عمیق ؔحنفی (1928-1985)

میرا کالم مجتبیٰ حسین
حیدرآباد میں عمیق ؔحنفی کے ایک دوست تھے مجاہد انصاری۔ وہ عمیق ؔحنفی کے کچھ اتنے ناقابل علاج مدّاح تھے کہ ہر دوسرے تیسرے جملے کے بعد کہتے ’’عمیق ؔحنفی بڑے قادرالکلام شاعر ہیں‘‘۔ اس میں کوئی کلام نہیں کہ میں بھی عمیق ؔحنفی کو قادرالکلام شاعر سمجھتا ہوں، لیکن قادرالکلامی کا مطلب یہ تو نہیں کہ ہر دوسرے تیسرے جملے کے بعد عمیق ؔحنفی کا ذکر کیا جائے۔ ایک دن بات کا رخ پھر عمیق ؔحنفی کی قادرالکلامی کی طرف ہونے لگا تو میں نے مجاہد انصاری کو ٹوکتے ہوئے کہا ’’میں بھی عمیق ؔحنفی کا قائل ہوں بلکہ تم انہیں صرف قادرالکلام شاعر سمجھتے ہو، میں تو انہیں’ عبدالقادرالکلام‘ شاعر سمجھتا ہوں‘‘۔ اس دن کے بعد سے انہوں نے پھر کبھی عمیق ؔحنفی کے سلسلے میں ’’قادرالکلامی‘‘ کو زحمت دینے کی کوشش نہیں کی۔
اس وقت تک میں بھی عمیق ؔحنفی کی چیدہ چیدہ نظمیں اور غزلیں مختلف رسالوں میں پڑھ چکا تھا مگر کبھی ’’قادرالکلامی‘‘ سے ملنے کی نوبت نہیں آئی تھی، البتہ تین چار برسوں میں ان کی ایک ہی مطبوعہ تصویر مختلف رسالوں میں مختلف اوقات میں نظر سے گزر چکی تھی۔ اور یہ تصویر کچھ ایسی تھی کہ اسے دیکھنے کے بعد عمیق ؔحنفی سے ملنے کو جی نہیں چاہتا تھا۔ یہ میں اس تصویر پارینہ کی بات کررہا ہوں جس میں عمیق ؔحنفی کا چہرہ داڑھی کی تہمت سے پاک تھا۔ ان کی تصویر کو دیکھ کر یوں معلوم ہوتا جیسے آپ جزیرہ نما عرب کے نقشے کو دیکھ رہے ہوں بلکہ غور سے دیکھا جائے تو اس میں کہیں کہیں عرب کا صحرا بھی صاف دکھائی دیتا تھا۔ بالکل سپاٹ سا چٹانی اور کرخت چہرہ۔ ویسے اب بھی عمیق ؔحنفی کے چہرے کے اس صحرا میں نخلستان کے اُگ آنے کے باوجود آپ ان کے چہرے کو دیکھیں تو نہ جانے کیوں جزیرۂ عرب کا خیال آجاتا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ داڑھی کے بغیر ان کا چہرہ عرب کے جغرافیے سے قریب تھا اور اب داڑھی کے بعد یہ عرب کی تاریخ اور تمدن سے قریب ہوگیا ہے اور تاریخ و تمدن کی چونکہ جغرافیہ سے زیادہ اہمیت ہوتی ہے، اس لئے ان کا چہرہ اب قابل قبول سا بن گیا ہے۔
مجھے یاد ہے کہ ۱۹۶۹ء میں دہلی ریڈیو اسٹیشن پر ’’قادرالکلامی‘‘ سے میری پہلی ملاقات ہوئی تھی۔ سلامؔ مچھلی شہری نے میرا تعارف ان سے کرایا تھا۔ وہ اس وقت عجلت میں تھے اور کہیں جارہے تھے۔ تعارف کے بعد قسمت میں ان سے مصافحہ کرنا تو لکھا ہی تھا مگر انہوں نے مجھ سے کچھ اس طرح مصافحہ کیا جیسے بجلی کے تار کو چھونے جارہے ہوں۔ ایک سیکنڈ میں مصافحہ کے نام پر وہ مجھے چُھوکر یوں چلے گئے جیسے واش بیسن میں انہیں اپنے ہاتھوں کو دھونے کی جلدی ہو۔ وہ اپنی اُن چھوٹی چھوٹی ٹانگوں کی مدد سے جو بڑی مشکل سے زمین تک پہنچ رہی تھیں تیز تیز چلتے ہوئے کمرے سے باہر نکل گئے۔ یہ تک نہیں کہا کہ ’’مجھے آپ سے مل کر بڑی خوشی ہوئی‘‘۔ یہ سب کچھ اس قدر آناً فاناً ہوا جیسا کہ عام طور پر بجلی کے شاک میں ہوتا ہے کہ میں بھونچکا سارہ گیا۔ سلامؔ مچھلی شہری نے میرے اندرونی تاثرات کو بھانپ کر ہنستے ہوئے کہا ’’انہیں لوگوں سے مل کر خوشی نہیں ہوتی‘‘ اور میں نے کہا ’’اور لوگوں کو بھی ان سے مل کر کہاں خوشی ہوتی ہے۔‘‘
