لاولد شخص کا وارث لے پالک ہوگا یا اس کے بھائی بہن

سوال : ایک صاحب جا ئیداد شخص کا انتقال ہوگیا اور وہ صاحب اپنے پیچھے بھائی بہن اور متنبی (لڑکی یا لڑکا) چھوڑ کر گئے ۔ کیا صاحب جائیداد کی وراثت میں متنبی کا حق ہے یا نہیں ہے جو بھی مسئلہ ہے مدلل واضح فرمائیں۔ آپ کی بڑی مہربانی ہوگی۔
محمد عبدالرحمن، ملک پیٹ
جواب : لے پالک لڑکا شرعاً وارث نہیں، وہ اپنے حقیقی ماں باپ کا وارث ہوگا ۔ لہذا مرحوم کا متروکہ بعد وضع مصارف تجہیز و تکفین و ادائی قرض و اجرائی وصیت برائے غیر وارث در ثلث مابقی مرحوم کے بھائی بہن میں فی بھائی دو ، فی بہن ایک کے حساب سے تقسیم ہوگا۔

تلاوت قرآن مسجد کے بیرون لاؤڈ اسپیکر میں
سوال : ہماری محلہ کی مسجد میں شب برات کے موقع پر بیرونی لاوڈ اسپیکر سے قرات کی جاتی ہیں اور رمضان کے آخری عشرہ میں تہجد کی نماز میں بھی بیرونی لاوڈ اسپیکر سے قرات کی جاتی ہیں جس کی آواز سارے محلہ میں گونجتی ہیں۔ کیا اس طرح سے تلاوت قرآن کرنا ٹھیک ہے، کیا یہ عظمت قرآن کے خلاف نہیں کیا یہ جائز ہیں ؟
نام …
جواب : جب قرآن کی تلاوت کی جائے تو خاموش رہنا اور پوری توجہ سے سننا لازم ہے۔ تلاوت قرآن مجید کے لئے لاؤڈ اسپیکر کا استعمال اس وقت ناگزیر ہے جبکہ حاضرین کو فطری آواز نہ پہنچتی ہو۔ مسجد کے باہر کاروبار یا دیگر مصروفیات میں مشغول حضرات کو سنانے کی چنداں ضرورت نہیں۔ اس سے قرآن مجید کی توہین و بے ادبی ہوتی ہے ۔ اس لئے دمہ دار اصحاب کو چاہئے کہ مسجد کے بیرون لاوڈ اسپیکر کا استعمال نماز تہجد اور تلاوت قرآن کے لئے نہ کریں ورنہ بیرون مسجد مشغول حضرات کی بے توجہی کے وہی ذمہ دار رہیں گے۔

سجدۂ تلاوت کیلئے قیام
سوال : آیت سجدہ تلاوت کرنے کے بعد قرآن بازو رکھ کر بیٹھ کر ہی سجدہ کیا جاسکتا ہے ۔ یا پہلے کھڑا ہونا پھر سجدہ کرنا سجدے کے بعد پھر کھڑا ہونا ہے ۔ آیت سجدہ کا سجدہ کرنے کا صحیح طریقہ کیا ہے ۔ ایک ہی آیت سجدہ بار بار دہرانے پر ایک ہی سجدہ کافی ہے یا جتنے بار آیت کو دہرایا جائے اتنے سجدے کرنا ہے ؟
محمد جاوید، ملک پیٹ
جواب : ایک مجلس میں متعدد مرتبہ آیت سجدہ پڑھی جائے تو ایک ہی سجدہ کرنا کافی ہے ۔ متعدد مجلس میں آیت سجدہ متعدد بار پڑھی جائے تو ہر بار علحدہ سجدہ کرنا ہوگا ۔ سجدۂ تلاوت میں دو قیام مستحب اور دو تکبریں مسنون ہیں۔ سجدہ تلاوت کا طریقہ یہ ہے کہ کھڑے ہوکر اللہ ا کبر کہے اور سجدہ میں جائیں ۔ پھر اللہ اکبر کہتے ہوئے کھڑے ہوجائیں۔سجدۂ تلاوت دو تکبیروں کے درمیان نماز کے شرائط سے کیا جاتا ہے مگر اس کے لئے ہاتھ اٹھانے اور تشھد و سلام کی ضرورت نہیں، سجدۂ تلاوت میں وہی تسبیح ہے جو نماز کے سجدوں میں پڑھی جاتی ہے۔

بیوی سے کبھی قریب نہ ہونیکی قسم کھانا
