فکر تونسوی (1987-1918)

میرا کالم مجتبیٰ حسین
میں تو کہتا ہوں کہ یہ جو فکر تونسوی اپنے مضامین میں سچ بات کہتے ہیں تو یہ اصل میں وہ نہیں کہتے بلکہ ان کے اندر بیٹھا ہوا گنوار اُن سے سچ کہلواتا ہے ۔ اسی لئے تو ان کے سچ پر اعتماد کرنے کو جی چاہتا ہے ۔ ان حضرت کی کوئی ایک خامی ہو تو بیان کروں۔ ان کی  ذات میں تو خامیوں کے دفتر کھلے ہیں۔ ایک بار مجھے اور حضرت قبلہ کو ایک جلسہ میں شرکت کیلئے حیدرآباد جانا پڑ گیا ۔ ریل کا ریزرویشن نہیں مل رہا تھا ۔ میں نے بڑی بھاگ دوڑ کی اور جان پہچان کے ایک کلرک کو فی برتھ دس روپئے رشوت دے کر ریزرویشن کروالیا ۔ میں نے موصوف کو سارا ماجرا کہہ سنایا تو دوسرے دن اپنے کالم ’’پیاز کے چھلکے‘‘ میں اس کلرک کے خلاف ایک لمبا چوڑا مضمون لکھ مارا ۔ کلرک دوسرے دن بھاگا بھاگا میرے پاس آیا اور کہنے لگا۔
’’غضب ہوگیا ۔ آپ کے فکر صاحب نے میرے خلاف کالم لکھ دیا ہے ۔ میں نے تو آپ کی مدد کی تھی ، آپ نے خوب صلہ دیا ‘‘۔
کالم پڑھ کر مجھے بھی غصہ آیا اور اسی حالت میں حضرت کے پاس پہنچا ۔ جب سارا ماجرا کہہ سنایا تو بڑے نادم ہوئے ۔ کہنے لگے ’’بھول ہوگئی ۔ آج کا کالم تو جاچکا ہے ، پرسوں کا کالم اس کلرک کی حمایت میں لکھوں گا‘‘۔
میں نے کلرک کو اطلاع دی کہ ’’اب اگلا کالم تمہاری حمایت میں آئے گا ، تم فکر مت کرو‘‘۔
دوسرے ہی دن کلرک نے مجھے فون کر کے کہا’’فکر صاحب سے کہئے کہ وہ اب میری حمایت میں کالم نہ لکھیں کیوں کہ ہمارے ڈپارٹمنٹ نے اب تک ان کے پہلے کالم کا کوئی نوٹس نہیں لیا ہے ۔ اب خواہ مخواہ اس مسئلہ کو چھیڑنے سے کیا حاصل ؟ ‘‘۔
کلرک کی بات معقول تھی ۔ میں پھر فکر تونسوی کے پاس گیا اور بولا ’’حضرت ، اب آپ کالم نہ لکھئے کیونکہ آپ کے پہلے کالم کا ڈپارٹمنٹ نے کوئی نوٹس نہیں لیا ہے۔ معاملہ دب گیا ہے ۔ اب آپ اس مسئلہ کو پھر کیوں چھیڑ رہے ہیں؟‘‘۔
یہ سنتے ہی حضرت آگ بگولا ہوگئے ۔ بولے ’’کیا کہا ۔ ڈپارٹمنٹ نے میرے کالم کا کوئی نوٹس نہیں لیا ہے ۔ یہ تو سراسر میری توہین ہے ۔ میں اسے برداشت ہی نہیں کرسکتا ۔ میں کل ہی اس ڈپارٹمنٹ کے خلاف کالم لکھوں گا کہ وہ عوامی شکایتوں کا کوئی نوٹس نہیں لیتا‘‘۔
وہ تو ڈپارٹمنٹ کے خلاف کالم لکھنے پر تلے بیٹھے تھے ۔ بڑی مشکل سے میں نے نتائج و عواقب سے انہیں آگاہ کیا ۔ پھر یہ بھی بتایا کہ ان نتائج و عواقب سے اس بے چارے کلرک کی قسمت کس طرح وابستہ ہے۔ بڑی دیر کے بعد اُن کی سمجھ میں بات آئی اور معاملہ رفع دفع ہوگیا ور نہ بے چارے کلرک کا نہ جانے کیا بنتا۔
