عدالتی فیصلوں سے ملک کا خاندانی نظام متاثر ہورہا ہے۔ 

جماعت اسلامی ہند کی مجلس شوری کاتین روز اجلاس اختتام پذیر
نئی دہلی۔ جماعت اسلامی ہند کی مرکزی مجلس شوری کا تین روز اجلاس امیرجماعت اسلامی ہند مولانا سید جلال الدین عمری کی صدرات میں اختتام پذیر ہوا ۔اجلاس میں ملک او رملت کو درپیش مسائل ‘ عدالت عظمی کے بعض اہم فیصلے ‘ ملک میں بڑتی ہوئی لاقانونیت اور فرقہ وارانہ کشمکش‘ رام مندر کی تعمیر کو لے کر اشتعال انگیز بیان باز‘ آزادجمہوری اداروں میں سیاسی مداخلت اور غزہ پر اسرائیل کے حالیہ حملوں پر بہت تفصیل سے گفتگو ہوئی اور شوری نے درج ذیل قراردادیں منظور کیں۔

جماعت اسلامی ہند کی مرکزی مجلس شوری اس امر پر افسوس اور تشویش کا اظہار کرتی ہے کہ ملک کے عدالتی نظام نے اعلی ترین سطح پر بعض ایسے فیصلے کیہ جن سے اخلاقی بے راہ روی کے فروغ کا اندیشہ ہے۔

سرمایہ دارانہ نظام ‘ شہری مسائل‘ سادہ پرستانہ ‘ رحجانات‘ اباجیت کی تشہیر‘ نظام تعلیم کے بے سمتی‘اخلاقی قدروں کے بحران او رذرائع ابلاغ کی غیرذمہ دارانہ روش کی بناء پر پہلے ہی سے ملک میں ایسی فضاء موجود تھی ‘ جس سے خاندانی نظام متاثر ہورہا تھا۔ بدکاری اور فحاشی کے واقعات بڑھ رہے تھے اور خواتین پر زیادتیاں عام ہورہی تھیں۔

حالیہ عدالتی فیصلوں سے فضاء کے خراب تر ہونے کے کاامکان ہے۔ مسلمہ انسانی واخلاقی قدروں کی روشنی میں ہر مہذب سماج نے ہم جنیست کو ایک قبیح برائی قراردیا ہے اور قانون واخلاقی اقدامات کے ذڑیعہ اس برائی کو ختم کرنے کی کوشش کی ہے ۔

افسوس ہے کہ عدالت نے اس برے فعل کو قانونا جائز قراردیا ہے ‘ اگر وہ آپسی مرضی سے انجام پائے۔

مجلس شوری ملک کے باشعور حلقوں سے اپیل کرتی ہے کہ عوامی بیداری کے ذریعہ اس طرح کے مضر فیصلوں پر نظر ثانی کریں۔ مناسب قانون سازی کے ذریعہ ہم جنسیت کو دوبارہ جرم قراردیا جانا چاہئے۔ مناسب قانون سازی کے ذریعہ بدکاری کی ان تمام صورتوں کو جرم قراردیا جانا چاہئے۔

دوسری جانب جماعت اسلامی ہند کی مرکزی مجلس شوری کے اجلاس کو اس بات پر بڑی تشویش ہے کہ ملک کے آزاد جمہوری اداروں میں سیاسی انتظامیہ کی بارہ مداخلت بڑھتی جارہی ہے۔ ریزوربینک آف انڈیا کے معاملات میں مبینہ مداخلت کی خبریں بھی نہایت تشویشناک ہیں۔ اب تک یہ کہاجارہا ہے کہ حکومت کی نظر بنیک کے ریزرو اثاثوں پر ہے۔ اسی طرح کا معاملہ الیکشن کمیشن کاہے۔

اب ووٹنگ مشین ( ا ی وی ایم) پر شکوک شبہات تک ہی بات محدود نہیں رہی‘ یہ الزامات بھی بھی لگ رہے ہیں کہ اسمبلی انتخابات کی تاریخوں کااعلان برسراقتدار جماعت کے مفاد ات کو سامنے رکھ کر کیاجارہا ہے۔

چار سال کے بعد ابھی تک بھی لوک پال کا تقرر نہیں ہوسکا۔ ادھر جماعت اسلامی ہند کی مرکزی مجلس شور کا یہ اکلاس ملک میں بڑھتی ہوئی عدم روداری ‘ اشتعال انگیز بغض وعناد ‘ فرقہ وارانہ منافرت او رقانون شکنی پر اپنی گہری تشویش کا اظہار کرتا ہے۔

جیسے جیسے 2019کے پارلیمانی انتخابات کاوقت قریب آرہا ہے یہ مسئلہ تیز ہوتا جارہا ہے۔ حالیہ دنوں میں ایودھیا میں بابر ی مسجد کے مقام پر رام مندر کی تعمیر کو لے کر سنگھ پریوار سے وابستہ مختلف ذمہ داروں کے انتہائی اشتعال انگیز بیانات سامنے ائے ہیں۔

مجلس شوری مرکزی وریاستی حکومتوں کویہ باور کروانا چاہتی ہے کہ ملک میں امن وامان ‘ قانون کی حکمرانی اورفرقہ وارانہ ہم آہنگی کو قائم وبرقرار رکھنا حکومت کی ذمہ داری ہے ۔

بابری مسجد ۔ رام جنم بھومی قضیہ اس وقت سپریم کورٹ میں زیرتصفیہ ہے لہذا تمام لوگوں کو کورٹ کے فیصلہ کا انتظار کرنا چاہئے۔ پارلیمنٹ سے قانون بناکر رام مندر کی تعمیر کا مطالبہ غیر دستوری او رغیرائینی ہے ۔ مرکزی شوری کااحساس ہے کہ اس پوری ہنگامہ آرائی کا ایک مقصد عدالت پر اثرانداز ہونے کی کوشش بھی ہے