ظ۔ انصاری (1991-1925)

میرا کالم مجتبیٰ حسین
آٹھ نو مہینے پہلے اسی غالب اکیڈیمی کے ایک جلسہ میں ظ۔انصاری سے میری آخری ملاقات ہوئی تھی ۔ بہت خوشگوار موڈ میں تھے۔
میں نے پوچھا ’’دہلی میں کب تک قیام رہے گا ؟ ‘‘
بولے ’’اب تو مستقلاً دہلی میں ہی قیام فرمانے کا ارادہ ہے‘‘۔
پھر اپنی آواز کے مخصوص اُتار چڑھاؤ کے ساتھ سرگوشی کے انداز میں بولے ’’تمہیں یہ جان کر خوشی ہوگی کہ دہلی میں مجھے اپنا مکان مل گیا ہے ۔ دو چار دن بعد بمبئی جاؤں گا۔ مہینہ بھر میں وہاں سے اپنا سب کچھ سمیٹ کر یہاں آجاؤں گا‘‘۔
دوسرے دن انہوں نے مجھے فون کرنے کا وعدہ کیا تھا مگر اُن کا فون نہیں آیا ۔ ظ۔انصاری سے میری یہی آخری ملاقات تھی ۔ پچھلے چند برسوں میں جب بھی ان سے ملاقات ہوتی وہ یہی کہا کرتے تھے کہ وہ اپنی زندگی کے آخری دن دہلی میں گزارنا چاہتے ہیں۔ کچھ برس پہلے پنجابی باغ میں انہوں نے اپنا ایک مکان بھی بنوایا تھا مگر بعد میں پتہ چلا کہ انہوں نے اس مکان کو فروخت کردیا ہے۔
مجھے یاد ہے کہ ظ۔انصاری سے میری پہلی ملاقات کم و بیش پچیس برس پہلے حیدرآباد کے ہوائی اڈہ پر ہوئی تھی ۔ وہ کسی سمینار میں شرکت کی غرض سے حیدرآباد آئے تھے اور سمینار کے منتظمین نے میرے ذمہ یہ کام سونپا تھا کہ اُن کے حیدرآباد میں قیام کے دوران میں اُن کی دیکھ بھال کروں۔ اب جو میں نے اُن کی دیکھ بھال کرنے کی کوشش کی تو احساس ہوا کہ ظ ۔ انصاری ان لوگوں میں سے ہیں جنہیں کسی دیکھ بھال کی ضرورت نہیں ہوتی۔ وہ نہ صرف اپنی دیکھ بھال کے معاملہ میں خود مکتفی تھے بلکہ زندگی کے کئی معاملوں میں خود کفیل بھی تھے۔ حیدرآباد میں تین چار دن وہ رہے اور ہر گھڑی میری دیکھ بھال کرتے رہے۔
ظ۔انصاری سچ مچ خود ساختہ انسان تھے ۔ اُن کے ماں باپ انہیں ظلّ حسنین نقوی بنانا چاہتے تھے لیکن یہ ظ ۔ انصاری بن گئے ۔ اس وقت کا معاشرہ انہیں عربی اور فارسی کا عالم بنانا چاہتا تھا مگر ان دونوں زبانوں کے علاوہ روسی اور انگریزی کے بھی عالم بن بیٹھے ۔ قدرت انہیں جب محقق بنانا چاہتی تھی تو وہ صحافی بن جاتے تھے اور جب اُن کے صحافی بننے کا موقع آتا تھا وہ صاحب طرزانشاء پرداز ادیب بن جاتے تھے اور جب ادیب بننے کا مرحلہ آتا تو وہ استاد بن جاتے تھے ۔ظ۔انصاری نے اپنی شخصیت کو نہ جانے ایسے کتنے ہی سانچوں میں ڈھال رکھا تھا ۔ ظ۔انصاری ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے اپنی شخصیت اور کردار کی بھی تشکیل کیلئے قدرت کو کم سے کم زحمت دی اوراپنی محنت و لگن پر زیادہ سے زیادہ بھروسہ کیا۔