اسی حیدرآباد والے سفر کی بات ہے کہ ہم فرسٹ کلاس کے ڈبے میں سفر کر رہے تھے اور فکر صاحب کا بیان تھا کہ وہ پہلی بار فرسٹ کلاس کے ڈبے میں سفر کر رہے ہیں۔ اسی لئے ڈبے میں سوار ہوتے ہی انہوں نے ڈبے کی ایک ایک شئے کو چھو کر دیکھنا شروع کیا تاکہ پتہ چلے کہ فرسٹ کلاس کا ڈبہ کیسا ہوتا ہے۔ ابھی وہ ڈبے کا جائزہ لے ہی رہے تھے کہ دو فوجی عہدیدار جنہیں ہمارے کیبن میں جگہ ملی تھی داخل ہوگئے ۔ حضرت نے دبی زبان میں مجھ سے کہا ’’یار یہ تو بہت برا ہوا ، کیا یہ حیدرآباد تک ہم پر پہرہ دیتے رہیں گے‘‘۔
میں نے کہا ’’لگتا تو ایسا ہی ہے‘‘۔
کچھ دیر تک حضرت سہمے رہے اور کہا ’’معاف کیجئے ‘‘۔ پھرکھلکھلاتے ہوئے فوجی عہدیداروں سے بولے ’’میں پہلی بار فرسٹ کلاس کے ڈبے میں سفر کر رہا ہوں۔ آپ کو کوئی اعتراض تو نہیں ہے‘‘۔
وہ بولے’’ہمیں کیا اعتراض ہوسکتا ہے‘‘۔
پھر حضرت خود ہی بولے ’’میںفکر تونسوی ہوں۔ ا ردو طنز و مزاح کا بریگیڈیر اور یہ ہیں مجتبیٰ حسین اردو طنز و مزاح کے فیلڈ بارشل‘‘۔
فوجی عہدیداروں نے ایک زوردار قہقہہ لگایا ۔ اب جو حضرت نے اس قہقہہ کو پکڑ کر ان دونوں کے چھلکے اتارنے شروع کئے تو میں گھبرا گیا کہ کہیں یہ فکر تونسوی کے خلاف سنگینیں تان کر نہ کھڑے ہوجائیں۔ عجیب عجیب سوالات ان سے پوچھتے رہے ۔ پوچھا ’’محاذ جنگ پر اگر آپ شکست کھاجائیں اور آپ کو مورچہ چھوڑکر بھاگنا پڑے تو کیا آپ جوتوں سمیت بھاگتے ہیں یا آپ کو جوتے اتارنے پڑتے ہیں۔ اس معاملے میں فوجی قانون کیا ہے؟ ‘‘
اب بیچارے فوجی عہدیدار اس کا کیا جواب دیتے ۔ نظریں جھکاکر خاموش ہوگئے۔ فکر تونسوی نے پے در پے ان پر حملے شروع کردیئے ۔ یہاں تک کہ آدھے سفر کے بعد دونوں تقریباً پسپا ہوگئے اور اپنی اپنی وردیوں سے باہر نکل آئے ۔ حیدرآباد تک فکر تونسوی انہیں اس طرح تنگ کرتے رہے کہ لگتا تھا یہ دونوں فوجی عہدیدار نہیں “Prisoners of War” ہیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ سکندرآباد کے اسٹیشن پر یہ دونوں عہدیدار ہم سے نظریں بچاکر چھپتے چھپاتے اپنا سامان لے کر بھاگنے لگے تو حضرت نے پکار کر کہا ’’اب بھاگے جارہے ہو تو ضرور بھاگنا مگر محاذ جنگ پر خدا کیلئے ہرگز نہ بھاگنا ۔ یہ میری وصیّت ہے سمجھے ، ایمان سے‘‘۔
میں نے بعد میں حضرت کو آڑے ہاتھوں لیا کہ ’’یہ کیا آپ خطرناک مذاق کرتے ہیں۔ فوجی عہدیدار ہیں ، بندوق چلادیں تو آپ اُن کا کیا بگاڑلیں گے ‘‘۔