پھر ہم ریڈیو اسٹیشن کی سیڑھیوں سے اُتر کر آنے لگے تو دیکھا کہ عمیقؔ حنفی اپنے پستہ قد کو زمین سے گھستے ہوئے چلے جارہے ہیں۔ پستہ قد لوگوں کو میں ہمیشہ مشورہ دیتا ہوں کہ وہ زمین پر کم سے کم چلیں۔ قدرت نے جتنا بھی قد دیا ہے اس کی جی جان سے حفاظت کریں۔ اگر خدانخواستہ یہ کثرت استعمال سے گھس گھسا گیا تو زمین پر آدمی کی بجائے ٹوپی چلے گی۔ غالباً اس بے لطف ملاقات کا نتیجہ تھا کہ جوں جوں انہیں دیکھتا گیا مجھے ان کی چال ڈھال میں مزاحیہ گوشے دکھائی دینے لگے۔ اگرچیکہ جانتا تھا کہ کسی کی جسمانی ساخت کا مذاق اُڑانا اچھے مزاح کا شیوہ نہیں ہے مگر میں تو اس وقت اندر سے جلا بُھنا تھا ۔ کبھی کبھی بیسویں صدی کے آدمی میں دو ہزار سال پہلے کا آدمی بھی تو جاگ پڑتا ہے۔

۱۹۷۲ء میں جب میں مستقل طور پر دہلی آگیا تو مجھے احساس تھا کہ دہلی میں ’’بجلی کا ایک شاک‘‘ بھی موجود ہے۔ قسمت کا کھیل دیکھئے کہ میں افسانہ نگار آمنہ ابوالحسن کے کرزن روڈ والے مکان میں رہنے لگا تو پتہ چلا کہ عمیقؔ حنفی کا گھربھی اسی روڈ پر ہے اور یہ کہ وہ مجھ سے Stone Throw فاصلہ پر رہتے ہیں۔ اس Stone Throw فاصلہ کو ناپنے کے لئے کبھی کبھی واقعی جی چاہا کہ پتھر پھینک کر تو دیکھوں کہ آیا یہ عمیقؔ حنفی کے لگتا ہے کہ نہیں۔ اب بھلا بتایئے ، یہ کیسے ممکن تھا کہ دو آدمی ایک ہی سڑک پر رہتے ہوں ، اور کبھی ان کا آمنا سامنا نہ ہو۔ یوں بھی دریا میں رہ کر مگر مچھ سے بیر رکھنا کوئی اچھی بات نہیں ہے۔
ابتداء میں کئی دنوں تک جب بھی مجھے سامنے سے ’’جزیرہ عرب‘‘ آتا ہوا دکھائی دیتا تو میں فوراً پنواڑی کی دکان پر سگریٹ خریدنے کے لئے چلا جاتا اور جزیرہ عرب کے گزرنے تک سگریٹ ہی خریدتا رہتا۔ لیکن ہر آدمی کی ایک قوت خرید بھی ہوتی ہے۔ ایک دن بالآخر ان سے ملنا ہی پڑا۔ البتہ احتیاط یہ برتی کہ مصافحہ نہیں کیا ۔ پھر ان سے بغیر مصافحہ والی باضابطہ ملاقاتیں ہونے لگیں اور رفتہ رفتہ مجھے ان سے مل کر خوشی ہونے لگی۔ میں یہ نہیں جانتا کہ انہیں بھی مجھ سے مل کر خوشی ہوئی یا نہیں۔ یوں بھی آج کی دنیا میں خوشی کے معاملے میں آدمی کو خودغرض ہونا چاہئے، دوسرے کی خوشی جائے بھاڑ میں ، مجھے کیا لینا دینا۔