سوال : ایک شخص نے اپنی بیوی سے ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ میں تم سے زندگی بھر قریب نہیں ہوں گا اور بیوی کو میکے لاکر چھوڑدیا۔ پانچ چھ ماہ اپنے ماں باپ کے پاس رہا پھر بیرون ملک چلے گیا۔ کیا دونوں میں رشتہ باقی ہے یا دوسرے سے نکاح کرسکتے ہیں، نہیں ؟ براہ کرم اس سے متعلقہ تفصیلی احکام بیان فرمائیں تو بڑی مہربانی ہوگی۔ تاکہ نفس مسئلہ اچھی طرح سمجھ میں آجائے۔
ای میل
جواب : اگر کوئی شخص اللہ تعالیٰ کی قسم کھائے کہ وہ چار ماہ بیوی سے قریب نہیں ہوگا اور اس قسم پر چار ماہ کا عرصہ گزر جائے اور اس دوران وہ بیوی سے قربت اختیار نہ کرے تو چار ماہ گزرتے ہی بیوی پر ایک طلاق بائن واقع ہوکر دونوں میں تفریق ہوجائے گی ۔ عالمگیری جلد 1 ص : 476 میں ہے : الایلاء منع النفس عن قربان المنکوحۃ منعامؤکدا بالیمین باللہ … و ان لم یقربھا فی المدۃ بانت بواحدۃ کذا فی البرجندی شرح النقایۃ۔
اور اگر کوئی شخص اپنی بیوی سے زندگی بھر قریب نہ ہونے کی قسم کھائے اور اس پر چار ماہ گزر جائے تو دونوں میں طلاق بائن کے ذریعہ تفریق ہوجائے گی پھر اگر وہ دونوں باہمی رضامندی سے بقرار مہر جدید دوبارہ عقد کرلیں تو قسم پھر لوٹ کر آئے گی اور بعد شادی چار ماہ کے دوران وہ قربت اختیار کرے تو قسم ٹوٹنے کی وجہ سے اس پر کفارہ لازم ہوگا اور اگر شادی کے بعد وہ چار ماہ تک قریب نہ ہو تو پھر طلاق بائن کے ذریعہ دونوں میں تفریق ہوجائے گی۔ اس میں ہے : وان کان حلف علی الابد بأن قال واللہ لا اقربک ابدا اوقال واللہ لا اقربک ولم یقل ابدا فالیمین باقیۃ الا انہ لا یتکرر الطلاق قبل التزوج فان تزوجھا ثانیا عادالایلاء فان وطئھا والا وقعت بمضی اربعۃ اشھر طلقۃ اخری۔
پس صورت مسئول عنہا میں شوہر نے اپنی بیوی سے زندگی بھر قریب نہ ہونے کی قسم کھائی ہے اس لئے بعد قسم چار ماہ کے دوران شوہر بیوی سے قربت نہ کیا ہو تو چار ماہ گزرتے ہی بیوی پر ایک طلاق بائن واقع ہوکر شوہر سے رشتۂ زوجیت منقطع ہوگیا ۔ اس چار ماہ کے بعد سے ہی عدت (تین حیض) کا شمار ہوگا ۔ بعد مرورِ عدت وہ دوسرے سے نکاح کی شرعاً مجاز ہے۔

میت کو کاندھا دینا مسنون ہے
سوال : نماز جنازہ پڑھنا اور قبرستان کو جانا اور تدفین تک قبرستان میں رہنا باعث اجر و ثواب ہے لیکن بعض لوگوں کو میں نے دیکھا کہ وہ بڑے جوش و خروش سے جنازہ کو کاندھا دینے کے لئے دوڑتے ہیں اور اس کے لئے بڑی جدوجہد کرتے ہیں۔ شرعی نقطہ نظر سے میت کو کاندھا دینا بھی کیا نیکی ہے۔ اس کے متعلق شرعی احکام سے واقف کرائیں تو مہربانی ہوگی ؟
اویس خان، مراد نگر
