عدالت کے باہر معاملے کو رفع دفع کرنے کے لئے جنید کے گھر والوں پر گاؤں کی پنچایت کا دباؤ۔ والد کا بات ماننے سے انکار

متھر ا کی ٹرین میں جنید خان عمر15سال کی ہجوم کے ہاتھوں ہوئی مارپیٹ میں موت کا واقعہ ہوئے چار ماہ سے زائد عرصہ گذر چکا ہے‘ خاندوالی گاؤں کے سرپنچ نے جمعہ کے روز یہ کہا کہ’’ اس بات کی کوشش کی جارہی ہے کہ جنید کے گھر والو ں سے بات کرکے ملزمین کے متعلق جاری کیس میں عدالت کے باہر معاملے کو رفع دفع کردیا جائے تاکہ گاؤں میں امن برقرار رہ سکے‘‘ مگر جنید کے گھر والوں نے ہماری اس بات کا انکار کردیاہے۔

تقریبا تین ہفتے قبل خاندیوالی گاؤں کے پڑوس کی پنچایت متاثرین کے گھر والوں اور ملزمین کے درمیان میں بات چیت کے ذریعہ عدالت کے باہر ہی معاملے کو رفع دفع کرنے کے متعلق تبصرہ کیاگیا۔تمام چھ ملزمین پڑوسی گاؤں جیسے کھامبی‘ بھم راؤلا‘ اور پلوال سے تعلق رکھتے ہیں۔انڈین ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے خاندوالی کے 40سالہ سرپنچ نثار احمد نے کہاکہ’’ اس پنچایت میں بہت سارے سرپنچ ائے تھے وہ چاہتے تھے اس کا کوئی حل نکلے۔

ملزمین سے کہاجائے گا کہ وہ ہرجانے کے طور پر ایک بڑی رقم ادا کرے۔ اس کے ذریعہ گاؤں میں امن او ربھائی چارہ بھی قائم رہے گا ‘یہ پیغام ہم نے جنید کے والد کو دیا ‘‘۔جنید کے گھر والوں سے پنچایت میں شرکت کی دعوت دی گئی تھی مگر انہوں نے انکار کردیا۔پنچایت کے بعد احمد گاؤں کے دیگر بڑوں اور سابق سرپنچ ایاز احمد کے ہمراہ جنید کے گھر والوں کو اس بات کے لئے راضی کرنے کی کوشش کی کہ عدالت کے باہر ہی معاملے کو نمٹا لیاجائے۔

خان عمر 62سال نے کہاکہ ’’ ایک دوسرے سے ہماری کاروبار ہے ‘ ہم کام کے سلسلے میں ایک دوسرے کے گاؤ ں جاتے ہیں سماج ہی فیصلہ کردیتا ‘ اس کو بھی معاشی مدد ملی جاتی‘‘۔ جلال الدین اب بھی اپنے موقف پر قائم ہیں’’وہ کبھی معاملے داری ‘‘ نہیں کریں گے ۔ میں اس شخص کو کبھی معاف نہیں کرسکتاجس نے میرے ایک بیٹے کا قتل کردیا اور دوسرے کو بے رحمی کے ساتھ زخمی کیا۔

جب گاؤں والے میرے پاس ائے اور مجھ سے کہاکہ معاملے کو پنچایت پر چھوڑ دے وہ معاملے کا حل نکالے گا تو میں نے انکار کردیا۔ مجھے صرف عدالت پر بھروسہ ہے ۔ یہ بات جلال الدین نے انڈین ایکسپریس سے بات چیت کے دوران بتائی۔متاثر ہ خاندان کے ایک قریبی نے کہاکہ’’ ان لوگوں پر زبردست دباؤ بنایاجارہا ہے تاکہ عدالت کے باہر معاملے کو حل کرلیاجائے‘لوگ پڑوسی گاؤں والوں سے مخاصمت نہیں مول لینا چاہ رہے ہیں اور ساتھ میں انہیں ایک بچے کو کھونے کا خاندان پر کیا غم ہوتا ہے اسکو بھی نذ ر انداز کررہے ہیں‘‘۔ احمد نے کہاکہ’’ ہم صرف جلال الدین کی بھلائی کے پیش نظر یہ کام کررہے ہیں۔

اگر ملزمین کو عدالت سزا سناتی ہے تو ان گاؤں میں ہمارے اور ان کے درمیان میں کشیدگی بڑھے گی جہا ں سے ملزمین کاتعلق ہے اور ہم صرف امن چاہتے ہیں۔ جمعرات کے روز ہریانہ حکومت نے پنجاب او رہریانہ ہائی کورٹ کو بتا یا کہ جنید کے گھر والے ملزمین سے دو کروڑ روپئے اور تین ایکڑ زمین کے عوض معاہدے کے لئے تیار ہیں۔تاہم جنید کے گھر والوں نے حکومت کے دعوے کو مستر د کیااور کہاکہ یہ افواہ ہے او رہم پر دباؤ بنانے کا اقدام ہے‘ یہ اگر حقیقت ہوتی تو کیوں ہم سی بی ائی تحقیقات کا مطالبہ کرتے؟ میں اپنی آخری سانس تک یہ کیس لڑوں گی‘ میرے جنید سے متعلق کسی بھی معاملے میں دباؤ میں نہیں اؤنگی‘‘