لوجہاد کے نام پر ہراسانی‘ سرکاری وکیل کی بیجا مداخلت‘ مسلم لڑکے اور غیرمسلم لڑکی کی شادی میں رکاوٹ کا سبب بن رہی ہے

جب لڑکی کوفبروری26کے روز ہائی کورٹ کے اندور بینچ کے روبرو پیش کیاگیا تھا ‘ تو ابتداء میں لڑکی نے جج سے کہاتھا کہ ‘ وہ خان کے پاس واپس جانا چاہتی ہے‘ اور مزید یہ کہاکہ اس کی صرف یہی شرط تھی کہ وہ دوبارہ شادی نہیں کریگی اور نہ تو وہ اپنا تبدیل کریگی۔
اندور۔سمیر خان نے اپنی شادی کے دستاویزات پیش کئے وہیں‘ نیلم مہرولیا نے عدالت سے کہاکہ وہ سمیر کے ساتھ ہی رہنا چاہتی ہے۔ واقعہ اس وقت غیر معمولی نوعیت کا ہوگیا جب مہرولیاعلیحدہ طور پر جج کے چیمبر میں لے جایاگیا ‘ جہاں اس پر والدین اور سرکاری وکیل نے زوردیا کہ وہ ’’ الجھن‘‘ کاشکار ہے۔ مہرولیا نے یہ بات کہنے پر مجبور ہوگئی کہ اس نے اپنا ذہن بدل لیاہے۔

پچھلے پندرہ دنوں سے چوبیس سال کے خان اپنی بیوی کو واپس لانے کے قانونی طریقے کی طرف امید لگائے بیٹھے ہیں ‘ وہیں مہرولیا کے والدین جنھوں نے عدالت سے اپنی بیٹی کا بہتر خیال رکھنا کا وعدہ کیا ہے کا کہنا ہے کہ وہ کبھی اپنی بیٹی کو سمیر کے پاس جانے نہیں دیں گے۔

مذکورہ والدین کو وی یچ پی کی مدد حاصل ہے‘ جس نے کہاکہ یہ ’’لوجہاد‘‘ کا معاملہ ہے۔وی ایچ پی لیڈر پرکاش کھانڈیوال نے کہاکہ’’ ہم اس بات کو یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ دونوں کا ساتھ ٹوٹ جائے‘‘۔سرکاری وکیل ارچنا کھیر جو محکمہ داخلہ کی جانب سے اس کیس کی پیروی کررہے ہیں نے اس بات سے انکار نہیں کیاہے کہ مہرولیا خان کے ساتھ جانے کو راضی ہے۔

انہو ں نے کہاکہ مہرولیا نے تین مرتبہ اپنی خواہش ظاہر کی ہے۔ تاہم کھیر نے کہاکہ وہ’’ کافی عرصہ سے اس کی ذہن سازی کررہے ہیں او ر اس سے کہا ہے کہ یہ شادی ’’ماہو میں لاء اینڈ ارڈر کا مسئلہ‘‘ بن سکتی ہے۔جب خان نے دونوں کے دہلی منتقل ہوجانے کی بات کرتے ہوئے کھیر کی بات پر اپنا ردعمل پیش کیاتو کھیر نے کہاکہ انہوں نے مہرولیا کو دھمکی دی ہے کہ وہ اس کی زندگی بھر روپوش کرادیں گی۔’’سورج کی ایک کرن بھی دیکھنے کو نہیں ملے گی‘‘۔

کھیر کا ماننا ہے کہ مہرولیا ’’ شادی کی وجہہ سے دونوں خاندانوں کی بڑھنے والی مشکلات‘‘ کا اندازہ ہونے کے بعد اپنا ذہن تبدیل کرلیا ہے۔ نکاح نامہ کے متعلق کھیر نے کہاکہ ’’ یہ حقیقی نہیں لگ رہا ہے کیونکہ اس پر تاریخ نہیں ہے‘‘۔اتفاق کی بات یہ ہے کہ عدالت نے خان کی جانب سے داخل کئے گئے شادی کے دستاویزات پر کوئی سوال نہیں پوچھا۔