جواب : شرعاً میت کو کاندھا دینا عبادت ہے، اس لئے ہر ایک کے لئے مناسب ہے کہ وہ کاندھا دینے کے لئے سبقت کرے کیونکہ کاندھا دینا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل مبارک سے ثابت ہے ۔ چنانچہ زرقانی شرح مواھب لدنیہ میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعد بن عبادۃؓ کے جنازہ کا کاندھا دیا ہے ۔ حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح ص : 399 میں ہے : وحمل الجنازۃ عبادۃ فینبغی لکل احد ان یبادر الیھا فقد حمل الجنازۃ سید المرسلین فانہ حمل جنازۃ سعد بن عبادۃ نقلہ السید عن الجوھرۃ۔

سابقہ امتیں اور طلاق کے احکام
سوال : روز بروز دشمنانِ اسلام ، اسلامی احکامات کو تنقید کا نشانہ بنارہے ہیں، چھوٹی سی بات کو میڈیا ایک پہاڑ بناکر پیش کرتا ہے، اکثر و بیشتر طلاق کے مسئلہ کو موضوع بحث بنایا جاتا ہے ۔ آپ سے التماس یہ ہے کہ آپ براہ کرم یہود و نصاری اور دیگر امتوں کے پاس طلاق کے احکام اور قوانین کیا ہیں بیان فرمائیں تو مہربانی ہوگی ؟
حافظ عدیل خان، فرسٹ لانسر
جواب : سابقہ آسمانی شریعتوں میں طلاق کے احکام سب سے پہلے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شریعت میں ملتے ہیں، اگرچہ اس دور کے احکام کی کوئی مستند دستاویز ہمارے پاس نہیں ہے، تاہم موجودہ تو رات میں مرد کو طلاق کا کلی اختیار دیا گیا ہے، البتہ طلاق کے لئے صرف ایک طریقہ مذکور ہے کہ طلاق نامہ لکھ کر دیا جائے۔ موجودہ تو رات کے الفاظ یہ ہیں : ’’ اگر کوئی مرد کسی عورت سے بیاہ کرے اور پیچھے اس میں کوئی ایسی بیہودہ بات پائے جس سے اس عورت کی طرف اس کا التفات نہ رہے تو وہ اس کا طلاق نامہ لکھ کر اس کے حوالے کرے اور اسے اپنے گھر سے نکالدے اور جب وہ اس کے گھر سے نکل جائے تو وہ دوسرے مرد کی ہوسکتی ہے ۔ اگر دوسرا شوہر بھی اس سے ناخوش رہے اور اس کا طلاق نامہ لکھ کر اس کے حوالے کرے اور اسے اپنے گھر سے نکال دے، یا وہ دوسرا شوہر جس نے اس سے بیاہ کیا ہو مرجائے تو اس کا پہلا شوہر جس نے اسے نکال دیا تھا، اس عورت کے ناپاک ہوجانے کے بعد پھر اس سے بیاہ نہ کرنے پائے کیونکہ ایسا کام خدا وند کے نزدیک مکروہ ہے ، (استثناء 24 : 1 تا 4 ) ۔ یہی حکم حضرت ارمیاء علیہ السلام کے صحیفے میں بھی موجود ہے (یرمیاہ ، 3 : 1 ) اور اسی بناء پر اصل یہودی مذہب میں مرد کو طلاق کا غیر محدود اختیار تھا، اگرچہ بعد میں خاص طور سے گیارھویں صدی عیسوی میں ، علمائے یہود کی طرف سے اس اختیار پر سخت پا بندیاں عائد کردی گئی تھیں (انسائیکلو پیڈیا بری ٹانیکا، مطبوعہ 1950 ء ، 453/7 ، بہ ذیل مادہ (Divorce) ، لیکن موجودہ بائیبل میں مذکور ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے طلاق کی اجازت کو نہایت محدود کردیا اور اس صورت کے سوا کہ عورت زنا کی مرتکب ہو ، اسے طلاق دینا ناجائز قرار دے دیا۔ بائیبل میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف یہ اقوال منسوب ہیں : جو کوئی اپنی بیوی کو حرام کاری کے سوا کسی اور سبب سے چھوڑ دے وہ اس سے زنا کراتا ہے اور جو کوئی اس چھوڑی ہوئی سے بیاہ کرے وہ زنا کرتا ہے ‘‘ (متی ، 5 : 32 ) اور ’’ وہ اور اس کی بیوی دونوں ایک جسم ہوں گے ، پس وہ دو نہیں بلکہ ایک جسم ہیں، اس لئے جسے خدا نے جوڑا ہے اسے آدمی جدا نہ کرے … جو کوئی اپنی بیوی کو چھوڑ دے اور دوسری سے بیاہ کرے وہ اس پہلی کے برخلاف زنا کرتا ہے۔ (مرقس ، 10 : 9 تا 11 ) ۔ اسی قسم کے احکام متی (9:19) اور لوقا ( 18:16) میںبھی مذکورہ ہیں۔ اسی بناء پر اصل عیسائی مذہب میں مرد کو طلاق دینے کا کوئی اختیار نہیں تھا۔ صرف بیوی کی زنا کاری کی بنیاد پر وہ کلیسائی عدالتوںمیں طلاق کا دعویٰ کرسکتا تھا لیکن رفتہ رفتہ زناکاری کے علاوہ طلاق کے دعوؤں کے لئے مزید بنیادیں بھی مختلف ادوار میں تسلیم کرلی گئیں، لیکن 1857 ء تک طلاق دینے کا اختیار صرف کلیسا کی عدالتوں کے پاس رہا ۔ 1857 ء میں انگلستان کے ’’ قانون ازدواجی مقدمات‘‘ (Matrimonial causes Act) نے یہ اختیار کلیسا کی عدالتوں کے بجائے ایک عام عدالت کے حوالے کردیا جو خاص اسی غرض کے لئے قائم کی گئی تھی، بعد میں مختلف قوانین کے ذریعے طلاق کی وجوہ میں اور اضافہ کیا گیا ، یہاں تک کہ اب طلاق حاصل کرنے کے لئے مرد اور عورت دونوں کو مساوی طور پر بہت وسیع بنیادیں میسر ہیں ۔ (تفصیل کے لئے دیکھئے انسائیکلو پیڈیا بری ٹانیکا، بذیل مادہ (Divorce ۔
اسلام نے نظام طلاق کی اصلاح کے لئے وسیع اخلاقی اور قانونی ہدایات دی ہیں اور اس کے کئی مدارج رکھے ہیں۔ اسلام کا اصل منشاء یہ ہے کہ رشتہ نکاح دائمی ہو اور اس کے ٹوٹنے کی نوبت کم سے کم آئے، چنانچہ مردوں کو یہ تاکید کی گئی ہے کہ وہ عورتوں کی صرف برائی پر نظر رکھیں کیونکہ ہوسکتا ہے کہ ان میں بہت سی بھلائیاں بھی ہوں (4 (النسائ) : 19) ، پھر اگر کوئی وا قعی نا قابل بر داشت خرابی محسوس ہو تو حکم دیا گیا ہے کہ وہ فوراً طلاق دینے کے بجائے پہلے بیویوں کو فہمائش کریں اور اگر وہ ناکافی ہو تو اظہار ناراضی کے طور پر اپنا بستر ان سے الگ کرلیں ، یہ بھی ناکافی ہو تو تادیب کی بھی اجازت ہے (دیکھئے 4 (النساء : 34 ) اگر پھر بھی موافقت نہ ہو تو ہدایت کی گئی ہے کہ ایک ثالث مرد کی طرف سے اور ایک ثالث عورت کی طرف سے بھیجا جائے، اور وہ دونوں مل کر تنازعہ ختم کرنے کی کوشش کریں۔ اگر وہ چاہیں گے تو اس طرح اللہ موافقت پیدا کردے گا (دیکھئے 4 (النسائ) : 35 ) ۔ اگر یہ تمام کوششیں ناکام ہوجائیں تو طلاق کی اجازت یہ کہہ کر دی گئی ہے کہ مباحات میں اللہ کو سب سے زیادہ مبغوض طلاق ہے (الترمذی : الجامع ،1 : 142 )