عدالتوں کا جھکاؤ دولت مندوں کی سمت

کلدیپ نیر
ایک پابند قانون شہری کی طرح مجھے بھی عدالتوں پر اعتماد ہے کہ وہ ہمارے ساتھ کی ہوئی غلطی کو درست کرتی ہیں ۔ ایمرجنسی کے دور کے سوائے میں نے کبھی دھوکہ نہیں کھایا ۔ جب کہ مجھے بغیر کسی وجہ کے گرفتار کرلیا گیا تھا ۔ دونوں ججوں نے میری بیوی کی حبس بیجا کی درخواست قبول کرلی اور مجھے رہا کردیا گیا ۔ میری رہائی کی وجہ یہ تھی کہ چونکہ میں کسی سیاسی پارٹی سے تعلق نہیں رکھتا تھا اور صرف ایک پیشہ ور صحافی کی حیثیت سے اپنا کام انجام دیتا تھا ۔ مجھے قید رکھنے کی کوئی بنیاد نہیں تھی ۔ لیکن دونوں ججس کو بہرحال سزا دی گئی ۔ سینئر جج ایس رنگاراجن کا سکم تبادلہ کردیا گیا اور جسٹس آر این اگروال کا تنزل ہوا ۔ انھیں سیشن کی عدالت بھجوادیا گیا جہاں سے انھیں دوبارہ ترقی ملی ۔ دونوں ججسوں کو آزادیٔ صحافت کی قربان گاہ پر قربان کیا گیا ۔ میں نے کبھی شبہ بھی نہیں کیا تھا کہ اثر و رسوخ یا دباؤ یا پیسہ کبھی انصاف کی راہ میں رکاوٹ بنے گا ۔ لیکن حالیہ دو فیصلوں نے مجھے ہلا کر رکھ دیا ہے ۔ قانونی عدالتوں پر سے میرا بھروسہ اٹھ گیا ہے ۔ پہلا مقدمہ اداکار سلمان خان کا ہے جنھیں جیل میں ایک منٹ بھی گذارے بغیر ضمانت پر رہا کردیا گیا ۔اور دوسرا مقدمہ جئے للیتا کا ہے جنھیں ٹاملناڈو کے چیف منسٹر کے عہدے سے مستعفی ہونا پڑا تھا۔ انھیں غیر متناسب اثاثہ جات رکھنے کے الزام سے بری کردیا گیا ۔ بے شک وکلاء نے اچھی طرح دلائل پیش کئے ہوں گے ۔ سلمان اور جئے للیتا دونوں ملک کے بہترین قانونی دماغوں کی خدمات حاصل کرسکتے ہیں ۔ لیکن ججس جنھوں نے ان مقدموں کی سماعت کی تھی ، انھیں تو انصاف کرنا چاہئے تھا ، استغاثہ چاہے کتنا ہی کمزور کیوں نہ ہو ۔
مجھے یہ کہتے ہوئے افسوس ہوتا ہے کہ ایسا نہیں ہوا ۔ ایسا اس لئے نہیں ہے کیونکہ وکلاء نے ججوں کو اچھی طرح قائل کیا تھا بلکہ اس لئے ہوا کیونکہ دیگر وجوہات پیش نظر تھیں ۔ مجھے یقین واثق ہے کہ اثر و رسوخ ، اگر پیسہ نہیں تو کارفرما رہا ۔ یہ مقدمات بالکل موزوں ہیں کہ انھیں خصوصی تحقیقاتی ٹیم (ایس آئی ٹی) کو جائزہ کے لئے سپرد کردئے جائیں اور وہ بھی سپریم کورٹ کی زیر نگرانی ۔ اگر سلمان اور جئے للیتا کے خلاف فیصلوں کو مان لیا جائے اور مزید پر کچھ نہ کیا جائے تو یہ انصاف کا خون ہوگا ۔

سلمان کا مقدمہ ہی لیجئے ۔ تحت کی عدالت اس نتیجہ پر پہنچی تھی کہ وہ نشہ کی حالت میں کار چلارہا تھا اور اس نے فٹ پاتھ پر سونے والوں کی جان لے لی ۔ یہ درست ہے کہ اسے پانچ سال کی سزائے قید سنائی گئی تھی کیونکہ قانون کے مطابق یہی اقل ترین سزا تھی جو جج سنا سکتا تھا ۔ تاہم ، اداکار کو ضمانت پر رہائی مل گئی اس سے بھی قبل کہ باقاعدہ ضمانت پر رہائی کی درخواست کی سماعت بامبے ہائیکورٹ میں سماعت کا آغاز ہوتا ۔ جج نے اسکی سنائی ہوئی سزا پر حکم التوا جاری کردیا جو سلمان کی اپیل کی سماعت کے تابع تھا ۔ درست ہے کہ یہ اختیار تمیزی ہے لیکن کیا وہ ایک عام شہری کے مقدمہ میں بھی ایسا ہی کریں گے ۔ مجرم کو جو بہت اہم شخصیت کا مقام حاصل ہے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جرم کے بارے میں اس نرم دل نقطہ نظر کی وجہ تھا ۔ میری خواہش ہے کہ جج مہلوکین کے یتیم ہوجانے والے خاندانوں کو بھی پیش نظر رکھتے ۔ انھوں نے 19 لاکھ روپئے سے زیادہ معاوضہ کی بھی سفارش نہیں کی جو سلمان نے شخصی طور پر جمع کروائے اور جو عدالت نے متاثرین کو 13 طویل برسوں تک حوالہ نہیں کئے ۔ یہ وہ مدت ہے جس میں مقدمہ مکمل ہوا ۔ سلمان کا اثر و رسوخ یا پیسہ کی طاقت مقدمہ کی تاخیر کے لئے موجود تھی ۔ ممکنہ حد تک اس میں تاخیر کی جاسکتی تھی اور پولیس اس میں آمادہ شراکت دار تھی ۔

