صفی اورنگ آبادی

ڈاکٹر سید بشیر احمد
صفی اورنگ آبادی کا شمار ان کے عہد کے ممتاز شعراء میں ہوتا ہے ۔ انہوں نے اردو شاعری میں وقیع اضافہ کیا ہے ۔ وہ 14 فروری 1893 کو جونابازار اورنگ آباد میں پیدا ہوئے ۔ ان کے والد حکیم منیر الدین اورنگ آبادی نے ان کا نام بہاء الدین رکھا تھا لیکن صفی نے اپنا نام بہبود علی پسند کیا اور اس نام سے شہرت پائی ۔ ان کا یوم پیدائش پیر تھا ۔انہوں نے اسی مناسبت سے استفادہ کرتے اپنے مسلک کا اظہار اس طرح کیا ؎
کون بے پیرا کہے گا اے صفیؔ
روز پیدائش میرا پیر ہے
صفی کے والد حکیم منیر الدین اورنگ آبادی آصف سادس کے دور حکومت میں بیوی اور دو چھوٹے بچوں پر مشتمل مختصر خاندان کے ساتھ اورنگ آباد سے نقل مکانی کرکے حیدرآباد تشریف لائے ۔ ان کو حیدرآباد کچھ اتنا پسند آیا کہ انہوں نے حیدرآباد ہی کو وطن مالوف بنالیا ۔ اپنے والدین کے ساتھ جب صفی حیدرآباد پہنچے تو ان کی عمر سات برس تھی ۔ ان کی ابتدائی تعلیم مدرسہ نظامیہ میں ہوئی جہاں قیام و طعام کا مفت انتظام تھا۔ افسوس کہ ان کی تعلیم ادھوری رہی ۔ والدہ کے بے وقت انتقال اور والد کے عقد ثانی کی وجہ سے صفی شاعری کے علاوہ کسی اور میدان میں جوہر نہیں دکھاسکے ۔ انہوں نے مدرسہ طبیہ میں داخلہ لیا اور طبی نصاب کی تکمیل کی لیکن شریک امتحان نہ ہوسکے ۔ اس طرح زندگی کے مختلف مراحل میں ادھورے پن کا شکار رہے ۔

صفیؔ اورنگ آبادی اپنے آپ پر طنز کرتے ہوئے کہتے ہیں۔
صفیؔ بھی اب گنا جانے لگا نازک مزاجوں میں
نہیں معلوم کیا کرتا اگر ظالم حسین ہوتا
صفیؔ اپنے ایک شعر میں اپنی نازک مزاجی کا اعتراف کرتے ہیں مگر ساتھ ساتھ زمانے کی ناقدری کا شکوہ بھی۔
صفیؔ کے کام میں خوبی کہاں سے آئیگی
بُرا مزاج تھا پھر برا زمانہ ملا
صفیؔ ہر حال میں راضی بہ رضا رہنا پسند کرتے تھے۔
شکر ہے دل اس نے دیا اے صفیؔ
اور نہایت خوش و خرم دیا
صفیؔ کی زندگی میں شاعری اور مئے نوشی دو اہم مشاغل تھے ۔ غروب آفتاب کے ساتھ مئے نوشی کا سلسلہ شروع ہوتا ۔ شراب کے تعلق سے صفی کہتے ہیں ؎
اتنی شوخی صفیؔ کسی میں کہاں
رنگ میں رنگ تو شراب کا رنگ
شیخ صاحب زندگی پانی سے ہے
آدمی کو چاہئے پینا بہت
شام آئی میرے ساقی جامِ شراب نکلا
اک آفتاب ڈوبا اک آفتاب نکلا

لیکن بادہ نوشی کے بعد وہ شائستگی کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے ۔ صفیؔ کو موسیقی سے بھی لگاؤ تھا اور وہ ستارے سے بھی شوق کیا کرتے تھے ۔ صفی غیر متاہل تھے اس طرح ذمہ داریوں کے بوجھ سے آزاد تھے لیکن ان کو تہائی کا شدید احساس رہتا تھا ۔
تنہا ہوں گھر میں اور شب انتظار ہے
مجھ کو چراغ خانہ چراغ مزار ہے
صفی نے بچپن ہی سے شعر گوئی شروع کردی تھی چنانچہ صفی کے والد حکیم منیر الدین جو اردو فارسی دو زبان میں شعر گوئی کرتے تھے ۔ ان ہی کو وہ اپنا کلام دکھاتے اور ان سے اصلاح لیتے تھے ۔ بعد میں انہوں نے ضیاءؔ گورگانی اور ظہور دہلوی سے استفادہ کیا ۔ داغ دہلوی سے بھی ان کو شرف تلمذ حاصل تھا ۔ داغ دہلوی کے انتقال کے بعد وہ کیفیؔ سے مشورہ سخن کیا کرتے تھے ۔

