جنگ کو مدراس آنے کی دعوت دی تاکہ ڈیولکس اور ناصر جنگ کے اتحاد کو ختم کیا جاسکے۔ چنانچہ نواب ناصر جنگ نے اپنی فوج کے ساتھ مدراس کا رخ کیا مگر راستہ میں فرنچ کے ساتھ لڑائی میں ناصر جنگ کو قتل کردیا گیا اور 25 ڈسمبر 1750ء کو مظفر جنگ حیدرآباد کے نظام مقرر کئے گئے۔
فتح یاب مظفر جنگ کو پانڈیچری لے جایا گیا۔ ان کی انتہائی خاطر مدارات کی گئیں اور ایک شاندار ڈنر منعقد کیا گیا جس میں پانڈیچری میں مقیم فرانسیسی فوجیوں اور ان کے ارکان خاندان نے شرکت کی۔ اس خوشی میں نواب مظفر جنگ نے ڈیولکس کو دلور کا جاگیردار مقرر کیا گیا اور مزید 80 دیہاتوں کو اس کی جاگیر میں شامل کیا گیا اور اس کو ’’صوبہ دار‘‘ لقب سے نوازا گیا۔ ایک مہینے کی مہمان داری کے بعد مظفر جنگ فرانس کے ایک مضبوط فوجی دستے کے ساتھ حیدرآباد واپس ہوئے اور اس فوجی دستے کی کمانڈ جنرل لپسی کے حوالے کی گئی۔ حیدرآباد واپس ہونے کے بعد صرف 38 دن کے اندر انہیں قتل کردیا گیا ، پتہ نہیں چلا کہ اس سازش کے پیچھے کون تھے، جیسے ہی فرنچ فوج کڑپہ پہونچی، لکی ریڈی پلی سے گزر رہے تھے، مظفر جنگ کو قتل کردیا گیا۔ 3 فروری 1751ء کو نواب آف ارکاٹ نے ان کا قتل کروایا تھا جو اس سے پہلے ان کی تائید میں تھے چونکہ نواب آف حیدرآباد نے ان سے جو وعدے کئے تھے، پورے نہیں کئے۔ لپسی جو اک منجھا ہوا ڈپلومیٹ تھا۔ حیدرآباد پہونچا اور نواب صلابت جنگ کو جو مظفر جنگ کے چھوٹے بھائی تھے، نظام آف حیدرآباد مقرر کیا۔ مظفر جنگ کی موت اور فرنچ فوجیوں کی یلغار نے ساری ریاست میں تباہی مچا دی اور لپسی ایسا ظالم نکلا کہ آج تک تلگو عورتیں اپنے ضدی بچوں کو ڈرانے ’’بچی‘‘ آرہا ہے، کہتی تھیں۔ ’’بچی‘‘ کا لفظ جنرل لپسی کے بجائے استعمال ہوتا تھا۔

فرنچ فوجیوں کی تعداد 900 تھی اور 4,000 ہندوستانی سپاہی تھے اور جنگی ساز و سامان سے لیس تھی۔ ان فوجیوں کے اخراجات کے لئے جو تقریباً 21 لاکھ ہوتے تھے، اس نے سارے ساحلی آندھرا پردیش کے گنٹور سے سریکاکلم تک حاصل کرلیا۔ جس کی آمدنی میں اس کی فوجیوں کے اخراجات پورے ہوسکتے تھے۔ مسولی پٹنم اور پانم کو اس کی جاگیر کی حیثیت سے دے دیا گیا۔ جب لپسی نے حیدرآباد میں رہائش اختیار کرنے کا فیصلہ کرلیا تو اس کے قیام کے لئے جگہ کی تلاش شروع ہوئی جو اس مرتبہ اور وقار کے مطابق ہو، اس نے فیصلہ کیا کہ چارمینار میں قلدم اور اس کے چاروں طرف چادریں تان دی گئیں۔ وہ قلی قطب شاہ جس نے 1591ء میں چارمینار تعمیر کیا تھا، کبھی یہ سوچا بھی نہ ہوگا کہ چارمینار ایک فرنچ جنرل کی قیام گاہ ہوگا۔ اس کے بعد موسٰی ندی کے کنارے چار محل نامی عمارت تعمیر کروائی گئی۔ لپسی وہاں منتقل ہوگیا اور بعد میں صلابت جنگ نے خلوت محل کی تعمیر کی۔ چار محل اسی جگہ تعمیر کیا گیا تھا جہاں اب حیدرآباد ہائیکورٹ کی عمارت موجود ہے۔ جب یورپ میں 60 سالہ جنگ کا آغاز ہوا جس میں فرانس اور برطانوی فوج کے درمیان لڑائی شروع ہوگئی۔ ہندوستان میں بھی فرنچ اور برطانوی فوجیوں کے درمیان لڑائی شروع ہوگئی۔ رابرٹ کلائیو نے پلاسی کے میدان میں 1757ء میں فرنچ فوجیوں کو زبردست شکست دی اور اس کے بعد کرنل فورڈ نامی ایک فوجی جنرل کو جنوبی ہندوستان روانہ کیا گیا جس نے شمالی سرکار کے علاقہ کو فرنچ فوجوں سے حاصل کرلیا۔ اس کے بعد کونٹ ڈللی نامی ایک فرنچ جنرل کو فرانس سے روانہ کیا گیا تاکہ برطانوی فوجیوں کا مقابلہ کیا جاسکے۔ جیسے ہی پانڈیچری پہنچا اس نے جنرل لپسی کو حیدرآباد سے واپس طلب کرلیا تاکہ مدراس میں مقیم برطانوی فوجیوں کا مقابلہ کیا جائے۔ ’’ونڈی واٹس‘‘ نامی ایک مقام پر فرنچ فوجوں کو زبردست شکست ہوئی اور للی اور لپی کو گرفتار کرلیا گیا اور پھر ان کو رہا کرکے پانڈیچری بھیج دیا گیا۔ اس کے بعد حیدرآباد میں فرنچ اقتدار کا خاتمہ ہوگیا جس کا نام حیدرآباد کی تاریخ میں زندہ رہے گا۔ اب تک بھی آندھرا کے علاقہ میں لپسی اسٹریٹ کے نام سے ایک محلہ موجود ہے۔ 1785ء میں اس کا انتقال ہوگیا۔ فرنچ اقتدار کے خاتمہ کے بعد برطانوی فوجیوں نے مغل حکمراں شاہ عالم سے ایک معاہدہ کیا اور صلابت جنگ کو اقتدار سے ہٹاکر نظام علی خاں کو حیدرآباد کا بادشاہ مقرر کیا۔ صلابت جنگ کو گرفتار کرکے ضلع بیدر کے قلعہ میں رکھا گیا بعد میں انہیں قتل کردیا گیا۔

آصف جاہ دوم کو ریاست حیدرآباد کا حکمراں بنانے سے پہلے ان کے تین بھائیوں ناصر جنگ، مظفر جنگ اور صلابت جنگ قتل کردیئے گئے۔ اس کے بعد اقتدار حاصل کرنے تک اور تینوں آصف جاہی بادشاہوں کا حساب لگایا جائے تو اس طرح دس نظام حیدرآباد پر حکومت کرتے رہے۔ اگر میر عثمان علی خاں کو شمار کیا جائے تو دس نظام حیدرآباد پر حکومت کرتے رہے مگر یہ کہا جاتا ہے کہ میر عثمان علی ساتویں بادشاہ ہیں۔