ظہیر الدین بابر

اولوالعزم اور فہیم و دانا حکمران جنہوں نے برصغیر پاک و ہند میں مغلیہ سلطنت کی بنیادڈالی

سعید حسین
آگرہ فتح کرنے کے بعد آگرہ کے قلعہ سے بہت بڑا خزانہ ملا تھا۔ اسی میں آٹھ متقال وزن کا وہ نہایت بیش قیمت الماس بھی شامل تھا جسے علاؤ الدین خلجی دکن سے لے کر آئے تھے۔ بابر کو آگرہ کا خزانہ پیش کیا گیا تو انہوں نے حکم دیا کہ اس میں سے مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ اور دیگر مقامات مقدسہ کے علمائے کرام اور مستحقین کو اس میں سے حصہ روانہ کیا جائے۔
ظہیر الدین بابر 6؍محرم 888ھ (14فروری 1483ء ) کو پیدا ہوئے۔ مفتی انتظام اللہ شہابی اکبر آبادی کے مطابق بابر کا اصلی نام ظہیر الدین تھا لیکن انہیں ’’بابر‘‘ یعنی ’’شیر‘‘ کہتے تھے۔ خانی خان (نظام الملک) نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ بابر کا نام ’’مرزا محمد بابر ‘‘ تھا، جب انہوں نے اپنے والد کی وفات کے بعد فرغانہ کی حکومت سنبھالی تو ’’ظہیر الدین محمد بابر بادشاہ‘‘ کے لقب سے تخت نشین ہوئے۔بابر کے والد کا نام عمر شیخ مرزا اور والدہ کا نام قتلغ نگار خانم ہے۔ دائرۃ معارف اسلامیہ کے مطابق والدہ کا نام قتلوک نگار خانم ہے جبکہ خانی خان نے اسے مہر نگار خانم لکھا ہے۔ بابر کا سلسلۂ نسب والد کی جانب سے تیموری (چغتائی) سلطنت کے بانی امیر تیمور سے، پانچویں پشت میں جاملتا ہے۔ بابر کی والدہ چنگیز خان کی نسل سے تھیں۔ بابر کا سلسلۂ نسب، والدہ کی جانب سے، چنگیز خان سے پندرھویں پشت میں جاکر ملتا ہے۔
بابر کے والد عمر شیخ مرزا سے قبل چغتائیوں (امیر تیمور کی نسل) اور منگولوں (چنگیز خان کی نسل) کے درمیان طویل عرصے سے کشاکش چلی آرہی تھی لیکن بابر کے دادا (امیر تیمور کے پرپوتے ابو سعید مرزا نے اس کشاکش کا خاتمہ کرکے باہمی روابط کے نئے دور کی بناڈالی۔ انہوں نے چغتائی خاندان کے فرماں روا یونس خان (جو تاشقند پر حکومت کررہے تھے) کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا۔ دونوں خاندانوں نے دیرینہ عداوتوں اور رنجشوں کو بھلادیا۔ یہاں تک کہ یونس خان نے اپنی تین بیٹیوں کی شادیاں ابو سعید مرزا کے تین بیٹوں سے کردیں۔ ان تین بیٹوں میں سے ایک عمر شیخ مرزا تھے جن کی شادی قتلغ نگار خانم (مہر نگار خانم) سے ہوئی۔ انہی خاتون نے بابر نام کے اس بچے کو جنم دیا جس نے بڑے ہوکر برصغیر پاک و ہند میں مغلیہ سلطنت کی بناء ڈالی۔بابر اس لحاظ سے بڑے خوش قسمت تھے کہ والد اور والدہ دونوں کی طرف سے انہیں بھرپور علمی سرپرستی میسر آئی تھی۔ والد عمر شیخ مرزا بھی اپنے آباء و اجداد اور خاندان کے دیگر بزرگوں، امیر تیمور، الغ بیگ، شاہ رخ کی طرح علم دوست انسان تھے۔ خود بابر نے اپنے والد کے بارے میں لکھا ہے کہ ’’وہ پانچوں وقت کی نماز پڑھتے تھے، بیشتر وقت قرآن پاک کا مطالعہ کرتے تھے۔ حضرت خواجہ عبید اللہ احرار ؒ (اس دور کے ایک بہت بڑے بزرگ) ان کو اپنا فرزند کہا کرتے تھے۔ خمسین (خمسۂ نظامی) اور خمسۂ خسرو) مثنوی (مثنوی جلال الدینؒ رومی) اور تاریخ کی کتابیں ان کے مطالعہ میں رہتی تھیں۔‘‘
