لغت مجتہدی کے ترتیب کار سید یعقوب میراں مجتہدی

سعید حسین
اُردو کی ترقی کے ساتھ ساتھ ہندوستان کی دیگر ریاستوں میں معنی کے فرق نے یک لسانی لغت (اُردو سے اُردو) کی تیاری کی طرف ناشران کتب کو متوجہ کیا چنانچہ انیسویں صدی کے شروع میں اس پر زیادہ کام ہونے لگا۔ صف اول کے ناشروں میں نول کشور، فیروز الدین وغیرہ کے نام عام ہیں۔ انہیں کے ناموں سے اُردو سے اُردو میں لغت شائع ہوئی۔ بیسویں صدی کے شروع میں لسان و ادب کے علاوہ سہ لسانی لغت کی شدید ضرورت محسوس کی گئی۔ اس کے علاوہ سائنسی، فنی اور قانونی علوم کے تراجم کی ضرورت بڑھتی گئی۔ نارائن لال اور فیروز اینڈ سنس لاہور کی اُردو انگریزی لغت 1966ء میں شائع ہوئی۔ انہیں دنوں میں مولوی عبدالحق کی انگلش ۔ اُردو ڈکشنری بھی بازار میں آئی، لیکن یہ تمام ڈکشنریاں سائنس، ادب، قانون میں نئی نئی اصطلاحات کی ایجاد کے ساتھ ناکافی ثابت ہونے لگیں۔ جناب یعقوب میراں مجتہدی نے اس ضرورت کو شدت سے محسوس کیا کیونکہ ان کا تعلق حکومت آندھرا پردیش کے محکمہ ٹرانسلیشن سے رہا ہے۔ یہاں اس محکمہ میں ہر روز ترجمہ میں نئی نئی سیاسی، سماجی، معاشرتی، معاشرتی، خاندانی، شہری اور دیہی اصطلاحات اور الفاظ سامنے آتے رہتے ہیں۔ ان کے ترجمہ میں آنے والی مشکلوں سے وہ نبرد آزما رہتے تھے۔ یہیں انہیں ایک ایسی لغت سازی کی تحریک ملی جو مستقبل میں کئی دہوں تک کارآمد رہے، چنانچہ انہوں نے لغت سازی کو ضرورت کے ساتھ ساتھ فن سمجھا اور پچیس سال تک سخت محنت اور ہزاروں مختلف لسانی لفظوں کی جستجو اور کھوج کے بعد تن تنہا اس کام کو کرڈالا جو کئی ماہران الفاظ شناس اور ان پر مشتمل ایک جماعت کا کام ہے۔
یعقوب میراں صاحب مجتہدی کی لغت مجتہدی اُردو تاریخ کی سب سے مکمل اُردو۔ انگریزی لغت ہے۔ اس کی خصوصیات میں سب سے اہم خصوصیت یہ ہے کہ ایک اُردو لفظ کے ہندوستانی ریاستوں میں مختلف مفاہم اور معنی کو بتایا گیا ہے۔ میں جناب یعقوب میراں صاحب کو تیس سال سے جانتا ہوں۔ وہ مجھے ہر وقت اپنے آگے بڑھتے ہوئے کام کو بتایا کرتے تھے۔ ڈکشنری کی تکمیل کے بعد اس کی اشاعت کے لئے بہت فکرمند رہا کرتے تھے۔ یہ اہلیان اُردو کے لئے بڑی خوشی کی بات ہے۔ سید ہاشم میموریل کے فاؤنڈیشن کے صدر جناب سید عبدالقادر جیلانی نے اس کی اشاعت کی تکمیل فرمائی۔
