طب یونانی کو حکومت کی توجہ کی شدید ضرورت

نعیم وجاہت
کہنہ امراض کا قابل اعتماد علاج کیلئے عالمی شہرت رکھنے والا طب یونانی حیدرآباد اور ریاست تلنگانہ میں حکومت کی توجہ کا محتاج بن گیا ۔ یہ کہنے میں کوئی مبالغہ نہیں ہوگا کہ ’’بیمار‘‘ ہوگیا ہے ، پھر بھی اس کا علاج ممکن ہے ،بشرطیکہ حکومت سنجیدہ ہو ۔ اردو ذریعہ تعلیم ہونے کی وجہ سے حکمرانوں نے اسے نظر انداز کردیا ۔ 40 فیصد سے زائد یونانی ڈاکٹرس کی مخلوعہ جائیدادیں ہیں ، مناسب فنڈز کی عدم اجرائی سے ادویات تیار کرنے کی مقدار بڑی حد تک گھٹ گئی ہے ۔ طب یونانی کی اہمیت کو گھٹانے میں اپنوں نے بھی کوئی کسر باقی نہیں رکھی ہے ۔ مجموعی طور پر طب یونانی انتہائی نازک دور سے گذر رہا ہے ۔ مسابقتی دور میں ماہرین طب نے ریسرچ کے ذریعہ کئی افراد کا علاج دریافت کیا ہے ۔ باوجود اس کے طب یونانی کا تمام ماڈرن میڈیسن میں اپنا ایک منفرد مقام ہے ۔ ماہرین طب یونانی نے اپنے دور میں مختلف امراض کا بغیر کسی مضر اثرات کے قابل اعتماد علاج دریافت کرتے ہوئے اپنی حکمت سے طب یونانی کا ساری دنیا میں لوہا منوایا ۔ جن کی خدمات طب یونانی پر بہت بڑا احسان ہے اور ساتھ میں ناقابل فراموش بھی ہے ۔ ماڈرن علاج کا بول بالا ہے ۔ اس کے باوجود طب یونانی کی انقلابی کامیابیوں کو دیکھتے ہوئے آصفیہ دور حکومت کے آخری بادشاہ میر عثمان علی خان نے طب یونانی کے علاج سے عوام کو فائدہ پہونچانے کیلئے موسی ندی کے دامن میں جہاں ایلوپیتھی علاج کیلئے عثمانیہ ہاسپٹل قائم کیا ، وہیں تاریخی چارمینار کے دامن میں یونانی شفاخانہ کا قیام عمل میں لایا ۔ جو آج نظامیہ طبی کالج و ہاسپٹل کی حیثیت سے شہرت رکھتا ہے ۔ 1938ء میں قائم کیا گیا یہ ہاسپٹل سارے ایشیا میں اپنی ایک علحدہ شناخت رکھتا ہے ۔ اس یونانی کالج سے فارغ التحصیل ہزاروں یونانی ڈاکٹرس ملک و بیرون ملک اپنے فن کے جوہر دکھاتے ہوئے طب یونانی کی ترقی اور فروغ میں چار چاند لگاچکے ہیں، مگر دوسرے میڈیسن کی بہ نسبت طب یونانی کو حکومت کی سرپرستی حاصل نہ ہونے کی وجہ سے یہ دیگر میڈیسن سے پیچھے ہوگیا ہے ۔ 77 سال قبل 180 بستروں پر مشتمل ہاسپٹل قائم کیا گیا تھا ۔ ہاسپٹل میں بستروں کی تعداد بڑھ کر لگ بھگ 1000 ہوجانا چاہئے تھا مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ شفاخانہ کے بیڈس میں ایک بیڈ کا بھی اضافہ نہیں ہوا ۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ عوام کا یونانی علاج سے بھروسہ اٹھ گیا ہو ۔ روزانہ ہاسپٹل سے 1000 تا 1200 افردا بحیثیت آوٹ پیشنٹ رجوع ہورہے ہیں ۔ ہاسپٹل کا عملہ ، ذمہ داران اور یونانی کی مختلف تنظیموں نے اس جانب حکومت کی توجہ دلائی مگر حکمرانوں نے ان کی نمائندگیوں اور تجاویز کو نظر انداز کردیا ۔ ماضی کی حکومت نے نظامیہ طبی ہاسپٹل کے بستروں کی تعداد کو 180 سے بڑھا کر 280 تک پہونچانے سے اصولی طور پر اتفاق کیا ہے مگر اس کے لئے نہ ہی بجٹ جاری کیا اور نہ ہی کوئی عملی اقدام کا آغاز کیا ہے ۔ حکمرانوں کے اس عمل کو طب یونانی کے ساتھ سوتیلا سلوک نہیں کہیں گے تو اور کیا کہیں گے ؟۔ حکومت ہی اس کی وضاحت کرے ۔ آزادی کے بعد ریاست میں جتنے بھی سرکاری ہاسپٹل قائم ہوئے انکے بستروں میں زبردست اضافہ کیا گیا مگر شفاخانہ چارمینار کو ہر لحاظ سے نظر انداز کیا جارہا ہے ۔ نظامیہ طبی کالج میں قیام سے 5 سال قبل تک بی یو ایم ایس کی صرف 50 نشستیں تھیں جس میں صرف 25 نشستوں کا اضافہ کرتے ہوئے 75 تک پہونچایا گیا اور ایم ڈی کی صرف 34 نشستیں ہیں ۔ یہ بات قابل غور ہے کہ حالیہ دنوں میں حیدرآباد میں العارف یونانی خانگی میڈیکل کالج قائم ہوا جس میں بی یو ایم ایس کی 100نشستوں کو منظوری دی گئی ہے ۔ نظامیہ طبی ہاسپٹل میں آج بھی فالج ، گردے کی پتھری ، یرقان ، بواسیر کے علاوہ دوسرے امراض کا کامیابی کے ساتھ علاج کیا جاتا ہے ، مگر حکمرانوں نے ہمیشہ طب یونانی سے ناانصافی کی جبکہ ہومیوپیتھی اور ایورویدک کی مکمل طور پر سرپرستی کرتے ہوئے نہ صرف اس کے بجٹ میں اضافہ کیا بلکہ تمام سہولتیں بھی فراہم کی ہیں ۔

تلنگانہ ریاست کی تشکیل کے بعد چیف منسٹر تلنگانہ چندر شیکھر راؤ نے حضور نظام کے دور کا احیا کرنے کا اعلان کیا ہے ۔ جس سے طب یونانی سے وابستہ افراد میں امید کی کرن پیدا ہوئی ہے ۔ 77 سالہ تاریخی یونانی ہاسپٹل و کالج چیف منسٹر تلنگانہ کے دورے کا منتظر ہے ۔ کیونکہ سارے تلنگانہ میں یونانی کے 130 ڈسپنسریز ہیں اور (این آر ایچ ایم) نیشنل رورل ہیلتھ مشن کے تحت بھی کچھ یونانی ڈسپنسریز خدمات انجام دے رہی ہیں ۔ حیرت کی بات ہے کہ گذشتہ 5 سال سے نظامیہ طبی کالج میں پرنسپل کا عہدہ مخلوعہ ہے ۔ یو جی لکچررس سے پی جی لکچرر کو ترقی دینے پر 18 لکچرار کے عہدے پر نئے تقررات کے لئے جائیدادیں مخلوعہ ہوں گی ۔ 6 سال سے سرجن کا عہدہ مخلوعہ ہے ۔ جس کی وجہ سے آپریشن کا کام کاج ٹھپ ہو کر رہ گیا ہے  ۔قبل ازیں میٹرنٹی وارڈ میں روزانہ 10 تا 15 ڈیلوریز ہوا کرتی تھیں جو اب گھٹ کر مہینے میں 10 تا 15 ڈیلوریز ہورہی ہیں ۔ ان سب کیلئے ذمہ دار کون ہے ؟۔ چیف منسٹر کے سی آر کی ذمہ داری ہے کہ اعلی عہدیداروں کا ہنگامی جائزہ اجلاس طلب کرتے ہوئے طب یونانی کے مسائل کو حل کرنے کے لئے عملی اقدامات کریں ۔ نظامیہ طبی کالج و جنرل ہاسپٹل کی تاریخی قدیم عمارت بوسیدہ ہوگئی تھی ، کانگریس کے دور حکومت میں بحیثیت چیف منسٹر کرن کمار ریڈی نے 3.5 کروڑ روپئے داغ دوزی کیلئے جاری کئے تھے ، جس کا کام جاری ہے ۔ مگر تمام کام کی تکمیل کیلئے مزید 2 کروڑ روپئے کی اجرائی ضروری ہے ۔ تاریخی یونانی ہاسپٹل اور کالج کے اور بھی کئی مسائل ہیں جس پر فوری توجہ نہیں دی گئی تو طب یونانی کا بہت بڑا نقصان ہوگا ۔ یونانی ہاسپٹل سے ایورویدک ہاسپٹل کی منتقلی کا بھی لمبے عرصے سے تنازعہ چل رہا ہے ۔ 1998 کو حکومت نے جی او ایم ایس نمبر 7 جاری کرتے ہوئے آیورویدک ہاسپٹل کو سردار محل منتقل کرنے کا اعلان کیا تھا ،لیکن اس پر آج تک عمل آوری نہیں ہوئی ، حالانکہ 2005 میں یونانی کے طلبہ نے 70 دن تک بھوک ہڑتال کرتے ہوئے آیورویدیک ہاسپٹل کو منتقل کرنے کا مطالبہ کیا تھا ۔ لیکن آج تک اس تنازعہ کو حل نہیں کیا گیا  ۔ آیورویدیک ہاسپٹل ایرہ گڈہ میں قائم کیا گیا ہے اس کے باوجود اس کو یونانی پاسپٹل کے احاطے سے منتقل نہیں کیاگیا ۔ 16 اکتوبر کو آیورویدیک والوں نے قدیم عمارت کے ایک حصہ کو منہدم کرتے ہوئے نئی عمارت تعمیر کرنے کی کوشش کی تھی تاہم طلبہ اور یونانی تنظیموں کے احتجاج کے بعد تعمیری کام کو روک دیا گیا ۔
نارائن گوڑہ پر سرنظامت جنگ یونانی ہاسپٹل کے لئے مختص کردہ اراضی پر حکومت کی جانب سے بی سی بھون تعمیر کیا گیا جس کے خلاف اس وقت کی اے پی یونانی میڈیکل آفیسرس اسوسی ایشن نے ہائیکورٹ میں حکومت کے فیصلے کو چیلنج کرتے ہوئے یونانی کے حق میں فیصلہ کرانے میں کامیاب ہوئی تھی ، حکومت نے ہائیکورٹ کے فیصلے کو قبول کرتے ہوئے 120بستروں پر مشتمل یونانی ہاسپٹل قائم کرنے سے اتفاق کیا تھا  ۔ پلاننگ کا تعمیری کام تقریباً مکمل ہوچکا ہے ۔ جس پر 3.5 کروڑ روپئے خرچ کئے گئے ہیں تاہم انفراسٹرکچر ڈپارٹمنٹ اس عمارت کو گذشتہ 8 سال سے اپنی تحویل میں رکھا ہے ۔ ابھی تک تعمیر مکمل نہیں ہوسکی ہے اور نہ ہی طب یونانی کے حوالے کیا گیا ۔ جس سے طب یونانی کا نقصان ہورہا ہے ۔ اگر یہ عمارت جلد از جلد طب یونانی کے حوالے کی جاتی تو پرانے شہر میں ایک اور نئے شہر میں ایک یونانی سرکاری دواخانہ عوام کیلئے اپنی خدمات پیش کرے گا ۔ حکومت تلنگانہ بالخصوص چیف منسٹر تلنگانہ اس جانب خصوصی توجہ دیں ۔ وزیر صحت ، ہیلتھ سکریٹری کے علاوہ دوسرے اعلی عہدیداروں کا اجلاس طلب کرتے ہوئے نئے یونانی ہاسپٹل کے آغاز کا اعلان کریں ۔