بابر کی والدہ قتلغ نگار خانم بھی ایک ذہین اور قابل خاتون تھیں۔ بابر کے والد عمر شیخ مرزا نے ان سے شادی اسی وجہ سے کی تھی کہ قتلغ نگار خانم کے والد  یونس خان ایک باکمال اور ذی علم انسان تھے۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بابر، والد اور والدہ دونوں جانب سے ایک علمی خانوادے سے تعلق رکھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ بابر کی تعلیم و تربیت پر ابتداء ہی سے خاص توجہ دی گئی۔ خود بابر بھی بے حد ذہین اور زیرک انسان تھے۔ ان کے بچپن سے جوانی تک جن اساتذہ نے ان کو خصوصی تربیت دی، ان میں شیخ فرید بیگ، بابا قلی علی خدائی بیری بیگ او ر خواجہ مولانا قاضی عبداللہ شامل تھے۔بابر کی کتاب سے پتہ چلتا ہے کہ قرآن کریم، شیخ سعدیؒکی گلستان بوستان، فردوسی کی شاہ نامہ، نظامی اور خسرو کے خمسے، مولانا شرف الدین علی یزدیؒ کی ظفر نامہ اور ابو عمر منہاج الجوز جانی کی طبقات ناصری کی کتب ان کے مطالعہ میں رہیں۔ بابر کی مادری زبان ترکی تھی لیکن انہوں نے عربی اور فارسی کی بھی مکمل تعلیم حاصل کی۔ بابر نے ہوش سنبھالا تو سمرقند، فرغانہ، خراسان اور خصوصاً ہرات، علوم و فنون کے بے مثال مراکز بن چکے تھے۔ اس علمی فضاء میں بابر کو تعلیم و تربیت کے بہترین مواقع میسر آئے۔ پانچ برس کی عمر میں انہیں سمرقند بھیج دیا گیا تھا جہاں وہ 6برس تک زیر تعلیم رہے۔
اس زمانے میں مولانا عبدالرحمن جامیؒ بھی بقیدحیات تھے۔ گوکہ جب بابر نے حکومت سنبھالی تو مولانا جامیؒ وفات پاچکے تھے۔ یقین ہے کہ بابر نے مولانا جامیؒ کے علم سے بھرپور استفادہ کیا ہوگا کیونکہ اپنی تزک میں بابر نے مولانا جامی ؒ کا ذکر بڑی عقیدت سے کیا ہے۔بابر، شیخ الاسلام سیف الدین احمدؒ سے بھی بہت متاثر تھے جو شافعی مسلک سے تعلق رکھتے تھے۔ بابر کے الفاظ میں : ’’وہ بڑے پرہیزگار عالم تھے۔ ستر برس تک انہوں نے جماعت کی نماز ایک بار بھی ترک نہیں کی۔ ’’بابر، ملا شیخ حسن ‘‘ کے علم کلام کے بھی معترف تھے اور میر جمال الدینؒ محدث کے بھی بڑے قدردان تھے۔ ان کے بارے میں بابر نے لکھا : ’’خراسان میں علم حدیث کا جاننے والا ان جیسا کوئی نہ تھا۔‘‘ عربی ادب میں بابر، میر عطاء اللہ مشہدی کو پسند کرتے تھے اور علم فقہ میں قاضی اختیارؒ کو ستائش کی نظروں سے دیکھتے تھے۔ اس تذکرے سے ظاہر ہوتا ہے کہ بابر ایک وسیع المطالعہ اور ذی علم انسان تھے اور علم کے تمام اہم شعبوں سے انہیں گہری دلچسپی تھی۔بابر کو شعر و سخن سے بھی دلی لگاؤ تھا۔ انہوں نے اپنے دور کے بہت بڑے شاعر اور ماہر علم و فن علی شیر نوائی کی خدمات اور علمی کارناموں پر جو تبصرہ کیا ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اپنے ہم عصروں کی جانب سے کئے گئے علمی کام پر ان کی کتنی گہری نظر تھی۔ بابر نے دیگر کئی شعراء کے فن پر بھی تبصرے کئے ہیں۔ جس سے بابر کے مطالعہ کی وسعت اور تجزیہ کی غیر معمولی صلاحیت کا پتا چلتا ہے۔
