عائشہ میراں کیس : حیدرآباد ہائی کورٹ نے تازہ تحقیقات کرنے کا دیا حکم

حیدرآباد :۔ حیدرآباد ہائی کورٹ نے دس بعد آندھراپردیش کی فارمیسی کی طالبہ کا عصمت ریزی اور قتل کے معاملہ میں تازہ تحقیقات کرنے کا حکم دیا ہے۔چیف جسٹس رمیش رنگاناتھن کی نگرانی میں ایک ڈویژن بنچ منعقد کیا گیا۔جس میں رمیش رنگاناتھن نے پولیس کو ہدایت دی کہ وہ عائشہ میراں کے عصمت ریزی اور قتل کے کیس میں تازہ تحقیقات جاریہ سال کے اپریل تک داخل کریں۔ ستائیس دسمبر ۲۰۰۷ ؁ء میں ابراہیم پٹنم میں ایک ویمن ہاسٹل کے بیت الخلاء میں فارمیسی کی طالبہ عائشہ میراں کی عصمت ریزی اور قتل کیا گیا۔پچھلے سال ریاستی حکومت نے ایک تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی۔جو ہائی کورٹ کے خصوصی تحقیقاتی ٹیم میں کام کریگی۔اس تشکیل شدہ ٹیم میں ڈی آئی جی کے سربراہ سری کانت‘ایس آئی ٹی کے ڈی ایس پیز ڈی ہیماوتی ‘ اور انسپکٹر شیروالنسابھی شامل ہیں۔ہائی کورٹ نے ان تمام اراکین کو حکم دیا کہ یہ معاملہ پورا حل ہونے تک ٹرانسفر نہ ہونے کا حکم دیا۔

عائشہ میراں کے والدین کی جانب سے دائر کئے گئے رٹ پٹیشن پر کورٹ نے تازہ تحقیقات کا حکم جاری کیا۔یہ سنجیدہ کیس اس وقت ڈرامٹک ہوگیا جب کورٹ نے ملزم ستیم بابو کو بری کردیا۔بعد میں ایک نیچلی سطح کی عدالت نے ملزم بابو کو عمر قید کی سزا سنائی۔عائشہ کی والدہ نے ہائی کورٹ کے اس فیصلہ کا خیر مقدم کیا۔اور کہا کہ اصل مجرم آزادی سے گھوم رہا ہے ۔انہوں نے مزید کہاکہ اس کیس کے اصل مجرم کو چھپا نے کے لئے پولیس نے ایک معصوم نوجوان کو اس کیس میں گرفتار کرلیا ہے۔ذرائع کے مطابق عائشہ میرا ں ۲۰۰۷ ؁ء۷ دسمبر کی صبح ابراہیم پٹنم کے ایک ہاسٹل کے بیت الخلاء میں مردہ پائی گئیں تھیں۔پولیس نے ابتدائی تحقیق کے بعد یہ بیان دیا کہ ستیم بابو نے اس کی عصمت ریزی اور قتل کیا ہے۔

دس ستمبر ۲۰۱۰ ؁ء میں وجئے واڑہ میں مہیلا کورٹ نے ملزم کو عمر قید کی سزا سنائی۔بلا کسی جرم کے آٹھ سال جیل میں گذارنے کے بعد کورٹ نے اسے بری کرنے کے بعد وہ آزادی سے گھوم رہا ہے۔ہائی کورٹ نے ریاستی حکومت کو ستیم کے خلا ف غلط سزا سنانے کی پاداش میں ایک لاکھ روپئے ہرجانہ ادا کرنے کا حکم دیا۔اور ان پولیس عہدیداران کے خلاف کار روائی کرنے کا حکم دیا جس نے اس معاملہ کی تحقیقات کئے ہیں۔میرا کے والدین نے الزام لگا یا کہ ستیم بابو ایک دلت ہے۔اصل مجرم کو بچانے کے لئے چال چلی جا رہی ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ ریاستی وزیر کونیرو رنگا راؤ کے قریبی رشتہ دار اس جرم میں شامل ہیں۔