یعقوب میراں مجتہدی جناب سید شہاب الدین مجتہدی کے گھر 5 جولائی 1931ء کو پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم و تربیت ان کے دادا جناب سید محمد تقی مجتہدی کے سایہ عاطفت میں مکمل ہوئی۔ مدرسہ فوقانیہ چنچل گوڑہ سے 1946ء میں میٹرک کا امتحان کیا اور 1948ء میں حیدرآباد کی تاریخی درس گاہ سٹی کالج سے اُردو میڈیم میں انٹر پاس کیا۔ والد صاحب کے مشورہ پر انگلش ٹائپنگ اور شارٹ ہینڈ کا امتحان پاس کیا۔ 1952ء میں B.A میں داخلہ لیا اور 1954ء میں گریجویشن کی تکمیل کی۔ اعلیٰ حضرت میر عثمان علی خاں صاحب آصف سابع کے دفتر پیشی میں اسٹینو گرافر کی ایک اسامی نکل آئی۔ اُس وقت یعقوب میراں صاحب کے والد بزرگوار حضورِ نظام کے دفتر پیشی میں سپرنٹنڈنٹ تھے۔ اسی دفتر میں جون 1955ء میں انہیں بھی اسٹینوگرافر کی ملازمت مل گئی۔ یعقوب میراں صاحب نے مجھے بتایا تھا کہ انہیں بچپن سے ہی ترجمہ نگاری کا شوق تھا۔ دفتر پیشی میں ترجمہ کے دوران انہیں ڈکشنری کی ضرورت پڑتی تھی۔ اس وقت سب سے معتبر اُردو۔ انگلش ڈکشنری مولوی عبدالحق ہی کی تھی، لیکن زیادہ تر الفاظ کے معنی و مفہوم دفتری زبان سے مختلف ہوتے تھے، وہیں کئی الفاظ اپنے معنی و مفہوم مختلف مطالب پیش کرتے۔ ان ہی دنوں 1955ء میں لسانی بنیادوں پر ہندوستانی ریاستوں کی تقسیم عمل میں آئی تھی۔ ویسے تو یعقوب میراں دفتر پیشی میں اسٹینوگرافر تھے، مگر اُردو سے انگریزی میں انہیں تراجم کرنے پڑتے تھے۔ 1960ء میں محکمۂ ترجمہ میں سینئر اُردو ٹرانسلیٹر کی حیثیت سے تقرر عمل میں آیا۔ یہی وہ موقع اور وقت تھا، انہیں ان کی منزل مل گئی۔ یہاں انہیں انگریزی سے اُردو اور ملک کی کئی ریاستوں کی زبان میں ترجمہ سے سابقہ پڑا۔ یہیں انہوں نے محسوس کیا کہ ایک لفظ کے ہندوستان کی دیگر ریاستوں میں معنوں میں بہت فرق ہے۔ اس بات کو اپنے ذہن میں رکھ کر الفاظ کے معنی، مفہوم، مطالب اور محاوروں کے فرق کو اپنی ڈکشنری میں واضح کیا ہے۔ ایک ایسی ہمہ لسانی معنی کی ڈکشنری کی تیاری میں تیزی آگئی اور 1970ء کے درمیان اس کام کے لئے پہلوبند ہوگئے۔ لغت سازی کے لحاظ سے یہ کام ایک دفتر اور عملہ، کاغذ، دوات و قلم کا محتاج تھا لیکن انہوں نے تن تنہا اس کام کی تکمیل کا عزم کیا۔ مسلسل اپنی زندگی کے قیمتی 25 سال کو یادگار بنالیا۔ لغت مجتہدی کی شکل میں اُردو داں حضرات کے لئے یہ تحفۂ سلاسل ہے یعنی ہر آنے والی نسل اس سے استفادہ کرتی رہے گی۔
’’لغت ِ مجتہدی‘‘ کی چند خصوصیات: (عرض مؤلف سے ماخوذ)
