عام مشاہدے کی خاص تعبیر

ڈاکٹر مجید خان

وشاکھا سائیکیاٹرک سوسائٹی کی ایک دیرینہ درخواست تھی کہ میں اپنے تجربات پر مبنی ایک خطبہ وشاکھاپٹنم میں بھی دوں۔ تلنگانہ و آندھرا کے احتجاجوں کی وجہ سے میں جانے سے گریز کررہا تھا، مگر ان لوگوں کا اصرار بڑھتا گیا اور اکثر ممبران کی خواہش تھی کہ 2013ء ہی میں میں یہ عمل پورا کروں۔ خیر، ٹال مٹول کرتا رہا، مگر 28 دسمبر 2013ء کو مجھے جانا ہی پڑا۔ بڑی ہی دِلچسپ تقریب کا انھوں نے Novotel ہوٹل میں انعقاد کیا تھا۔ اطراف کے بہت سے ماہرین امراضِ نفسیات اس میں شریک تھے اور قرب و جوار کے کئی میڈیکل کالجوں کے نفسیات کے طلباء تو بڑے مشتاق نظر آرہے تھے۔ پرانے پروفیسرس جو مجھ سے شخصی طور پر واقف تھے، بہت ہی پُراثر انداز میں میرا تعارف کرایا۔ اس بہترین تعارف کے بعد مہمان مقرر یہ محسوس کرنے لگتا ہے کہ کیا میرا خطاب ان کی اُمیدیں پورا کرے گا۔ خطاب کے بعد سوالات و جوابات کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری رہا۔

حاصلِ محفل جس نے مجھے بے حد متاثر اور مسرور کیا تھا، وہ تھا اختتام پر سارا ہال ایستادہ ہوکر تعریف کی تالیاں بجانا۔ کسی بھی مقرر کے لئے یہ اس کی زندگی کے بہترین لمحات ہوا کرتے ہیں اور ساتھیوں اور عوام میں مقبولیت اور اس کا اجتماعی طور پر والہانہ اعتراف زندگی کا بہت بڑا اِنعام ہے جس کو میں نے پایا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے۔ ان لوگوں نے خاص طور سے میری رفیق حیات کو بھی مدعو کیا تھا۔ اور یہ بھی میزبانوں کے سچے جذبات اور خلوص کا ثبوت تھا۔ انتہائی پُرتکلف اور خوشگوار تقریب رہی اور اس کو بھولے نہ بھلا سکوں گا۔ مجھے اُمید اور یقین ہوگیا کہ ریاست کی تقسیم کے بعد بھی عام لوگوں کے تعلقات میں کسی قسم کی کدورت رہنے کے آثار نظر نہیں آرہے تھے۔

سب لوگوں کا یہ خیال ہے کہ تناؤ کی جو باتیں سیاستداں کرتے ہیں، اس میں صرف ان ہی کا مفاد مخفی ہوتا ہے۔مجھ سے خاص طور سے یہ درخواست کی گئی کہ نئی پود کے نفسیات کے طلباء کو میں مستقبل کی نفسیات کے تعلق سے نصیحت کروں۔ میں نے کہا کہ سب سے اہم کامیاب زندگی کا راز یہ ہے کہ آپ کا جس شعبہ سے بھی تعلق ہے، اس سے جڑی ہوئی مصروفیات میں نہ صرف دِلچسپی ہونی چاہئے بلکہ دِلی لگاؤ ہونا ضروری ہے۔ لوگ پیشے اختیار کرنے میں زندگیاں گزار دیتے ہیں، مگر اپنے کاموں میں کم سے کم دِلچسپی لیتے ہیں بلکہ اپنے کام سے بیزار بھی ہوجاتے ہیں۔ نفسیات کے مریضوں کی شکایات سن کر دوائیں تجویز کرنا مناسب طریقہ نہیں ہے۔ ان شکایتوں کے پس پردہ جو محرکات ہیں اور جو ماحول ہے، اس کو سمجھنا بڑا مفید ثابت ہوتا ہے۔