اندور کی کھجرانا کے مسلم اکثریتی والے علاقے کی ایک ہوٹل میں بیٹھ ہوئے خان نے کہاکہ دونوں کے ایک مشترکہ دوست کے ذریعہ مہاؤ میں2015کواس کی مہرولیا سے اس بوٹیک میں ملاقات ہوئی جہاں وہ کام کرتا تھا۔ خان کو دعوی ہے کہ مہروکیا اس سے محض ایک سال کی بڑی ہوگی ‘ اس کے مارکس شیٹ کے حوالے سے ‘ حالانکہ مہرولیا کے گھر والوں کا کہنا ہے کہ اس کی عمر28سال کی ہے ۔

مہاؤ کنٹونمنٹ ٹاؤن اندور شہر سے تیس کیلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ خان نے بتایا کہ دونوں مسلسل فون پر رابطہ میں تھے اورایک دوسرے سے ملاقات بھی کیاکرتے تھے۔خا ن جو دسویں جماعت کا طالب علم ہے اس نے کہاکہ وہ ایک’ڈیزائنر‘ ہے اور ماہانہ15سے 20ہزار روپئے کی کمائی کرلیتا ہے۔

مہرولیا کامرس میں پوسٹ گریجویٹ ہے۔ دونوں کے تعلیمی توازن کا حوالے دیتے ہوئے مہرولیا کے والدین کا کہنا ہے کہ دونوں کے درمیان میں معاشقہ ممکن نہیں ہے‘ خان نے کہاکہ مہرولیا کے لئے یہ کبھی بھی مسئلہ نہیں رہا ہے۔ستمبر3سال2013کو دونوں فرار ہوگئے اور تین روز بعد شادی کرلی۔ خان کا دعوی ہے کہ شادی میں کچھ رشتہ دار‘ دوستوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی تھی۔

والدہ شبنم خان کا کہنا ہے کہ سمیر نے انہیں اطلاع نہیں دی تھی اس لئے وہ شادی کے وقت موجود نہیں تھے اور انہیں شادی کے متعلق اس وقت معلوم جب ان کے دروازے پر پولیس پہنچی تھی۔ تاہم شبنم نے مزید کہاکہ انہیں شاد ی سے کوئی شکایت نہیں ہے’’ میں اس کے ساتھ اپنی بیٹی جیساسلوک کرونگی۔

ویسے بھی میں نصف برہمن جیسی ہوں کیونکہ میں گوشت نہیں کھاتی۔ وہ ساری پہن سکتی ہے ‘ مندر جاسکتی ہے‘‘۔شبنم نے کہاکہ مہرولیا کے ان کے بیٹے سے ساتھ غائب ہوجانا خود اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ سمیر سے محبت کرتی ہے’’ وہ تعلیمی یافتہ ہے کسی اور کو بھی چن سکتی تھی‘‘۔

خان کے مطابق صرف نکاح کے لئے مہرولیا نے مسلم نام زینب کا انتخاب کیاتھا اور کبھی کبھی برقعہ پہنا’’ میں نے اس سے کہاکہ وہ ساری پہن سکتی ہے اور کمکم لگاسکتی ہے اور جو چاہئے وہ کھاسکتی ہے۔ وہ میرے نیلم نہیں بلکہ ہمیشہ نیلو ہی ہے۔شادی کے بعد دونوں اندور میں اپنے ایک دوست کے گھر منتقل ہوگئے۔