دریائے جہلم کے کنارہ واقع شہر بھیرہ سے فوجی دستے گذر رہے تھے۔ کئی میل تک دریا کے کنارے پھیلی ہوئی پہاڑیوں کے دامن میں واقع شہر ہزاروں گھوڑوں کی ٹاپوں سے گونچ رہا تھا۔ ان گھوڑوں پر اسلحہ بردار چاق و چوبند فوجی سوار تھے۔ شہر والے اپنے اپنے گھروں میں دبکے ہوئے تھے۔ ان کی آنکھوں میں خوف کے سائے رقصان تھے کہ پتا نہیں کہ حملہ آور لشکر ان کے ساتھ کیا سلوک کرے گا۔ وہ دروازوں کی جھریوں سے جھانک جھانک کر گزرنے والی فوج کو سہمی ہوئی نگاہوں سے دیکھ رہے تھے۔لشکر کے وسط میں سپہ سالار کی شاندار سواری تھی۔ سپہ سالار مضبوط اور توانا بدن اور اوسط قد کا حامل ایک خوش شکل جوان تھا۔ ان کے چہرے اور انداز و اطوار سے محسوس ہوتا تھا کہ جیسے وہ ایک شائستہ، بامروت اور نرم خو لیکن پر عزم انسان ہے۔اچانک شہر کے ایک حصے سے کچھ چیخ و پکار کی آوازیں بلند ہونے لگیں۔ کچھ لوگ فریاد کررہے تھے۔ ان کی آوازوں میں لٹ جانے کا نوحہ تھا۔ بے بسی کا اظہار تھا۔ سپہ سالار نے فوراً حکم دیا کہ اس ہنگامے کا سبب معلوم کیا جائے۔بہت جلد سپہ سالار کو مطلع کیا گیا کہ ان کی فوج کے ایک حصے نے شہریوں کے ساتھ زیادتی کی ہے۔سپہ سالار کے خوب صورت چہرے پر طیش کے آثار نمودار ہوگئے۔ انہوں نے فوراً ان تمام سپاہیوں کو گرفتار کرنے کا حکم دیا جنہوں نے شہریوں کے ساتھ زیادتی کی تھی۔ کچھ ہی دیر میں تمام ’’ملزمان‘‘ حاضر کردیئے گئے۔ سپہ سالار نے ان تمام سپاہیوں سے پوچھ گچھ کی۔ انہوں نے شہریوں کے ساتھ زیادتیوں کا اقرار کرلیا۔
سپہ سالار نے حکم دیا کہ فلاں فلاں سپاہیوں کو سزائے موت دے دی جائے اور فلاں فلاں کی ناکیں کٹوادی جائیں اور ان فیصلوں کی پورے شہر اور فوج میں اچھی طرح تشہیر کردی جائے۔ تشہیر کا حکم اس لئے دیا گیا کہ آئندہ فوج کے کسی اعلیٰ ترین افسر کو بھی رعایا کے کسی فرد یا اپنے محکوم و مفتوح شہریوں یا دیہاتیوں سے کسی طرح کی زیادتی کی جرأت نہ ہوسکے۔یہ سپہ سالار تھے، برصغیر پاک و ہند میں مغلیہ سلطنت کے بانی عظیم حکمران ظہیر الدین بابر جو نہ صرف ایک اچھے سپہ سالار تھے بلکہ ایک ذی علم شخصیت، اچھے شاعر، خطاط اور علم و فن کے بڑے قدر دان بھی تھے۔بابر کے والد فرغانہ اور اندیجان پر حکمراں تھے۔ 889ھ (1494ء) میں وہ ایک حادثہ کا شکار ہو کر وفات پاگئے۔ ان کی وفات کے بعد بابر نے رمضان المبارک 899ھ (جون 1494ء) میں امراء کی تائید سے فرغانہ کی حکومت سنبھالی۔ اس وقت ان کی عمر صرف 12 برس تھی۔ نو عمر حکمران کے لئے یہ وقت بڑا کٹھن تھا کیونکہ اقتدار کے دعویدار بہت سے تھے۔ بابر کے ماموں سلطان محمود مرزا نے حصار کے علاقے سے اور چچا سلطان احمد مرزا نے سمرقند سے فوجی پیش قدمی کردی۔ بابر اندیجان چلے گئے کچھ دنوں بعد فریقین میں چند شرائط پر صلح ہوگئی۔ ربیع الاول 903ھ (نومبر 1497ء) تک بابر نے اپنے مخالفین پر قابو پاکر سمرقند پر بھی قبضہ کرلیا تاہم اپنے صدر مقام اندیجان میں سازش کے باعث انہیں سمرقند چھوڑنا پڑا۔ وہ اندیجان گئے اور سازش کا خاتمہ کیا۔