ظ۔انصاری اردو ادیبوں میں سب سے مختلف تھے۔ اُن کے رکھ رکھاؤ میں ایک عجیب سا بانکپن اور سجیلا پن تھا ۔ بات کرنے کا ڈھنگ ایسا انوکھا تھا کہ اُن سے اختلاف رکھنے والا بھی تھوڑی دیر کیلئے ہی سہی اُن سے اتفاق کرنے پر مجبور سا ہوجاتا تھا ۔ جب وہ محسوس کرتے کہ کوئی ان کی بات سے متفق نہیں ہورہا ہے تو وہ اپنے چہرے کے اتار چڑھاؤ ،آواز کے زیر و بم، آنکھوں کی چمک دمک اور ہاتھوں اور گردن کے پیچ و خم سے کچھ ایسا جادو جگاتے تھے کہ دیکھنے والا دیکھتا ہی رہ جاتا تھا ۔ میری ذاتی رائے یہ ہے کہ وہ جتنے بڑے ادیب ، محقق ، صحافی اور مقرر تھے اتنے ہی بڑے اداکار بھی تھے۔ ہم میں سے کتنے لوگ ہیں جو جب بات کرتے ہیں تو اپنے پانچوں حواس کو بروئے کار لاتے ہیں؟ ظ۔انصاری بات کرتے تو لگتا قدرت نے انہیں دس بارہ حواس سے نواز رکھا ہے۔
بات چاہے پرانی ہی کیوں نہ ہو اسے نئے ڈھنگ سے کہنے کا گُر ظ۔انصاری کو آتا تھا ۔ یوں بھی افلاطون اور ارسطو سے لے کر آج تک اس دنیا میں ایسی کونسی بات رہ گئی ہے جو پہلے نہ کہی جاچکی ہو ۔ ہمارے حصہ میں صرف یہی آیا ہے کہ ہم پرانی بات کو نئے ڈھنگ سے کہتے رہیں۔ اصغرؔ گونڈوی کا شعر ہے   ؎
سنتا ہوں بڑے غور سے افسانۂ ہستی
کچھ خواب ہے ، کچھ اصل ہے ، کچھ طرزِ ادا ہے
دنیا کے یہاں تک آتے آتے اب خواب بھی سارے پرانے ہوچکے ہیں بلکہ انہیں دیکھتے دیکھتے آنکھیں پتھرانے لگی ہیں۔ اصل کا راز بھی بہت سوں کو معلوم ہے ۔ اب اہمیت صرف طرزِ ادا کی ہی رہ گئی ہے بلکہ ہمارے لئے تو ادب اور آرٹ کی کل سچائی یہی ہے ۔ظ انصاری اپنی تحریر اور تقریر دونوں میں طرزِ ادا کے قائل تھے۔ وہ بولتے اور لکھتے تو لفظ نہ صرف کانوں میں سنائی دینے لگتا تھا بلکہ آنکھوں سے دکھائی دینے کے علاوہ زبان پر اس کا ذائقہ تک سمٹ آتا تھا ۔ جلد اس لفظ کے لمس کو اور ناک اس لفظ کی خوشبو تک کو محسوس کرنے لگ جاتی تھی۔ ظ۔ انصاری کے ناقابل تقلید اسلوب کا یہی کمال تھا ۔ ایسا اسلوب جس کی لذت کو محسوس کرنے میں انسان کے پانچوں حواس کو مصروف ہوجانا پڑے ، ہم عصر ادیبوں میں یہ کس کے حصہ میں آ یا ہے؟  یہ ظ۔انصاری کا ہی حصہ تھا ۔
اُن سے پچیس برس کے مراسم تھے ۔ سینکڑوں محفلوں میں ان کا ساتھ رہا ۔ ہندوستان کے کئی شہروں میں ساتھ ساتھ جانے کا موقع ملا۔ ہر جگہ اُن کی کلاہ کج کے بانکپن میں کوئی فرق نہ آیا ۔ وہ مجھے بہت عزیز رکھتے تھے اور اس کی وجہ شاید یہ ہو کہ اُن کی حس مزاح بہت تیز تھی ۔ شگفتگی و ظرافت اور شوخی اُن کے مزاج میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی ۔ مگر کسی سنجیدہ کام میں جُٹ جاتے تو مذاق کو اپنے پاس پھٹکنے نہیں دیتے تھے ۔ جن دنوں وہ امیر خسرو سوسائٹی کے سکریٹری تھے ۔ ان دنوں ان کی ہر بات حضرت امیر خسروؔ سے شروع ہوکر حضرت امیر خسرو پر ہی ختم ہوجاتی تھی ۔ اُن کا ایک لطیفہ مجھے یاد آرہا ہے جس کے راوی عزیز قیسی ہیں۔ ظ۔انصاری کو کسی تقریب کے سلسلے میں اورنگ آباد جانا پڑا ۔ وہاں انہوں نے اپنی تقریر کا آغاز اس طرح کیا ’’دوستو ! میں اورنگ آباد میں ہوں اور اورنگ آباد وہ جگہ ہے جہاں سے کبھی حضرت امیر خسرو گزرے تھے ۔ مجھے آج بھی اس شہر کی فضاؤں میں امیر خسروؔ کے گھوڑے کے ناپوں کی آواز سنائی دیتی  ہے‘‘۔
چند دنوں بعد انہیں مالیگاؤں کے ایک جلسہ میں جانے کا موقع ملا اور یہ بھی ایک اتفاق ہے کہ وہاں کی فضاؤں میں بھی انہیں حضرت امیر خسروؔ کے گھوڑے کی ناپوں کی گونج سنائی دی ۔ کچھ عرصہ بعد وہ مہاراشٹرا کے چھوٹے سے قصبہ دھولیہ کی ایک تقریب میں مدعو تھے۔ اتفاق سے یہاں بھی عزیز قیسی اُن کے ساتھ اسی طرح گئے جیسے حضرت امیر خسروؔ کے ساتھ اُن کا گھوڑا ۔ راوی کے مطابق ظ۔انصاری نے دھولیہ میں اپنی تقریر کچھ اس طرح شروع کی ’’دوستو ! اس قصبہ کا نام ہے دھولیہ اور کیا آپ یہ جانتے ہیں کہ اس قصبہ کا نام دھولیہ کیسے پڑا۔ دھولیہ دھول سے بنا ہے اور یہ دھول وہ دھول ہے جو حضرت امیر خسروؔ کے گھوڑے کے ٹاپوں سے اُڑی تھی۔ ‘‘۔
عزیز قیسی نے اچانک سامعین میں سے اُٹھ کر ظ۔انصاری سے کہا ’’ظ۔انصاری صاحب ! آپ پہلے حضرت امیر خسروؔ کے گھوڑے کا روٹ (Route) طئے کرلیں۔ آپ کا تو کچھ نہیں بگڑے گا، بے چارہ گھوڑا تھک جائے گا‘‘۔
بہت دنوں بعد دہلی کی ایک بے تکلف محفل میں میں نے یہ لطیفہ خود ظ۔انصاری کو سنایا تھا تو ظ۔ انصاری کا ہنسی کے مارے بُرا حال تھا ۔ ہنستے ہنستے آنکھیں بھیگ گئیں۔ اس لطیفہ کو کئی بار مجھ سے سنا اور بعد میں کئی دوستوں کو خود سنایا ۔ اپنے آپ پر ہنسنے کا فن انہیں خوب آتا تھا۔
ظ۔انصاری جب بھی دہلی آتے تو مجھے ضرور یاد کرلیتے تھے مگر میرے دوست شمس الزماں کے دہلی میں آباد ہوجانے کے بعد ان سے زیادہ تفصیلی ملاقاتیں ہونے لگیں۔ وہ شمس الزماں کے نہ صرف قائل تھے بلکہ قتیل بھی تھے ۔ شمس الزماں کی تحریک پر ہی اُن کی کتاب ’’ کانٹوں کی زبان ‘‘ کی رسم اجراء کی تقریب آرگنائزیشن آف انڈر اسٹینڈنگ اینڈ فرٹیرنٹی کے زیر اہتمام منعقد ہوئی تھی۔ یہ بھی ایک اتفاق ہے کہ اسی تقریب میں شمس الزماں سخت علیل ہوگئے اور انہیں محفل سے اُٹھاکر اسپتال پہنچانا پڑا۔
ظ۔انصاری جہاں اس تقریب کے کامیاب انعقاد سے خوش تھے وہیں شمسؔ الزماں کی علالت سے تشویش میں بھی مبتلا تھے اور میں نے انہیں ہنسی ہنسی میں باور کرایا تھا کہ شمس الزماں کی علالت کا اصل سبب اس کتاب کا نام یعنیٰ ’’کانٹوںکی زبان ‘‘ ہے۔ آپ کو اپنی زبان میں اتنے کانٹے نہیں رکھنا چاہئے تھا کہ شمس الزماں کی طبیعت خراب ہوجائے ‘‘۔