واضح رہے کہ چیف منسٹر نے یادگیری گٹہ اور ویملواڑہ منادر کیلئے فی کس 100 کروڑ روپئے کا اعلان کیا ہے ۔ ماہ رمضان کیلئے جہاں 26 کروڑ کا اعلان کیا تھا وہیں بتکماں تہوار کیلئے 10کروڑ روپئے جاری کئے ۔ جبکہ طب یونانی ایک قدیم علاج ہے جس سے ہر مذہب و طبقہ کے افراد استفادہ کرتے ہیں ۔ طب یونانی کو ترقی دینا اور اسکی حوصلہ افزائی کرنا حکومت تلنگانہ کی ذمہ داری ہے ۔ اگر چیف منسٹر عملی اقدامات کرتے ہیں تو طب یونانی کو ترقی ہوگی اور عوام کو بھی یونانی کی طبی سہولتیں میسر ہونگی ۔ ورنہ ٹی آر ایس حکومت کا شمار بھی ماضی کی کانگریس اور تلگودیشم کی حکومتوں میں ہوگا جہاں طب یونانی کے ساتھ مکمل ناانصافی کی گئی ۔

ایک ضروری بات یہ بھی ہے کہ جس طرح مثل مشہور ہے ’’اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے‘‘ ۔ یہ مثال طب یونانی سے تعلق رکھنے والوں پر صادر ہوتی ہے کیونکہ طب یونانی کی تعلیم حاصل کرتے ہوئے ڈگریاں حاصل کرنے والے ڈاکٹرس یونانی کے بجائے ایلوپیتھی کی پریکٹس کررہے ہیں اور طب یونانی کو فروغ دینے کیلئے ذمہ دارانہ رول ادا کرنے میں ناکام ہیں ۔ علاوہ ازیں طب یونانی کی کئی تنظیمیں ہیں اور سب اپنے آپ کو یونانی کے چیمپئن قرار دیتے ہیں ، مگر ان تنظیموں اور قائدین میں رابطہ اور تال میل کا فقدان ہے ۔ جو طب یونانی کے زوال کا موجب بن رہا ہے ۔ طب یونانی کو ترقی دینے کیلئے سب مل کر حکمت عملی تیار کرنے کی بجائے آپس میں ایک دوسرے سے لڑتے جھگڑتے ہوئے مسائل کو حل کرنے کی بجائے اس کو مزید پیچیدہ بنارہے ہیں ۔ اس کے لئے سب برابر کے ذمہ دار ہیں ۔ طب یونانی سے وابستہ افراد میں اتحاد نہ ہونے کا مخالفین یونانی اور سرکاری مشنری بھرپور فائدہ اٹھارہے ہیں ۔ اور پھوٹ ڈالو راج کرو کی پالیسی اپناتے ہوئے انھیں آپس میں اتنا لڑارہے ہیں کہ وہ اپنے مسائل کو لیکر حکومت یا اعلی عہدیداروں تک پہنچ نہ سکیں ۔ اگر طب یونانی کے طلبہ اور تنظیموں میں اتحاد ہوجائے تو حکومت کے علاوہ بڑی سے بڑی سیاسی طاقت ان کے سامنے جھکتی ہے ۔ مگر انھیں اسکا اندازہ نہیں ہے ۔ طب یونانی کی حفاظت کرنا تمام طب یونانی سے وابستہ افراد کی ذمہ داری ہے ۔ ابھی بھی وقت ہے  ۔ ورنہ لمحوں کی خطا اور صدیوں کی سزا ثابت ہوگی ۔