905ھ (1499ء) میں بابر نے فرغانہ کو اپنے اور بھائی جہانگیر مرزا کے درمیان تقسیم کرلیا۔ اسی سال بابر نے شادی کی۔ اگلے سال بابر نے سمر قند پھر فتح کرلیا جس پر ازبک حکمراں شیبانی خان نے قبضہ کرلیا تھا لیکن شیبائی خان نے رمضان 906ھ (مارچ، اپریل 1501ء میں بابر کو شکست دی۔ سامان رسد کی کمی کی وجہ سے بابر کو سمرقند چھوڑنا پڑا۔یہ بڑے جاں گسل لمحا ت تھے کیونکہ بابر کے لئے اب کہیں جائے پناہ نہ تھی۔ بابر اپنے مٹھی بھر ساتھیوں کے ہمراہ سخ اور ہشیار کے خانہ بدوشوں کے پاس پناہ گزیں رہے۔ آخر بابر نے فیصلہ کیا کہ انہیں کسی ایسے علاقے کا رخ کرنا چاہئے جس میں ازبک حکمرانوں کو دلچسپی نہ ہو۔ چنانچہ انہوں نے کابل کا رخ کیا۔ کابل جاتے ہوئے انہوں نے بدخشاں پر قبضہ کیا۔ کابل پر الغ بیگ مرزا (بابر کے چچا) کے ایک داماد محمد مقیم کی حکومت تھی، بابر کی آمد پر وہ قلعہ بند ہوگئے لیکن چند دن میں ہتھیار ڈال دیئے۔ بابر نے اس شہر کی حکومت سنبھالنے کے بعد شہر کو بڑی ترقی دی۔ یہاں باغات لگوائے، تعمیرات کروائیں اور نظم و نسق پر توجہ دی۔
911ھ (1505ء) میں بابر کی والدہ قتلغ نگار خانم کا انتقال ہوگیا۔ اسی زمانے میں بابر نے ازبکوں کے خلاف حسین بایقرا کی مدد کی۔ 912ھ (1506ء) میں بابر نے قندھار کا قلعہ فتح کیا پھر وہ خراسان کی مہم کے لئے تیاریاں کرنے لگے۔ ان ہی دنوں 913ھ (1507ء) میں بابر کے بیٹے ہمایوں کی ولادت ہوئی۔ ادھر شیبانی خان نے فارس کی صفوی حکومت کے بادشاہ اسمٰعیل صفوی کی سرحدوں پر چڑھائی کردی۔ اسمٰعیل صفوی نے جوابی کارروائی کی۔ ہرات کو تسخیر کرلیا۔ اسی زمانے میں بابر نے بدخشاں پر دوبارہ فوج کشی کی جہاں ازبک قابض ہوگئے تھے۔ بدخشاں فتح کرنے کے بعد بابر نے حصار، قندز اور بقلات پر قبضہ کیا اور پھر بخارا پر بھی تیموری پرچم لہرادیا۔ اس اثناء میں شیبانی خان نے قندھار پر بھی قبضہ کرلیا لیکن رمضان المبارک 916ھ (دسمبر 1510ء) میں شیبانی خان، مرو کے مقام پر شاہ اسمٰعیل صفوی کی فوجوں سے لڑتے ہوئے جاں بحق ہوگئے۔
اس کے بعد بابر نے رجب 917ھ (اکتوبر 1511ء) میں سمر قند پر قبضہ کرلیا، تاہم چونکہ شاہ اسمٰعیل صفوی نے ان کی مدد کی تھی، اس لئے بابر نے چاہا کہ ان کی فوج کی وردی بھی شاہ اسمٰعیل صفوی کی فوج کی وردی جیسی ہوجائے۔ اس تبدیلی کو سمرقند کے امراء نے پسند نہیں کیا۔ بابر کو صفر 918ھ (مئی 1512ء) میں ازبکوں سے ایک لڑائی میں شکست بھی کھانے پڑی۔ وہ کابل واپس چلے آئے۔اسی زمانے میں برصغیر (پاک و ہند) سے خبریں آنے لگیں کہ ہند کے فرماں روا سکندر لودھی کا انتقال ہوچکا ہے۔ ان کی جگہ ابراہیم لودھی کی حکومت قائم ہوگئی ہے اور امراء کے درمیان آئے دن جھگڑے ہورہے ہیں۔ بابر خود بھی 922ھ (1516ء) میں اٹک تک یلغار کی اور پنجاب کی سرحد پر کھکروں (گکھڑوں) اور دیگر مخالفین کی خبر لی۔ واضح رہے کہ قبل ازیں اس جانب کے کئی علاقے امیر تیمور نے فتح کئے تھے اور انہیں اپنی سلطنت میں شامل کرلیا تھا۔ بابر نے ان علاقوں کا نظم و نسق درست کیا۔دوسری بار بابر نے لاہور، ملتان اور سرہند تک پیش قدمی کی۔ ایک قلعہ اور کئی عمارتیں بنوائیں لیکن کابل سے تشویش انگیز اطلاعات موصول ہونے پر وہ واپس چلے گئے۔ تیسری بار بابر 626ھ (1520ء) میں سرہند تک بڑھتے چلے گئے لیکن قندھار کے بگڑے ہوئے معاملات کی وجہ سے انہیں واپس جانا پڑا۔    (باقی آئندہ)