لباس پر کیرالا کی ٹیچر کے وائیرل تبصرہ بنا ء ’’تر بوزاحتجاج‘‘کی وجہہ

کوزیکوٹی۔فاروق ٹریننگ کالج کے اسٹنٹ پروفیسر نے مسلم لڑکیو ں کے لباس پر جنسی او رنازیبا الفاظ کا استعمال نے پیر کے روزسلسلہ وار احتجاج کا سبب بنا۔ایس ایف ائی کے بیانر پر سینکڑوں گرلز اسٹوڈنٹس نے کالج کے باب داخلہ تک ہاتھوں میں تربوز کے تکڑے لئے ’تربوز مارچ‘ نکالا او ر اسٹنٹ پروفیسر ٹی جوہر منویر کے خلاف کاروائی کا مطالبہ کیا جنھوں نے طلبہ کے لباس کو ’غیر اسلامی‘ قراردیاتھا۔

مذکورہ ٹیچرنے مسلمانوں کے ایک اجتماع سے خطا ب کرتے ہوئے یہ کہاتھا کہ لڑکیاں برابر طریقے سے حجاب نہیں پہنتی اور جان بوجھ کر اس طرح کا لباس پہنتی ہیں تاکہ ان کی چھاتی’’ نمائش کے لئے رکھے ہوئے تربوز کے تکڑوں‘ کی طرح دیکھائی دیں۔

مارچ کو پولیس نے روک دیا۔کے ایس یو اسٹوڈنٹس نے تربوز کے تکڑے تقسیم کرتے ہوئے اپنا احتجاج درج کرایا جبکہ اے بی وی پی ورکرس کے کالج گیٹ کے سامنے تربوز پھوڑی۔

اتفاق سے پچھلے ہفتے سابق میں منائے گئے ہولی کے جشن کے موقع پر کالج عملے اور طلبہ کے درمیان میں پیش ائے تصادم کا ایک ویڈیو سوشیل میڈیا پر وائیرل ہوا۔مذکورہ ٹیچر نے پردہ کے اندر پہننے جانے والے لیگنگنس کا مظاہرہ کرنے کا بھی طلبہ کو ذمہ دار ٹہرایا۔

انہوں نے کہاتھا کہ ’’کیمپس کی80فیصد طلبہ لڑکیاں ہیں اور زیادہ تر مسلمان بھی ہیں۔ وہ لوگ پردے کا استعمال کرتی ہیں‘ مگر وہ اپنے لیگنگس دیکھاتی ہیں‘‘۔ انہو ں نے مزیدکہاکہ لڑکیاں اگر کوئی برقعہ نہیں پہنتی ہے تو ٹھیک ہے مگر انہیں اپنا سر اسکارف سے ڈھانکنا چاہئے۔ چھاتی عورت کا وہ حصہ جس سے مرد متاثر ہوتا ہے اور اسلامی تعلیمات میں اس کوڈھانکنے کی تعلیم دی گئی ہے ‘‘۔

احتجاج کے دوران کالی کٹ اسٹوڈنٹ یونین کی چیرپرسن سوجا پی نے کہاکہ ’’ ٹیچر کا کام ہمارے چہرے دیکھ کر تعلیم دینا ہے نہ کہ ہمارا جسم دیکھ کر‘‘۔ پرنسپل فاروق ٹریننگ کالج جواہر نے کہاکہ کالج یہ باہر تین ماہ قبل دی گئی یہ تقریر ہے ‘ جس پر کالج کوئی کاروائی نہیں کرسکتا۔انہوں نے مزیدکہاکہ ’’ اس ضمن میں مجھے کوئی شکایت وصول نہیں ہوئی ہے‘‘۔