بولے ’’یار یہ تو دشمن تک پر ٹھیک ڈھنگ سے گولی نہیں چلا پاتے، دوست پر کیا گولی چلائیں گے ۔ رہی یہ بات کہ میں نے انہیں کیوں چھیڑا تو بیٹا جو اباً عرض ہے کہ ٹکر ہمیشہ اپنے سے طاقتور آدمی سے لینی چاہئے اور یہ بات بھی دھیان میں رکھو کہ تلوار اور قلم کی جنگ میں ہمیشہ فتح قلم کی ہوتی ہے ‘‘۔ یہ کہہ کر حضرت نے سینہ یوں تان لیا جیسے وہ محاذ جنگ سے فتح یاب ہوکر واپس ہوئے ہوں۔
اُن کی ایک کمزوری لاہور ہے جسے وہ پیار سے ’’لہور‘‘ کہتے ہیں، بات کسی بھی شہر کی چلے وہ اسے لاہور پر ہی لے جاکر ختم کریں گے ۔ دہلی میں انہیں رہتے ہوئے پچیس برس بیت گئے مگرابھی تک اپنے آپ کو دہلی کی سڑکوں اور گلیوں کے قابل نہیں بناسکے۔ لاہور کا کہیں سے ذکر کیجئے اور دیکھئے کہ کس طرح لاہور اُن کی آنکھوں میں سمٹ کر آجاتا ہے ۔ ذرا اور ذکر کیجئے تو دیکھئے کہ کس طرح لاہور اُن کی آنکھوں سے آنسو بن کر ٹپکنے لگتا ہے۔ کہیں گے جب سے لاہور چھوٹا ہے تب سے کسی شہر میں رہنا نصیب نہیں ہوا ۔ لاہور کی کیا بات ہے ۔ وہاں کا سورج ہی اور ہے ، چاند ہی الگ ہے ۔ وہاں پانی ایسے نہیں بہتا جیسے یہاں بہتا ہے ۔ وہاں چڑیاں ایسے نہیں چہچہاتیں جیسے یہاں چہچہاتی ہیں۔
ایک بار ایک پاکستانی نوجوان ادیب پاکستان سے ہندوستان آیا تو فکر تونسوی کو فون کیا ۔ وہ بھاگے بھاگے میرے پاس آئے ، کہنے لگے ’’بھئی لاہور سے ایک نوجوان ادیب آیا ہوا ہے ، چلو ہم چل کر مل لیتے ہیں‘‘۔
میں ، وہ اور مظفر حنفی مل کر پاکستانی ادیب کے پاس گئے تو فکر تونسوی وہاں جاتے ہی لاہوری ادیب سے یوں بغل گیر ہوئے جیسے انہیں پتہ ہی نہ ہو کہ ہم بھی ان کے ساتھ آئے ہیں۔
میں اور مظفر حنفی بیوقوفوں کی طرح بیٹھے رہے اور وہ دونوں ’’لہور لہور‘‘ کہتے رہے۔ فکر تونسوی تو لاہوری ادیب سے مل کر سرحد کے پار چلے گئے اور میں اور مظفر حنفی ہندوستان میں رہ گئے ۔
لاہوری ادیب کو یہ پتہ نہیں تھا کہ فکر تونسوی ہندو ہیں۔ وہ اُن کے قلمی نام کی مناسبت سے انہیں مسلمان ہی سمجھ رہا تھا ۔ اس نے رازدارانہ انداز میں فکر تونسوی سے پوچھا’’یہ بتایئے آپ لوگ یہاں کس حال میں ہیں ؟ ‘‘
فکر تونسوی بولے ’’یہاں کیا اچھے رہیں گے جی ۔ زندگی تو بس لاہور ہی میں ختم ہوگئی‘‘۔
اس پر بھی نہ فکر تونسوی اس ادیب کی بات سمجھ سکے اور نہ ہی وہ ادیب فکر تونسوی کی بات کا مطلب سمجھ سکا ۔ قبل اس کے کہ وہ کوئی اور رازدارانہ بات کہتا میں نے مذاق مذاق میں کہا ’’قبلہ! یہاں ہم لوگ کس حال میں ہیں ؟ ۔ یہ سوال تو آپ ہم سے پوچھئے ۔ خدا کے فضل سے اچھے ہیںاور فکر تونسوی جیسے ہندو دوست ہمیں یہاں ملے ہوئے ہیں‘‘۔