پارلیمنٹ کو اس کا نوٹ لینا چاہئے اور اس بات کو یقینی بنانا چاہئے کہ قانون کا نظام سست رفتار سے اور نمائشی حرکت نہ کرے ۔ اس میں کوئی سیاست نہیں ہے ۔ صرف پیسہ کی وجہ سے فرق پیدا ہوا ہے ۔ یقیناً نظام ایسے طریقے اختیار کرسکتا ہے تاکہ متمول افراد جرائم کے ارتکاب سے باز رہیں اور بے داغ بری ہوجائیں ۔ ایسا ہوسکتا ہے بشرطیکہ ارکان پارلیمنٹ اپنے ضمیر کی آواز پر کارروائی کریں ، پارٹی وھپ کی پرواہ نہ کریں ۔ ایک استثنا جو میرے ذہن میں آتا ہے وہ سنجیوا نندا کا ’’مارو اور بھاگو‘‘ مقدمہ ہے ۔ طولانی طریقہ کار کے باوجود اور غیر معمولی تاخیر کے باوجود نندا کو مجرم قرار دے کر جیل بھیج دیا گیا ۔ اسکا باپ سابق سربراہ بحریہ تھا ۔ پھر بھی وہ سنجیو کو نہ بچاسکا ۔ اس کے برعکس سلمان اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتا ہے اور جیل جانے سے بچ جاتا ہے حالانکہ یہ دلیل دی جائے گی کہ اس کی سزا معطل کی گئی ہے ۔ ایک اور اداکار سنجے دت کے مقدمہ میں بہت زیادہ شور وغل ہوا کیونکہ اسے کئی بار پے رول پر رہا کیا گیا ۔
اب جئے للیتا کی برأت کی طرف آیئے ۔ یہ بھی مساوی طور پر حیرت انگیز ہے ۔ جیل میں وہ کتنے تزک و احتشام کے ساتھ تھیں اسکا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ۔ اسے دیکھا جاسکتا ہے اور عمارتوں اور دیگر قابل دید اشیاء کے اعتبار سے ان کا تخمینہ کیا جاسکتا ہے ۔ جج ملزم کو شک کا فائدہ دے سکتا ہے لیکن حقائق کی طرف سے اپنی آنکھیں بند کرلینا جانبداری ہے ۔ یہ رعایت کیوں ؟ یہ سوال راست طور پر کیا جاسکتا ہے ۔ فیصلہ میں کہا گیا ہے کہ جئے للیتا کی جملہ آمدنی 34 کروڑ 76 لاکھ روپئے تھی اگر 13 کروڑ 50 لاکھ اس میں غلطی سے اضافہ کردئے گئے اور اب انھیں منہا کردیا جائے تو آمدنی 21 کروڑ 26 لاکھ روپئے ہوگی ۔ لیکن جج نے تسلیم کیا ہے کہ جئے للیتا کے اثاثہ جات 37 کروڑ 59 لاکھ روپئے کے ہیں ۔ اب بھی 16کروڑ 32 لاکھ روپئے کا فرق رہتا ہے جو اثاثہ جات اور آمدنی کے درمیان ہے ۔ لیکن جج نے کہا کہ فرق صرف 2 کروڑ 82 لاکھ روپئے کا ہے جو مذکورہ بالا آمدنی سے 8.12 فیصد زیادہ ہے ۔ تاہم خصوصی وکیل استغاثہ کا کہنا ہے کہ 16 کروڑ 32 لاکھ روپئے مذکورہ بالا معلوم آمدنی کا 76 فیصد ہیں ۔ غالباً ضروریات کے لئے اخراجات میں کہیں کوئی نہ کوئی غلطی ضرور ہے جس کی اصلاح ہونی چاہئے ۔

یہ ناقابل تردید حقیقت ہے کہ عدلیہ کا نظام مالداروں کی سمت جھکاؤ رکھتا ہے ۔ دستور میں استصواب عامہ کی کوئی گنجائش موجود نہیں ہے ۔ پارلیمنٹ کو دخل اندازی میں شامل نہیں کیاجائے گا کیونکہ دونوں اہم سیاسی پارٹیاں کانگریس اور بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) بنیادی تبدیلیوں سے متفق نہیں ہوں گی ۔ ان کی حقیقی بنیاد اوسط طبقہ ہے ۔ وہ کسی زبردست تبدیلی سے متفق نہیں ہوگا ۔ سلمان اور جئے للیتا دونوں کے مقدمات نے ممکن ہے کہ پوری قوم کو ہلادیا ہو ۔ نریندر مودی حکومت کے ابھی چار سال باقی ہیں اس کی جملہ 5 سالہ میعاد میں سے ایک سال گذر چکا ہے ۔ چنانچہ قوم فی الحال معذور ہے ۔ اسے تازہ انتخابات تک انتظار کرنا ہوگا جو ممکن ہے کہ یکسر مختلف موضوعات پر لڑے جائیں گے ۔ اس کے باوجود چند تبدیلیاں کرنا ضروری ہے تاکہ نچلا نصف حصہ بھی جو مسائل کی یکسوئی تک رسائی کا حق رکھتا ہے اپنا حق حاصل کرسکے ۔