اس کے بعد مہرولیا کے والدین نے مہاؤ پولیس اسٹیشن میں گمشدگی کی ایک شکایت درج کرائی۔خان نے الزام عائد کیا کہ دونوں کو پکڑنے کے لئے پولیس نے اس کے رشتوں کو تحویل میں لیا‘ اور ان کی طرف سے ایک فون کال آیا جس میں کہاگیا کہ مہرولیا ائے اور اپنا بیان قلمبند کرادے‘ اورجس کے بعد اس جانے کی منظوری دی جائے گی۔خان نے کہاکہ اس کے دوستوں نے مہرولیا کو8ستمبر کے روز چھ بجے کے قریب پولیس اسٹیشن کے پاس چھوڑ کر چلے گئے۔

مہرولیا نے پولیس اسٹیشن میں دئے گئے بیان میں کہاکہ وہ اپنے والدین کے گھر جاناچاہتی ہے۔ خان نے کہاکہ اس نے فیصلہ کیاتھاوہ کچھ وقت والدین کے پاس گذارے گی اور حالات معمول پر آنے کے بعد پھر دوبارہ واپس اجائے گی۔انچارج مہاؤ پولیس اسٹیشن چندربھان سنگھ چادر نے کہاکہ وہ اپنی مرضی سے والدین کے پاس مہرولیا کے چلے جانے کے بعد ان کارول اب ختم ہوگیا ہے’’ اس میں کوئی تحقیقات کی گنجائش باقی نہیں ہے۔

ہمارے لئے یہ کیس بند ہوگیا ہے‘‘۔خان کا کہنا ہے جب سے مہرولیا اس کے والدین کے پاس گئی ہے تب سے اس سے تمام رابطے بند ہوچکے ہیں۔ جنوری کے اوخر میں اس نے اندور کی ہائی کورٹ بنچ کا دروزاہ کھٹکھٹایا‘ اورمبینہ طور پر کہاکہ اس کی بیوی غیر قانونی تحویل میں رکھے گئی اور عدالت سے گوہار لگائی کہ دونوں کو دوبارہ ملادے۔مہاؤ کے تین کمروں والے ایک چھوٹی کمر ے میں مہرولیا رہتی ہے۔

جب یہ رپورٹر وہاں پہنچا ‘ تو انہوں نے کہاکہ مہرولیا ٹاؤن کے باہر اپنے کسی رشتہ داری کی اخری رسومات میں گئی ہے۔ جب مہرولیا کے نمبرکے متعلق پوچھا گیاتو اس کے والد لکشمن نے کہاکہ وہ اس معاملے میں بہت نہیں کرنا چاہتی ہے۔ملٹری کے ریٹائر انجینئرینگ سروسیس افیسر لکشمن نے مزیدکہاکہ ’’نیوز کے گشت کرنے کی وجہہ سے پیدا شدہ کشیدگی کے پیش نظر‘‘ میں پولیس سے رجوع ہوا اور اس لڑکے پاس سے مہرولیا کو واپس بولیا۔

اور ہم کیاکرتے؟ ہم ذات نہ ملنے کی وجہہ سے مہرولیا کو آئے شادی کے ہندو رشتوں کو بھی مسترد کردیا۔ تو پھر ہم کس طرح ایک مسلم لڑکے سے اس کی شادی کی سونچ سکتے ہیں‘ جبکہ وہ ایک ناخواندہ او رمعمولی تنخواہ پر کام کرتا ہے؟‘‘۔ دونوں کے درمیان معاشقہ کے خان کے دعوے کو مستر د کرتے ہوئے مذکورہ والدین نے دعوی کیا ہے کہ فیس پربک پر اس نے اپنی غلط شناخت بتاکر مہرولیا سے دوستی کرلی۔ وہ اپنے تمام چھوٹے بھائی ‘ بہنوں میں سب سے زیادہ تعلیمی یافتہ ہے‘ اسکے دوبھائی جنھوں نے تعلیم چھوڑ دی ‘ ڈرائیورس کاکام کررہے ہیں۔