آج کل کے سائنسی طور پر ترقی یافتہ حلقوں میں امراض کی تشخیص کوئی مشکل مسئلہ باقی نہیں رہتا۔ بیماریوں کی علامات کا تو علاج ہوجائے گا، مگر مریض کی تشفی، صحت مندی اور نفسیاتی صحت مندی کے لئے ضروری ہے۔ اس کے علاوہ کسی شخص میں کسی مرض کے ہونے کے احتمال کو دماغ میں رکھنا ضروری ہے۔ معمولی معمولی مشاہدات بڑے معنی خیز ثابت ہوتے ہیں۔ میں نے کئی مثالیں دے کر اپنی حجت کو سمجھایا۔ اس کے بعد ہم اپنے کمرے میں بیٹھے ہوئے سمندر کے سماں سے محظوظ ہورہے تھے اور ہوٹل کے کئی مہمان چہل قدمی کے لئے سمندر کے کنارے کا رُخ کررہے تھے۔

پھر میں نے دیکھا کہ پگڈنڈی راستے سے ڈھلتی شام میں تین لوگ سمندر کے قریب ترین راستے کو دریافت کرنے کی کوشش کررہے تھے۔ آگے آگے ایک قدرے ضعیف، مگر انتہائی چُست و چالاک صاحب تھے اور ان کے پیچھے ایک موٹا سا نوجوان عمر تقریباً بیس یا پچیس برس آدھی پتلون میں ملبوس کڑکڑاتے ہوئے اور سہمے ہوئے زبردستی کے سامنے والے صاحب جو اس کے والد تھے یا ہوں گے، ان کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کررہا تھا۔ راستہ صاف نہیں تھا۔ جھاڑیاں تھیں، گڑھے کچھ برسات کے پانی سے بھرے ہوئے نظر آر رہے تھے ۔ بیٹے کو ہمت دِلا رہے تھے ہوں کہ فکر مت کرو ۔ ڈرو مت میں آگے چل رہا ہوں ۔ راستہ محفوظ ہی ہو تو تم آگے بڑھ سکتے ہو، مگر اس نوجوان روتی صورت کے کان میں موسیقی کے تار اس کے موبائیل سے جوڑے ہوئے تھے مشکل سے راستے پر وہ چل نہیں رہا تھا بلکہ موسیقی کے نشے میں بھی رقص کناں تھا۔ یعنی وہ اندھا دھند اُس راہ پر چلنے کے لئے تیار تھا جو اس کے باپ نے اس کے لئے کافی جدوجہد اور کوشش سے ہموار کی تھی ۔ والد کے سامنے جاکر راستہ نکالنے میں مدد کرنے کی بجائے وہ اپنی دلچسپیوں میں مست تھا۔ ماں کا رہنا اور نہ رہنا کوئی اہمیت کا حامل نہیں تھا ۔

وہ بیچاری خاموش تھی اور لڑکے کی ہمت کے لئے اس لئے بازو کھڑی ہوئی تھی دیکھنے کو یہ بڑا معمولی مشاہدہ تھا ۔ کوئی دوسرے لوگ اس پر غور بھی نہیں کئے ہوں گے۔ خود اس کے والد صاحب بھی اس معاملہ پر کبھی غور نہیں کئے ہوں گے ۔ اگر کئے ہوئے ہوتے تو اپنی اولاد کو نفسانی طور پر اتنا معذور نہیں بناتے‘ اس کے بے تحاشہ موٹے پن سے اُس کی اندھی محبت کا اظہار ہوتا تھا ۔ چونکہ تینوں ہی تھے تو یہ سمجھا جاسکتا تھا کہ ممکن ہو یہ اکلوتا ایک مجبور بیٹا ہو جو ایک آزدانہ زندگی گذارنے کا اہل نظر نہیں آرہا تھا، مگر غلطی رہبر و رہنما کی بھی ایسے کئی واقعات میں دیکھتا ہوں جن کی معنی خیز نفسیاتی تعبیر نکل سکتی ہو ۔ اور اگر بعد کوئی نفسیاتی مرض ان لوگوں میں پیدا ہو تو اُسکے ماحول اور تربیت کو سمجھا جاسکتا؟