اپنے شعری مجموعہ ’’پراگندہ‘‘ کے تعلق سے وہ کہتے ہیں
یہ ’’پراگندہ‘‘ ہے جو کچھ بھی غنیمت ہے صفیؔ
میں غریب آدمی دیواں کہاں سے لاؤں
ان کا حلقہ تلامذہ بے حد وسیع تھا ، شاگردوں کی تعداد بہت زیادہ تھی ۔ شمس الدین تاباںؔ جو صفیؔ کے حلقہ تلامذہ میں نمایاںمقام رکھتے تھے ، ان کے کلام کی اشاعت کی کوششوں میں سرگرم رہے ۔ ان کی ناتمام کوششوں کو ان کے فرزند رؤف رحیم نے پورا کیا اور 1987 ء میں صفیؔ کے کلام کے مجموعہ کو ’’گلزار صفیؔ‘‘ کے نام سے شائع کیا ۔ اس طرح ایک پُرگو شاعر کے کلام کا ایک مختصر مجموعہ کلام منظرعام پر آسکا ۔ اس سے قبل ان کا شعرہ مجموعی ’’پراگندہ‘‘ اور ’’انتخاب صفیؔ‘‘ منصۂ شہود پر آچکے ہیں۔
صفیؔ راسخ العقیدہ انسان تھے ۔ فکر معاش میں پریشاں و سرگرداں رہتے تھے لیکن اپنے معبود حقیقی کی رزاقیت پر ایمان رکھتے تھے ۔ چنانچہ وہ کہتے ہیں ؎
کسی کا رزق رک سکتا نہیں خلاق اکبر سے
صفیؔ پتھر کے کیڑے کو غذا ملتی ہے پتھر سے
اگر حصول رزق میں ناکامی ہوتی تو وہ اس کی پرواہ نہیں کرتے تھے ۔ قناعت پسندی اور توکل کا دامن ان کے ہاتھ سے نہ چھوٹتا تھا ۔

ہم کو یہ توکل نے پڑھایا ہے سبق
مل جائے تو روزی ہے نہیں تو روزہ
صفیؔ کو اس بات کا احساس تھا کہ زمانہ ان کی اہمیت اور مقام کا صحیح اندازہ نہیں کرسکا ۔ اپنے اس احساس ناقدری کا ان کو شدت سے احساس تھا ؎
صفیؔ بھی کیوں قدر کا طالب ہوا ہے اس زمانے میں
اسے لوگوں سے جیتے جی امید قدر دانی ہے
بنیادی طور پر صفیؔ رجائیت پسند اور قانع مزاج کے آدمی تھے ۔ رات کی تاریکی سے وہ مایوس نہیں ہوتے بلکہ سحر ہونے پر یقین رکھتے ہیں لیکن ساتھ ساتھ زمانے سے شاکی بھی ہیں ؎
قدر کرتا ہوں اپنی آپ صفیؔ
ہائے تجھ کر بھی کیا زمانہ ملا
انہوں نے کبھی بھی ہار نہیں مانی ۔ وہ ہر شکست کے بعد ایک اور مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہوجاتے تھے ۔ ذات باری کی قوت کاملہ پر ان کو کامل بھروسہ تھا ؎
ہے زندگی تو پائیں گے اک دن گل مراد
اب کے بہار گر نہیں اب کی بہار پر
وقت اور زمانے کی شکایت اردو کے ہر شاعر نے مختلف انداز سے کی ہے لیکن وقت کو برا نہ کہنے کا صفی کا انداز ہی جداگانہ ہے ۔ وہ کہتے ہیں
وقت کو اے صفیؔ برا نہ کہو
وقت پیغمبروں پہ آیا ہے