وہ معاملہ کو تاڑ کر فوراً سنبھل گیا مگر فکر تونسوی تب بھی بات کا مطلب نہیں سمجھے اور ’’لہور لہور‘‘ کی رٹ لگائے رہے ۔ لاہور کے ایک ایک ادیب ، ایک ایک شاعر کے بارے میں تفصیل سے پوچھا ۔ پھر لاہور کی سڑکوں کی جانب متوجہ ہوئے ۔ پوچھا وہ روڈ کیسی ہے ، وہ گلی کیسی ہے ۔ کیا انارکلی پر اب بھی شام کو رونق لگتی ہے اور یار وہ ایک پنواڑی ہوا کرتا تھا ، کیا وہ اب بھی زندہ ہے ۔ نہ جانے وہ کیا کیا پوچھتے رہے ۔ مگر جب انہوں نے بڑی دلچسپی کے ساتھ یہ سوال پوچھا کہ ’’یار یہ بتا کہ انارکلی کے چوراہے پر ایک بھوری گائے بیٹھا کرتی تھی ۔ میں اسے روز روٹی کھلایا کرتا تھا۔ کیا وہ اب بھی وہاں بیٹھتی ہے؟‘‘
اس سوال کے بعد میں نے محسوس کیا کہ اب لاہور سر سے اونچا ہوگیا ہے ۔ لہذا میں نے حضرت کو ٹوکتے ہوئے کہا ’’قبلہ وہ گائے تو انارکلی کے چوراہے پر ضرور بیٹھتی ہوگی مگر کم از کم اب تو آپ یہاں سے اٹھئے ، دفتر کیلئے دیر ہورہی ہے‘‘۔
بادل ناخواستہ وہ اُٹھے مگر ’’لہور لہور‘‘ کی گردان کرتے رہے۔
دوسرے دن میں نے ان کے پرانے دوست بلراج ورما سے کہا ’’ورما جی ، یہ فکر صاحب ہمیشہ ’’لہور لہور‘‘ کیا کہتے رہتے ہیں؟ ‘‘
یہ سنتے ہی ورماجی نے کہا ’’کیا کہا لاہور !‘‘
میں نے کہا ’’جی نہیں فکر تونسوی‘‘۔
وہ بولے ’’ارے صاحب لاہور کی کیا بات ہے ، لاہور تو بس لاہور ہے۔ وہاں کا سورج ہی اور ہے ، چاند ہی الگ ہے ، وہاں پانی ایسے نہیں بہتا جیسے یہاں بہتا ہے‘‘۔ اس پر میں نے کہا ’’اب بس کیجئے ، میں جانتا ہوں کہ وہاں چڑیاں ایسے نہیں چہچہاتیں جس طرح یہاں چہچہاتی ہیں‘‘۔ مجھے یوں محسوس ہوا جیسے لاہور شہر نہیں ہے ، ایک مرض ہے اور وہ بھی متعدی۔ جس کے سامنے ذکر کیجئے وہ ہذیان بکنے لگتا ہے ۔
ہاں تو میں حضرت قبلہ کا ذکر کر رہا تھا ۔ حضرت قبلہ نے اس دنیا میں آکر کوئی کام کیا ہے تو بس یہی کہ بیٹھے بیٹھے فقرے ڈھالتے رہتے ہیں۔ کسی نے انہیں کچھ کہہ دیا اور انہوں نے ایک فقرہ اُچھال کر اس کی خدمت میں پیش کردیا ۔ سماج نے ان کے خلاف کوئی زیادتی کی اور انہوں نے سماج کے خلاف ایک زوردار پھڑکتا ہوا طنزیہ فقرہ کس دیا اور مطمئن ہوگئے۔ انہیں جب بھی دیکھتا ہوں تو مجھے اپنے گاؤں کا وہ مجذوب یاد آجاتا ہے جو دن بھر پاگلوں کی طرح گھومتا رہتا تھا ۔ ہم بچوںکی طبیعت موج میں ہوتی تو ہم میں سے کوئی جا کر اسے چھیڑ دیتا تھا ۔ اس پر وہ ایک گندی گالی ہم لوگوں کی طرف اچھال دیتا تھا ۔ ہم لوگ خوش ہوکر تالیاں بجاتے اور وہ ایک اور زبردست گالی ہماری طرف بڑھادیتا تھا ۔ پھر یہ سلسلہ چلتا رہتا ۔ وہ ایک سے ایک اعلیٰ و ارفع گالی ہمیں دیتا۔ پھر ہم میں سے کوئی شریر بچہ اسے پتھر دے مارتا۔ اس کے ساتھ ہی وہ مجذوب زور زور سے چیخنے اور رونے لگ جاتا ۔ اس کی چیخوں کو سنتے ہی ہمارے ہاتھوں سے پتھر خود بخود چھوٹ جاتے۔ ہم حیرت سے اسے دیکھتے رہتے۔ پھر رفتہ رفتہ ہماری آنکھیں بھی بھیگ جاتیں اور ہم میں سے کوئی اس کیلئے روٹی لاتا ، کوئی اس کیلئے پانی لاتا ، کوئی اسے سگریٹ دیتا اور وہ پاگل پھر سے ہنسنے لگتا۔
نہ جانے کیوں میں پنے ذہن میں فکر تونسوی کا تقابل اس مجذوب سے کرنے لگ جاتا ہوں۔ شاید اس لئے کہ فکر تونسوی کو جب بھی سماج چھیڑتا ہے تو وہ ایک طنزیہ فقرہ اس کی طرف اچھال دیتے ہیں۔ فقرے نکالتے نکالتے اب اُن کا طنز ایک چیخ بن گیا ہے لیکن مجھے دکھ اس بات کا ہوتا ہے کہ جب گاؤں کے مجذوب کی گالی چیخ بن جاتی تھی تو ہمارے ہاتھوں سے پتھر خود بخود چھوٹ جاتے تھے اور ہم اس کے زخم کا مرہم بننے کیلئے اس کی طرف دوڑ پڑتے تھے ۔ فکر تونسوی کی بدقسمتی یہ ہے کہ سماج کے ہاتھوں میں پتھر  جوںکے توں موجود ہیں ۔ میں اس دن کا منتظر ہوں جب سماج اپنے ہاتھوں کے پتھر پھینک کر اور اپنی آنکھوں میں آنسو لاکر فکر تونسوی کی جانب بڑھے اور اُن کے زخموں پر مرہم رکھ دے ۔ نہ جانے وہ وقت کب آئے گا ، اس وقت کے آنے تک میں یہی سمجھوں گا کہ میرے گاؤں کا مجذوب اتنا بدنصیب نہیں تھا جتنا کہ فکر تونسوی ہیں۔ (1975 ئ)
مجتبیٰ حسین کو بہار اردو اکیڈیمی کا ایوارڈ
ڈاکٹر مشتاق احمد نوری ، سکریٹری بہار اردو اکیڈیمی کی اطلاع کے بموجب بہار اردو اکیڈیمی نے اس سال کا اپنا بڑا ایوارڈ مالیتی ایک لاکھ روپئے منفرد طنز و مزاح نگار مجتبیٰ حسین کو ، اردو طنز و مزاح کے میدان میں اُن کی چھ دہائیوں کو محیط بیش بہا خدمات کے اعتراف کے طور پر، پیش کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
مجتبیٰ حسین تیس تصانیف کے مصنف ہیں اور اُن کے فن اور شخصیت پر کئی ممتاز اہلم قلم کی لکھی ہوئی کتابوں کی تعداد بھی پندرہ سے زیادہ ہے ، اس کے علاوہ اُن کے فن پر ملک کی مختلف یونیورسٹیوں میں جو تحقیقی کام ہوا ہے ، اس کی بنیاد پر اب تک  ایک درجن سے زیادہ ریسرچ اسکالروں کوپی ایچ ڈی کی ڈگریاں مل چکی ہیں۔
بہار اردو اکیڈیمی نے 21 اور 22 اپریل کو پٹنہ میں دو روزہ سمینار بھی منعقد کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس میں رضا نقوی واہی اور مجتبیٰ حسین کی مزاح نگاری پر مقالے پڑھے جائیں گے۔ سمینار میں ملک کے کئی اہم مشاہیر ادب حصہ لیں گے۔