عوض سعید

میرا کالم مجتبیٰ حسین
میری ایک کمزوری یہ ہے کہ میں شرافت کے بارے میں تو بے تکان لکھ سکتا ہوں لیکن شریف آدمی کے بارے میں بالکل نہیں لکھ سکتا۔ پچھلے دنوں ڈاکٹر مغنی تبسم نے دہلی فون کرکے جب مجھے اطلاع دی کہ عوض سعید کے افسانوں کے مجموعے کی رسم اجرا ہونے والی ہے تو میں نے مسرت کا اظہار کیا ۔ لیکن دوسرے ہی لمحے جب انہوں نے مجھ سے کہا کہ مجھے بھی اس موقع پر کچھ کہنا ہے تو میں نے معذرت کا اظہار کیا ۔ مغنی تبسم نے حیدرآباد کے موجودہ ادبی ماحول پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ حیدرآباد میں اب لکھنے والوں کی کمی ہوتی جارہی ہے ۔ اسی لئے لکھنے والوں کو باہر سے درآمد کرنا پڑتا ہے۔
میں نے کہا ’’عوض سعید جیسے شخص پر لکھنے والوں کی کمی تو ہر دور میں رہے گی۔ اس کوتاہی کا تعلق حیدرآباد کے ادبی ماحول سے نہیں بلکہ خود عوض سعید کی ذات سے ہے‘‘۔
بھلا بتایئے عوض سعید جیسے شریف ، نیک اور پاک باطن آدمی کے بارے میں کوئی لکھے بھی تو کیا لکھے ۔ میں تو خاکہ اسی شخص کا لکھتا ہوں جس میں تھوڑی سی اوباشی ہو، عیاری اور کچھ مکر ہو، کچھ فریب ہو، کچھ چھل ہو، کچھ کپٹ ہو۔ ہمارے دور کا آدمی ان ہی باتوں سے تو آدمی بنتا ہے شرافت سے نہیں۔

عوض سعید سے میری ملاقات یا دوستی کم و بیش پینتیس برس پرانی ہے لیکن اس کے باوجود میری اور عوض سعید کی دوستی کبھی خود مکتفی نہ بن سکی ۔ میری مراد یہ ہے کہ اس سے براہ راست دوستی نہ ہوسکی ۔ جب بھی اس سے ملا کسی نہ کسی حوالے یا وسیلے سے ہی ملا۔ عوضؔ اکثر شاذ تمکنت کے ساتھ پایا جاتا تھا اور میں جب جب شاذؔ سے ملنے جاتا تو عوض سے بھی ملاقات ہوجاتی تھی ۔ ایک آدمی شاہ علی بنڈہ جانے کا قصد کرے تو راستہ میں چارمینار تو پڑے گا ہی ۔ عوض سعید میرے لئے چارمینار ہی کی طرح ہے ۔ حیدرآبادمیں برسوں رہنے کے با وجود آج تک میں چارمینار کے اندر نہ جاسکا نہ اس کے اوپر۔ اس لئے کہ میں جانتا ہوں کہ تاریخی عمارت کیسے بنتی ہے اور شریف آدمی کیسے پیدا ہوتا ہے ۔ عوض سعید سے میری ملاقاتیں یا تو شاذؔ کے ہمراہ ہوئیں یا میرے اور عوض سعید کے مشترکہ دوست حفیظ قیصر کے ہمراہ۔
ایک زمانہ تھا جب مرحوم اورینٹ ہوٹل میں شاذؔ اور عوضؔ ایک دوسرے کے سائے کی طرح ساتھ رہتے تھے ۔ دونوں کے ہاتھوںمیں دو دو تین تین کیلو گرام وزنی رسالے ہوتے تھے ۔ ان موٹے مو ٹے رسالوں کو ہردم ساتھ اٹھائے پھرنے کا تعلق بظاہر علم سے کم اور جسمانی ورزش سے زیادہ دکھائی دیتا تھا ۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ دونوں ساتھ ساتھ رہنے کے باوجود تنہا بھی دکھائی دیتے تھے۔ اورینٹ ہو ٹل میں یہ دونوں اکثر الگ تھلگ بیٹھے رہتے تھے ۔ ان میں کیا تبادلہ خیال ہوتا تھا اس کا بھی پتہ نہیں چلتاتھا۔ خیال ہوتو تبادلہ بھی ہو۔ جب شاذ سے میری دوستی بڑھنے لگی تو ظاہر ہے کہ عوض سعید سے بھی ملاقاتیں بڑھنے لگیں۔ جب شاذ سے میری بے تکلفی بڑھی اور فقرہ بازی کی راہ نکل آئی تو دیکھا کہ عوض سعید کے پاس حس مزاح بھی ہے ۔ مجھ میں اور شاذ میں جب نوک جھونک چلتی تھی تو عوض سعید کا ہنسی کے مارے بُرا حال ہوجاتا تھا ۔ کبھی کبھی عوض سعید مجھ سے کہتا ’’یار تم بعض اوقات ٹو مچ کردیتے ہو‘‘۔ اور میں کہتا ’’عوض میں تو تھری مچ کرنا چاہتا ہوںاور تم ٹو مچ کو ہی ہضم نہیں کرسکتے‘‘۔ نہ جانے کیوں مجھے عوض سعید کی ہنسی اچھی لگتی تھی۔ اس لئے میں جان بوجھ کر ایسی باتیں کرنے کی کوشش کرتا تھا جس سے عوض سعید ہنستا ہی چلا جائے ۔ عوض سعید کو ہنسنے کا اتنا شوق نہیں تھا جتنا کہ مجھے اسے ہنستے ہوئے دیکھنے کا شوق تھا ۔ عوض کی ہنسی میں ایک ایسی روانی اور سلاست ہے کہ اس کی ہنسی ا یک اسلوب کی طرح نظر آتی ہے ۔ میں کبھی شاذ سے کہتا ’’یار عوض کی ہنسی میں جو روانی اور سلاست ہے اگر وہ اس کی کہانیوں میں بھی آجائے تو کیا کہنے‘‘۔ کبھی عوض سے کہتا ’’یار ! یہ کیا تم شاذ کے سٹیلائیٹ بنے پھرتے ہو۔ شاعری کو میں مفت خوری سمجھتا ہوں۔ چار پانچ غزلیں کہہ لیں اور مشاعروں کو لوٹنا شروع کردیا۔ اصل اہمیت تو نثرنگاری کی ہے۔ شاذ تمہاری طرح نثر لکھ کے دکھادے تو مانوں‘‘۔ میری پوری کوشش یہ ہوتی کہ عوض اور شاذ میں کسی نہ کسی عنوان کبھی نہ کبھی کوئی جھگڑا ضرور ہو ، مگر ان دونوں میں دوستی کا ایک اٹوٹ معاہدہ تھا ۔ نہ شاذ نے کبھی نثر لکھی اور نہ ہی عوض نے کبھی شعر کہا ۔ مفادات کا ٹکراؤ نہ ہو تو دوستی کی جڑیں اسی طرح مضبوط ہوجاتی ہیں۔ اگرچہ آج ہمارے اندر بھڑکنے والے شعلوں کی لویں دھیمی ہوچکی ہیں مگر پچیس تیس برس پہلے کوئی بات ایسی نہ تھی ، کوئی موضوع ایسا نہیں تھا جس کی طرف ہم نہ لپکتے ہوں۔ میں اپنے پرانے دوستوں کو اب بے بس ، مضحمل ، نڈھال اور پژمردہ پاتا ہوں تو کوئی حیرت نہیں ہوتی ۔ وقت کے چاک پر آدمی بالآخر اسی طرح کا کھلونا بن جاتا ہے ۔

بارِ الم اُٹھایا رنگِ نشاط دیکھا
آئے نہیں ہیں یوں ہی انداز بے حسی کے
عوض سعید کی کہانیوں کا پہلا مجموعہ ’’سائے کا سفر‘‘ چھپ کر آیا تو دوستوں میں اس پر طرح طرح کے تبصرے ہوئے ۔ کسی نے کہا ۔ یہ شاذ کے سائے کا سفر ہے ۔ کسی نے کہا یہ سائے کے سائے کا سفر ہے۔ عوض نے بڑے پیار سے اپنی پہلی کتاب مجھے دی تھی ۔ کچھ کتابیںایسی ہوتی ہیں جو ہاتھوں ہاتھ لی جاتی ہیں لیکن اب اردو میں کتابیں ہاتھوں ہاتھ دی جاتی ہیں۔ اس وقت تک عوض سعید افسانہ نگار کی حیثیت سے سارے برصغیر میں جانا جاتا تھا ۔ مجھے یاد ہے کہ اس کتاب میں تزئین کے نام پر ایک افسانے کی کتابت کچھ اس طرح کرائی گئی تھی کہ آدمی کو کئی پوز بدل کر اس افسانے کو پڑھنا پڑتا تھا ۔ اس افسانے کو پڑھنے میں ذ ہنی ورزش کم اور جسمانی ورزش زیادہ کرنی پڑتی تھی ۔ ایک بار میں نے عوض سے کہا تھا ۔ اگر کوئی آدمی اس افسانہ کو صبح میں روزانہ پانچ مرتبہ پڑھے تو اس سے اس کی صحت کبھی خراب نہیں ہوگی ۔ صحت مند ادب کی اس سے بہتر کوئی اور مثال نہیں ہوسکتی ۔ عوض نے نہایت سنجیدگی کے ساتھ میرے تبصرے کو داد کے طور پر قبول کیا تھا اور وعدہ بھی کیا تھا کہ وہ مستقبل میں بھی اسی طرح کے صحتمند افسانے لکھتا رہے گا ۔