اس چھوٹے سے سبق کو میں نے اپنی ہوٹل کی کھڑکی سے دیکھا ہے، سمجھنے کیلئے کسی ماہر نفسیات کی ضرورت نہیں پڑی ۔ ایسے کئی واقعات روز مرہ کی زندگی میں ہم دیکھتے ہیں جہاں پر ایک بہت زیادہ لاڈ و پیار کرنے والا پتا بچے کو بڑا ہونے نہیں دیتا ۔ اگر یہ اکلوتا ہو تو اور بھی قیمتی ہوجاتا ہے۔ والدین اپنی محبت میں اس کے غلام ہوجاتے ہیں اور مسلسل اُس کے محافظ بنے رہتے ہیں۔ اُس کو معمولی خطروں کا بھی سامنا کرنے نہیں دیتے ۔ ایسے بچوں میں نفسانی مدافعتی نظام ٹھٹھر کر رہ جاتا ہے ۔ والد اُس کے کافی محنتوں سے ایک خوشحال معاشی مقام پر پہنچے ہوں گے جہاں پر وہ تفریح کے لئے ایک پانچ ستارہ ہوٹل میں جشن منا رہے تھے ۔ لڑکا ممکن ہو دولت مند پیدا ہوا اور بڑا ہوا ۔ کمانے کے لئے محنت کی ضرورت کو وہ نہیں سیکھ سکا ۔ اب امریکہ کی تیسری پیڑھی کے بچوں کا حال سنیئے ۔ پہلی پیڑھی کی اولاد والدین کی نئے ملک میں جدوجہد سے واقف رہیں اور جانفشانی سے اعلی تعلیم حاصل کرنے کے وہ بہترین اور اعلی ترین عہدوں پر فائز ہیں مگر تیسری پیڑھی کا وہی حال ہے ۔ مقامی امریکی بچوں کا ہے ۔ ان بچوں میں وہ بھوک کامیابی کے منزلیں طے کرنے کی تمنا نہیں دیکھی جا رہی ہے ۔ اور اکثر والدین کے لئے ایک مسئلہ بنے ہوئے ہیں ۔

مگر اتنی لاچاری اور مجبوری میں لڑکیوں میں کم دیکھتاہوں اگر وہ والدین کی بہت زیادہ لاڈلی ہوں تو بات الگ ہے ورنہ عام طور پر لڑکیوں میں لڑکوں کے مقابلے احساس عدم تحفظ زیادہ ہی رہتا ہے ۔ لڑکیوں کے مستقبل کے بارے میں بچپن ہی سے یہ کہا جاتا ہے کہ شادی تک کی مہمان ہے اور پرائے گھر جانے والی لڑکی ہے ان لڑکیوں میں نفسیانی دماغی نظام کے نشوونما کا انحصار والدین پر نسبتاً کم رہتا ہے ۔ اُن کو دگرگوں حالات کا مقابلہ کرنے تیار کیا جانا اور ان کے دماغوں میں یہ بات بٹھائی جاتی ہے کہ والدین کی سرپرستی عارضی ہے۔ شوہر و سسرال میں کشمکش کرنی پڑتی ہے ۔ کوئی یہ طمانیت دلا نہیں سکتا کہ سسرال کا ماحول اور شوہر سسرال والے ہمدرد و چاہنے والے ہوں گے۔ والدین اور سسرال کا ماحول چونکہ جداگانہ ہوتا ہے اس لئے لڑکیوں میں بدلتے ماحول میں ڈھلنے کی صلاحیت پروان نہ چڑھے تو کشمکش، نفسیاتی روگ مثلاً سر کادرد ‘ چھوٹے دورے وغیرہ سے شروع ہوسکتے ہیں ۔