جب انہیں مہرولیا کے خان کے ساتھ رشتوں کے متعلق جانکاری ملی تو ‘ مہرولیا کا فون چھین کر اس کو اندور اپنے ایک رشتہ دار کے پاس بھیج دیا‘ جو محکمہ پولیس میں کام کرتے ہیں۔جبکہ خان بھی اسی شہر میں تھا‘ ان کااحساس تھا کہ ایک پولیس کے گھر میں خوف سے وہ مہرولیا سے ملاقات نہیں کریگا۔ تاہم کچھ وقت بعد مہرولیا کسی بھی طرح دوبارہ خان کے رابطے میں آگئی۔

مہرولیا کے گھر والوں کو دعوی ہے کہ خان سے ان کی کبھی ملاقات نہیں ہوئی حالانکہ خان کا کہنا ہے کہ شادی کی تجویز کے ساتھ وہ مہرولیا کے گھر والوں کے پاس گیاتھا مگرواپس لوٹنا پڑا۔ مہرولیا کے بڑا بھائی روی بھی خان کے نکاح کے دعوؤں پر سوالا ت کھڑا کررہا ہے ‘ اور اس کا اسرار ہے کہ جو دستاویزات عدالت میں پیش کئے گئے ہیں وہ فرضی ہیں۔

جب لڑکی کوفبروری26کے روز ہائی کورٹ کے اندور بینچ کے روبرو پیش کیاگیا تھا ‘ تو ابتداء میں لڑکی نے جج سے کہاتھا کہ ‘ وہ خان کے پاس واپس جانا چاہتی ہے‘ اور مزید یہ کہاکہ اس کی صرف یہی شرط تھی کہ وہ دوبارہ شادی نہیں کریگی اور نہ تو وہ اپنا تبدیل کریگی۔جج کے چیمبر میں کسی اور جانے کی اجازت نہیں تھا جس کے بعد باہر آکر سرکاری وکیل کھیر نے کہاکہ ’’ہم نے لڑکی کو اس بات کے لئے سمجھا ہے کہ یہ شادی اس کے لئے ٹھیک نہیں ہے۔

ہم نے اس سے کہا ہے کہ وہ اپنے پیروں پر کھڑے ہوجائے اور ایک دوسال او رانتظار کرلے۔ اگر وہ لڑکا( خان) تم سے محبت کرتا ہے تو وہ ضرورانتظار کریگا‘‘۔لڑکی کے گھر والی ہرحال میں مہرولیا کو خان کے چنگل سے بچاکر اس کی دوبارہ شادی کرنے کی فراغ میں ہے اور اس کے لئے عجلت سے کام لے رہے ہیں۔ عدالت کے فیصلے کے بعد وہ اپنے اس کام میں تیزی پیدا کردیں دے۔

اسی دوران خان نے مبینہ طور پر کہاکہ غیرمعروف نمبروں سے اس کو جان سے مارنے کی دھمکی آمیز فون کالس آرہے ہیں اور اس سے کہاجارہا ہے کہ ومہرولیا سے دورہوجائے۔

خان نے مہرولیا کے والدین کو بھی لڑکی پر ایذرسانی کا الزام عائد کیاہے‘ اور کہاکہ لڑکی نے فوٹو گراف او راڈیو پیغام بھی روانہ کیا ہے۔خان نے کہاکہ ہمارے معاملے کو غلط رنگ دینے کے لئے لوجہاد کا رنگ دیاجارہا ہے اور اسی وجہہ سے میں پولیس کے پاس دوبارہ جاکر معاملے کو مزید سرخیوں میں نہیں لاناچاہا رہا ہوں‘‘۔ خان نے کہاکہ ’’لڑکی پر دباؤ ڈالا جارہا ہے کہ میرے خلاف بے بنیاد الزامات لگائے۔ مجھے بہت پہلے گرفتار کرلیاجانا چاہئے۔

میں آزادی کے ساتھ گھوم رہاہوں۔ وہ مجھ سے محبت کرتی ہے اس بات کے ثبوت کے لئے یہ تمام چیزیں کافی نہیں ہیں؟‘‘