مجھے ان تین برسوں میں عمیقؔ حنفی کو مختلف زاویوں سے دیکھنے کا موقع ملا ہے۔ شاعر عمیقؔ حنفی، تاریخ داں عمیقؔ حنفی، فلسفہ شناس عمیقؔ حنفی، ناقد عمیقؔ حنفی، ریڈیو کے فیچر نگار عمیقؔ حنفی، ہندی اور سنسکرت کے ماہر عمیقؔ حنفی، مذہب پرست عمیقؔ حنفی، سکیولر عمیقؔ حنفی، منہ پھٹ عمیقؔ حنفی، مقروض عمیقؔ حنفی، پریشان حال عمیقؔ حنفی، عجیب عمیقؔ حنفی، غریب عمیقؔ حنفی، جس شخص کی ذات میں اتنے سارے عمیقؔ حنفی ہوں ، اس سے ملتے ہوئے عموماً بڑی پریشانی ہوتی ہے۔ اکثر ایسا ہوا کہ میں شاعر عمیقؔ حنفی سے ملنے گیا تو دیکھا کہ مقروض عمیقؔ حنفی بیٹھے ہیں۔ کبھی ناقد عمیقؔ حنفی سے ملنے کے ارادہ سے نکلا اور ملاقات ہوئی مذہب پرست عمیقؔ حنفی سے ۔ غرض ایک آدمی کی ذات میں اتنے سارے آدمی بیٹھے ہیں کہ مجھے تو سالم عمیقؔ حنفی کچھ Over Populated سے لگتے ہیں۔

نشاۃ ثانیہ کے بعد عموماً اس قسم کے انسانوں کی نسل ناپید ہوتی جارہی ہے۔ غلطی سے دوچار پیدا ہوجاتے ہیں تو بالآخر لوگ ان کا بھی ’’عمیقؔ حنفی‘‘ بنا ڈالتے ہیں۔ ادب ، فلسفہ ، آرٹ، سیاست ، تاریخ، تنقید ، لسانیات اور مذہب کا شاید ہی کوئی ایسا شعبہ ہوگا جس کے بارے میں عمیقؔ حنفی ضروری اورغیر ضروری ، جائز اور ناجائز ، اہم اور غیراہم معلومات نہ رکھتے ہوں۔ آدمی جب ’’ریفرنس لائبریری‘‘ بن جائے تو پھر لوگ اس کے ساتھ وہی سلوک کرتے ہیں جو عموماً لائبریریوں کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ میرے اور عمیقؔ حنفی کے ایک مشترک دوست ہیں جنہیں ’’علم‘‘ حاصل کرنے کا نہ صرف شوق بلکہ ہو کا سا ہے۔ جب تک دہلی میں رہے، ہر دوسرے تیسرے دن میرے پاس آتے اور کہتے ’’چلو یار، آج ذرا عمیقؔ حنفی سے اکتساب علم کریں۔ تین دن سے دماغ میں ایک بھی نیا خیال نہیں آیا ‘‘۔ ڈیڑھ برس تک وہ دہلی میں رہے اور وہ وقفہ وقفہ سے عمیقؔ حنفی کے آگے زانوئے ادب تہہ کرتے رہے اور جب جانے لگے تو اپنا زانو اپنے ساتھ لے گئے اور ادب کو پھر عمیقؔ حنفی کے پاس چھوڑ گئے۔

بحیثیت شاعر میں عمیقؔ حنفی کو اس لئے پسند کرتا ہوں کہ وہ کبھی ملنے والوں کو اپنے شعر نہیں سناتے۔ دوسروں کی بات چھوڑیئے، مجھے شبہ ہے کہ وہ خود کو بھی اپنے شعر نہیں سناتے ہوں گے۔ ورنہ میں نے ایسے شاعر بھی دیکھے ہیں جو ’’السلام علیکم‘‘ کا جواب ’’عرض کیا ہے‘‘ سے دیتے ہیں۔ ان تین برسوں میں ایک واقعہ بھی مجھے ایسا یاد نہیں جب عمیقؔ حنفی نے خود سے اپنا کوئی شعر سنایا ہو۔ انہیں شعر سنانے پر آمادہ کرنے کے لئے عموماً وہی کچھ کرنا پڑتا ہے جو شیر کے شکار کے لئے شکاریوں کو خصوصاً شیر کے ساتھ کرنا پڑتا ہے۔ اسی لئے جب کبھی ان کی نظمیں سننے کا موقع ملتا ہے تو میں اکثر دوستوں سے کہتا ہوں ’’بھئی! ہم کل شکار پر گئے تھے ، عمیقؔ حنفی کی دو نظمیں مار لائے‘‘۔