ظ ۔ انصاری کی کن کن باتوں کو یاد کروں۔ دس برس پہلے کا ایک اور واقعہ مجھے یاد آرہا ہے ۔ جامعہ ملّیہ کے ایک سمینار کے بعد ڈنر جاری تھا ۔ میں اور باقر مہدی ہاتھوں میں پلیٹیں لئے کھانے میں مصروف تھے ۔ ظ۔انصاری دور کھڑے کسی دوست سے ہم کلام تھے ۔ وہ اپنے مخصوص انداز اور لب ولہجہ میں دوست سے کہہ رہے تھے ’’بھائی ! بہت زندگی جی لی، بہت سنگھرش کیا ۔ اب تو یہی تمنا ہے کہ دس برس اور جی لوں تاکہ ذرا اطمینان اور سکون قلب کے ساتھ اس زندگی کو سمیٹوں جو اب تک آپادھاپی میں جی ہے ‘‘۔
اتنا سنتے ہی باقر مہدی اُن کی طرف لپکے اور اپنے مخصوص لہجہ میں کہنے لگے ’’یار دس برس! دس برس !! بہت زیادہ ہیں یار دس برس۔ اگر تمہیں معلوم ہو کہ تمہیں دس برس اور جینا ہے تو اور بھی بُرا لکھوگے ۔ اس مہلت کو کم کرو۔ ایمان سے‘‘۔
ظ۔انصاری نے بے ساختہ قہقہہ لگاتے ہوئے پوچھا ’’تو پھر تمہاری رائے میں مجھے اپنی زندگی کو سمیٹنے کیلئے کتنی مہلت درکار ہوگی‘‘۔
باقر مہدی بولے ’’پانچ برس کافی ہیں۔ پانچ برس کافی ہیں‘‘۔
ظ۔ انصاری بولے ’’اچھا بھئی چلو تمہاری خاطر پانچ ہی برس جی لیتے ہیں‘‘۔
باقرؔ مہدی بولے ’’تو پھر یہ وعدہ رہا۔ بعد میں وعدہ خلافی نہیں ہوگی‘‘۔ اس کے بعد باقر مہدی نے کئی دوستوں کے پاس جاجا کر کہا ’’یارو ! تمہیں ایک خوش خبری یہ سنانی ہے کہ ظ۔انصاری اب صرف پانچ برس تک ہمارے درمیان رہیں گے ‘‘۔
اس وقت سب نے اس بات کا مزہ لیا تھا لیکن پورے دس برس گزرجانے کے بعد اب یہ واقعہ مجھے یاد آرہا ہے تو احساس ہوتا ہے کہ قدرت نے سچ مچ ظ۔انصاری کی بات مان لی تھی ۔ وہ سچ مچ دس برس اور اس دنیا میں زندہ رہے۔ پتہ نہیں اس عرصہ میں انہوں نے اپنے آپ کو کتنا سمیٹا۔ سمیٹا بھی یا کچھ اور بکھر گئے۔ آج کے انسان کی زندگی کا المیہ ہی یہ ہے کہ وہ جتنا اپنے آپ کو سمیٹنا چاہتا ہے اتنا ہی بکھرتا چلا جاتا ہے۔
اردو کا وہ طرحدار اور بانکا ادیب ظ۔انصاری نام تھا جس کا ۔ اب ہمارے بیچ سے اُٹھ گیا ۔ وہ انوکھی اور تیکھی تیکھی باتیں کرنے والا اب ہمارے درمیان نہیں رہا ۔ ہم اردو والے اتنے بے حس ہوگئے ہیں کہ اس کی موت پر وہی رسمی سی باتیں کرتے رہ جائیں گے ۔ جیسے
ایک شمع رہ گئی تھی سو بھی خموش ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
کیا تیرا بگڑتا جو نہ مرتا کوئی دن اور
اور اگر آج وہ زندہ ہوتا اور اس محفل میں موجود ہوتا تو اپنے اچھوتے اسلوب کے ذریعہ اپنی ہی موت میں ایک نئی جان ڈال دیتا۔
(15 فروری 1991 ئ)