عوض کم گو ، کم آمیز شخص ہے لیکن کسی سے دوستی کرتا ہے تو اسے نبھانا بھی جانتا ہے ۔ افسانہ نگار کی حیثیت سے وہ مجھے بہت پسند ہے ۔ اپنے ابتدائی افسانوں میں اس کی کوشش یہ ہوتی تھی کہ قاری کو چونکایا جائے ۔ چار پانچ سال پہلے اس کا ایک افسانہ پڑھ کر میں سچ مچ چونک گیا تھا کیونکہ اس میں اس نے قاری کو بالکل نہیں چونکایا تھا ۔ اس چونکنے پر مجھے ایک بات یاد آگئی ۔ کوئی بیس برس پہلے حفیظ قیصر نے ایک دن مجھے فون کرکے کہا۔’’ فوراً چلے آؤ مجھے عوض سعید کی ایک کہانی پڑھنی ہے ۔ ذرا میری مدد کرو‘‘۔ میں نے کہا ۔ ’’جو چیز تمہاری سمجھ نہیں آتی اسے کیوں پڑھتے ہو۔ ویسے عوض تمہارے محلے میں ہی رہتے ہیں انہی سے کہانی بھی سمجھ لو‘‘۔
حفیظ قیصر نے کہا ’’یار عوض کی کہانی خود عوضؔ کی سمجھ میں کہاں آتی ہے ؟ میں تو ایک اور سلسلے میں تمہاری مدد چاہتا ہوں‘‘۔
میں نے پوچھا ’’کیسی مدد؟‘‘

بولا ۔ ’’ میں کہانی پڑھتا رہوں گا ۔ تم مجھے مضبوطی سے پکڑے رہو تاکہ میں کہیں چونک نہ جاؤں۔ یار یہ عوض چونکاتا بہت ہے ۔ اکیلا اور نہتا آدمی تو اس کی کہانی پڑھ ہی نہیں سکتا ‘‘۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ مغنی تبسم کے زیر اثر عوضؔ نے قارئین کو چونکانے کا سلسلہ ترک کردیا ہے ۔ چاہے کچھ بھی ہو عوض اب کہانیوں کو کہانی کی طرح لکھنے لگا ہے۔

جب سے میں دہلی گیا ہوں عوض سے سال میں دو ایک مرتبہ ہی ملاقات ہوتی ہے ۔ وہ اکثر شکایت کرتا ہے کہ ’’یار تم حیدرآباد آتے ہو اور دوستوں سے ملے بغیر چلے جاتے ہو‘ ‘۔
میں کہتا ہوں۔ ’عوضؔ ! ادب سے قریب رہنے کیلئے میں اب ادیبوں سے دور رہنے کو ضروری سمجھنے لگا ہوں‘‘۔ پچھلے دو تین برس سے عوض کا تقاضہ ہے کہ میں صرف اس کیلئے تین چار گھنٹوں کا وقت نکالوں تاکہ وہ مجھ سے بات چیت کرے اور میرا خاکہ لکھ سکے۔
میں کہتا ہوں۔ ’’یار ! خاکہ ایسی چیز نہیں ہے کہ تم جس کا خاکہ لکھ رہے ہو اس سے بات چیت بھی کرو۔ خاکہ نگاری سے میرا بھی جائز یا ناجائز سا تعلق ہے ۔ جس کا خاکہ لکھتا ہوں اس سے خاکہ لکھنے سے پہلے بات چیت نہیں کرتا ۔ یہ اور بات ہے کہ خاکہ لکھنے کے بعد اس سے بات چیت خود بخود بند ہوجاتی ہے‘’۔
عوض کہتا ہے ’’نہیں یار ! خاکہ Authentic ہونا چاہئے ‘‘۔
میرا جواب ہوتا ہے ۔ ’’اور تم جس کا خا کہ لکھ رہے ہو وہ آدمی ہی Authentic نہ ہو تو ‘‘؟
عوض جھنجھلاکر کہتا ہے۔ ’’تم فضول بحث کرنے لگے جاتے ہو۔ تم میں اب تک سنجیدگی اور بُرد باری نہیں آسکی‘‘۔