عمیقؔ حنفی کی ایک اور خوبی یہ ہے کہ ہمیشہ غلط موقع پر صحیح رائے دیتے ہیں اور نتیجہ میں اپنے دشمنوں کی تعداد میں اضافہ کرلیتے ہیں۔ اس معاملے میں انہیں ایسا ملکہ حاصل ہے کہ اچھی خاصی فضاء کو اُن کی آن میں درہم برہم کردیتے ہیں۔ زندگی کے ۴۵ برس گزارنے کے باوجود انہیں نیک نامی حاصل کرنے کا یہ آسان گر نہیں آیا کہ ہمیشہ صحیح موقعہ پر غلط رائے دی جائے۔ اسی لئے بہت سے ادیب اور شاعر ان سے کبھی اپنے بارے میں ان کی رائے نہیں پوچھتے ۔ دور کیوں جایئے خود میرا شمار بھی ایسے ہی افراد میں ہوتا ہے۔ میں نے آج تک ان سے کبھی اپنے بارے میں رائے نہیں پوچھی، البتہ ایک بار جب میری کتاب چھپ کر آئی تو میں نے بالواسطہ طور پر ان کی رائے جاننے کے لئے ایک ترکیب نکالی اور ان سے خواہش کی کہ وہ اس کی رسم اجراء انجام دیں۔ انہوں نے رسم اجراء تو انجام دی مگر رائے ہرگز نہ دی ۔ ان کی تقریر میں ہر طرف تقریر ہی تقریر تھی۔ رائے بالکل نہیں تھی۔ ان کی تقریر میں سے رائے کو تلاش کرنا ایسا ہی ہے جیسے روئی کے ڈھیر میں سوئی کو تلاش کرنا۔

پھر بھی نے خدا کا شکر ادا کیا کہ انہوں نے میرے بارے میں کوئی رائے نہیں دی، یہی بہت بڑی بات ہے۔ ورنہ صحیح رائے دینے کے معاملے میں وہ نومسلموں کا سا جوش و حوصلہ رکھتے ہیں۔ ایک بار ایک افسانہ نگار نے انہیں اپنا افسانہ سنایا۔ افسانہ ختم ہوا تو افسانہ نگار نے عمیقؔ حنفی کی رائے پوچھی۔ عمیقؔ حنفی نے افسانہ نگار سے کہا ’’پہلے اپنا دایاں ہاتھ افسانہ کی دائیں جانب رکھئے اور پھر بایاں ہاتھ بائیں جانب رکھئے اور بائیں ہاتھ کو افسانہ سمیت اپنی طرف کھینچئے‘‘۔ عمیقؔ حنفی کی اس جیومیٹریکل رائے کا آسان مطلب یا ترجمہ یہ تھا کہ افسانہ کو پھاڑا جائے۔ اپنے سامنے بے چارے افسانہ نگار سے اس کے افسانہ کے پرزے پرزے کروائے، پھر از راہ احتیاط یہ بھی پوچھ لیا کہ کہیں تمہارے گھر میں اس کی فاضل کاپی تو نہیں ہے۔ نفی میں جواب ملا تو یوں مطمئن ہوگئے جیسے ادب پر سے ایک بہت بڑا خطرہ ٹل گیا۔

بہت سے شاعر اور ادیب ان کی شاعری اور علمیت سے متاثر ہوکر ان کے پاس اپنے کلام کے مجموعوں کے مسودے اس لئے بھیجتے ہیں کہ وہ ان پر مقدمہ لکھ دیں۔ پہلے یہ مسودے منگوالیتے ہیں۔ ان پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔ پھر مسودے کو ایسی محفوظ جگہ رکھ دیتے ہیں جہاں کسی کا ہاتھ نہ پہنچ سکے۔ بے چارے غرض مند شاعر اور ادیب بہت دنوں تک ان سے ’’مقدمہ‘‘ مانگتے ہیں، وہ انہیں نہیں دیتے، پھر آخر میں جب شاعر تھک ہار کر اپنا مسودہ مانگتا ہے تو وہ بھی اسے نہیں دیتے۔ میں نے بہت سے شاعروں کو ان کے گھر ’’مقدمہ‘‘ اور ’’مسودے‘‘ کے پھیر میں چکر لگاتے دیکھا ہے۔ بعض اوقات تو عمیقؔ حنفی کے قرض خواہوں اور مسودوں کی واپسی کے متمنی شاعروں میں تمیز کرنا تک دشوار ہوجاتا ہے۔ کیوں کہ دونوں کے مانگنے کا انداز ایک جیسا ہوتا ہے۔ اس معاملے میں عمیقؔ حنفی کا استدلال یہ ہے کہ ناقابل اشاعت کلام کو اگر ہر مقدمہ نگار ’’مقدمہ‘‘ کے اسٹیج پر ہی روک لے تو ادب میں اتنی افراتفری نہیں پھیلے گی۔