(1)  یہ ڈکشنری 2,800 سے زیادہ صفحات پر مشتمل ہے۔ اس میں 90,000 سے زائد اندراجات ہیں اور بنیادی الفاظ کی تعداد 25,000 سے زیادہ ہے۔ ان میں عربی الفاظ 7,000، فارسی 4,000 ، ہندی 875 ، اُردو محاورے 6,000، مثالیہ جملے 19,000 ، مثالیے فقرے 18,000، اُردو ضرب الامثال 1,000، عربی ضرب الامثال 25 ہیں۔ اسلام سے متعلق تقریباً 400 اندراجات ہیں۔ہندومت، عیسائیت، پارسیوں، یہودیوں اور سکھوں میں مروج الفاظ و اصطلاحات بھی شامل ہیں۔ قانون، طب، طبیعیات، کیمیاء، فلکیات، تاریخ، جغرافیہ، گرامر، ریاضی، معاشیات، فلسفہ، صنعت و حرفت وغیرہ کے بے شمار اندراجات آپ اس ڈکشنری میں پائیں گے۔ یہی نہیں سیاسی الفاظ، پارلیمانی اصطلاحات، فوج سے متعلق الفاظ، اُردو ادب، منطق اور صحافت سے متعلق بھی کئی الفاظ اس میں شامل ہیں۔ کچھ پرتگالی اور کشمیری الفاظ کے علاوہ بے شمار الفاظ و اندراجات ایسے ہیں جوکہ مندرجہ بالا زمروں میں شامل نہیں ہوتے، مثلاً اطلاعیات، انتفاضہ، تاب کاری، انسانی بم، خودکش دستہ، نکسل وادی، مانع حمل آپریشن، مصنوعی سیارہ، مواصلاتی سیارہ نیوکلیئر، ویدانت، خانگیانہ، نجیانا، خلائی جہاز، خلا باز، خلانورد، دَل بدل، سپاری، بالی ووڈ، پختونستان وغیرہ وغیرہ۔ بہرحال میں نے کوشش کی ہے کہ میری اس ڈکشنری میں کوئی لفظ چھوٹنے نہ پائے، حتی کہ بہت سے ایسے الفاظ بھی لغت میں شامل کردیئے جو اگرچہ اب متروک ہوچکے ہیں لیکن اُردو زبان و ادب کا حصہ رہے ہیں۔
(2) تمام الفاظ فقروں اور جملوں کو اُردو رسم الخط کے ساتھ رومن رسم الخط بھی لکھا گیا ہے تاکہ الفاظ کے صحیح تلفظ کی صراحت ہوسکے، نیز وہ تمام لوگ جو تھوڑی بہت اُردو جانتے ہیں ، رومن رسم الخط کی مدد سے اس ڈکشنری سے استفادہ کرسکیں۔
(3) ہر لفظ کا ماخذ، تذکیر و تانیث اور واحد و جمع کی وضاحت کی گئی ہے۔ بہت سے انگریزی الفاظ ایسے ہیں جو مذکر اور مونث دونوں طرح استعمال ہوتے ہیں۔ مثلاً گلاس، اسکوٹر، موٹر، نوٹس وغیرہ ایسے الفاظ کے محاذی مذکر، مونث لکھ دیا گیا ہے۔
(4) انگریزی میں بہت سے اُردو الفاظ یا اصطلاحات کے غیرانگریزی مترادفات بھی دیئے ہیں مثلاً ’’بار ثبوت‘‘ کیلئے Burden of Proof کے علاوہ لاطینی Onus Probandi ’’طریقہ کار‘‘ کیلئے A Course of Action کے علاوہ Modus Oprerandi ’’زبان خلق نقارۂ خدا‘‘ کیلئے The Voice of the People, The Voise of God کے علاوہ vox dei، vox populi اور ’’مداخلت کا حق‘‘ کیلئے Right to Intervetion کے علاوہ Locus Standi بھی دے دیئے ہیں۔
(5) حروفِ جار (Prepositions) کے استعمال میں اکثر لوگ غلطی کرجاتے ہیں۔ اس کے لئے میں نے جہاں جہاں ضروری سمجھ، اسم یافعل کے ساتھ حروفِ جار بھی دیئے ہیں۔ اس سے بہت سے لوگوں کو صحیح انگریزی لکھنے میں مدد ملے گی۔