عوض سعید کے خاکے میں نے نہایت ذوق و شوق کے ساتھ پڑھے ہیں۔ عوض سعید کے اکثر خا کے میں نے بہت پہلے پڑھے تھے بلکہ میں نے اُن خاکوں کو اس وقت پڑھا تھا جب عوض نے انہیں لکھا بھی نہیں تھا کیونکہ عوض نے جن شخصیتوں کے خاکے لکھے ہیں اُن سے میرے بھی مراسم رہے ہیں بلکہ پانچ تو ایسی شخصیتیں بھی ہیں جن کے خاکے میں نے بھی لکھے ہیں۔ اب عوض کے لکھے ہوئے خاکوں کا اپنے لکھے ہوئے خاکوں سے تقابل کرتا ہوں تو احساس ہوتا ہے کہ عوض سچ مچ Authentic خاکے لکھتا ہے ۔ اس کے تین خاکے جو وحید اختر ، عالم خوندمیری اور اوم پرکاش نرمل سے متعلق ہیں، وہ بے حد اچھے اور Authentic ہیں۔ عوض نے جس راست گوئی کے ساتھ یہ خاکے لکھے ہیں اُس پر رشک آتا ہے ۔ عوض کے خاکے پڑھ کر مجھے یہ اندازہ بھی ہوا کہ ایک ہی شخص کے بارے میں دو خاکہ نگاروں کا رویہ کتنا مختلف ہوتا ہے ۔ عوض سعید نے شہریار کے خاکے میں لکھا ہے کہ ’’شہریار یاروں کا یار ہے اور دشمنوں کیلئے اُپی ہوئی تلوار بھی ۔ وہ آپ کو تباہی کے آخری دہانے پر پہنچاکر خدا حافظ بھی کہہ سکتا ہے اور آپ کو سمندر میں ڈوبتا ہوا دیکھ کر چھلانگ بھی لگاسکتا ہے ‘‘۔ میں نے بھی شہریار کا ایک خاکہ لکھا ہے مگر شہریار کی شخصیت کے اس گوشے کی طرف میری نظر نہیں گئی حالانکہ شہریار میرا بھی قریبی دوست ہے ۔ اگرچہ وہ علی گڑھ میں رہتا ہے لیکن ہم دونوں ہر مہینے ملنے کا کوئی نہ کوئی بہانہ ڈھونڈ لیتے ہیں۔ یا تو میں علی گڑھ چلا جاتا ہوں یا شہریار دہلی آجاتا ہے ۔ پندرہ بیس برس سے یہ سلسلہ جاری ہے ۔ اتنی رفاقت کے باوجود مجھے شہریار کی شخصیت میں پوشیدہ اُپی ہوئی تلوار نظر نہ آسکی ۔ وہ تو بے حد مرنجان مرنج ، بے ضرر اور بے نیاز سا آدمی ہے ۔ دو تین برس پہلے شہریار واشنگٹن سے دہلی واپس پہنچا تو میں نے کہا ’’یار شہریار ! تمہاری وہ اُپی ہوئی تلوار کہاں ہے؟ ‘‘
شہریار نے کہا ’’بھئی کیا بتاؤں ۔ میں نے جس ایرلائنس میں سفر کیا تھا اس نے بڑی گڑبڑ کردی ۔ میرا سامان کسی اور جہاز میں سوار کروادیا اور مجھے کسی اور جہاز میں بٹھادیا۔ میرا سامان تو میرے ساتھ آیا ہی نہیں‘‘۔
میں نے کہا ۔ ’’تو کیا تم نے واشنگٹن میں کوئی تلوار بھی خریدی ہے۔ اگر ایسا ہے تو کسٹم والوں کے ہاتھوں تمہاری خیریت نہیں ہوگی ۔ شہریار نے کہا ’’ میں تو اپنے سارے سامان کو رو رہا ہوں اور تم نے تلوار کی رٹ لگا رکھی ہے ، میرا تلوار سے کیا تعلق ، میں تو طاؤس و رباب اول شمشیر و سناں آخر کا قائل ہوں۔ یہ تمہیں کیا ہوگیا ہے؟‘‘۔
میںنے عوض سعید کے خاکے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ’’میں تم سے سخت ناراض ہوں ۔ اتنی دوستی اور رفاقت کے باوجود تم نے ا پنی تلوار عوض سعید کو تو دکھادی لیکن مجھے نہیں دکھائی‘‘۔
شہریار نے ہنس کر کہا ۔ ’’جس کو جو چیز دکھانی ہوتی ہے وہی اس کو دکھاتا ہوں‘‘۔ میں نے شہریار سے کہہ رکھا ہے کہ چاہے کچھ بھی ہو میں تمہاری تلوار دیکھ کر رہوں گا اور شہریار نے بھی وعدہ کیا ہے کہ واشنگٹن سے جب اس کا سامان آجائے گا تو تلوار دکھادے گا۔ عوض سعید سے مجھے صرف ایک شکایت یہ ہے کہ اس نے شاذؔ تمکنت کا کوئی خا کہ نہیں لکھا ۔ میں نے ایک صاحب سے اس کمی کا ذکر کیا تو بولے ’’بھئی ! عوض نے شاذ کا خاکہ اسلئے نہیں لکھا کہ وہ شاذ کو بہت اچھی طرح جانتا ہے ‘‘۔
(1991)