صفیؔ نے 61 برس کی عمر میں رحلت کی ۔ اس طویل عرصہ حیات میں مختلف تحریکیں وجود میں آئیں۔ روایتی غزل گوئی پر اعتراضات ہوئے اور شعر گوئی اور نثر نویسی کے انداز بدلے لیکن صفیؔ نے غزل کی روایات کی تازیست پاسداری کی انھوں نے کسی تحریک کی مخالفت نہیں کی ۔ وہ مختلف الطبع لوگوں کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے رہے پھر بھی انہوں نے کسی تحریک کے اثر کو قبول نہیں کیا ؎
ہے تقاضائے احتیاط یہی
سو میں بیٹھو نہ چھوڑو اپنا رنگ
ذیل میں صفیؔ کے چند منتخب اشعار درج کئے جاتے ہیں ؎
کس قیامت کی تیری انجمن آرائی ہے
بزم کی بزم ہے تنہائی کی تنہائی ہے
آپ جو مل لیں صفیؔ تو عنایت ہوگی
رحم فرمایئے ، اک شخص تمنائی ہے
سب کی عنایتیں ہیں صفیؔ اس کے فضل سے
وہ مہرباں نہیں تو کوئی مہرباں نہیں

صفیؔ کاکمال یہی ہے کہ وہ باتوں باتوں میں ’’پتہ کی بات‘‘ کہہ دیتے ہیں ۔ وہ جس رویے کے علمبردار ہیں ، دوسروں کو بھی اس کی ترغیب دلاتے ہیں ۔
اللہ کو پکار اگر کوئی کام ہے
غافل ہزار نام کا یہ ایک نام ہے
اب دوست سے غرض ہے نہ دشمن سے کام ہے
دونوں کو دونوں ہاتھوں سے اپنا سلام ہے
ہم کیا ہیں تہمتوں سے پیمبر نہیں بچے
نادان کیا زمانے کے منہ کو لگام ہے
تسلسل ، روانی ، ایمائیت اور دریا کو کوزے میں بند کرنے کا ہنر صفیؔ کو خوب آتا ہے ۔ وہ لفظوں سے کیفیت کو نمایاں کرنے پر بڑی قدرت رکھتے ہیں ۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں ؎
جب کبھی تیری دید ہوتی ہے
ہم غریبوں کی عید ہوتی ہے
جھک کے ملنا بڑی کرامت ہے
اس سے دنیا مرید ہوتی ہے
اچھے گن دیکھ ، اچھی شکل نہ دیکھ
سنکھیا بھی سفید ہوتی ہے

غزل مسلسل کی روایت کے فروغ میں صفیؔ کو کمال حاصل ہے ۔ قافیہ کوگرمانا اور ردیف کو قافیہ سے پیوست کرکے خیال کو نمایاں کرنے کا فن ، صفیؔ کی شاعری میں اپنا اثر دکھاتا ہے ۔ یہ اشعار ملاحظہ ہوں ۔
گھٹا گھنگھور چھائے ، خوب گرجے ، ٹوٹ کر برسے
مرے اللہ وہ جانے نہ پائیں مرے گھر سے
ملے عقبیٰ عبادت سے تو دنیا زور سے زر سے
یہ سب سچ ہے مگر معشوق ملتا ہے مقدر سے
اگر منظور خاطر سختیاں ہی جھیلنی ہوتیں
تمہارے بدلے کرتے دوستی ہم ایک پتھر سے
ارے ناداں سچا چاہنے والا نہیں ملتا
وہ لیلیٰ تھی کہ جس کو مل گیا مجنوں مقدر سے
ہمیں معشوق کو اپنا بنانا تک نہیں آتا
بنانے والے آئینہ بنالیتے ہیں پتھر سے
صفیؔ کو مسکراکر دیکھ لو غصے سے کیا حاصل
اسے تم زہر کیوں دیتے ہو جو مرتا ہے شکر سے

آدمی کی حیثیت اور دنیا میں اس کے موقف کو ظاہر کرنے کے لئے بھی صفیؔ کے اپنے کلام کا استعمال کیا ہے ۔ یہ دو اشعار اس حقیقت کی دلالت کرتے ہیں ؎
صفیؔ تم نے سنا تھا حشر میں اعمال کا تلنا
قیامت ہے جہاں انسان تلتے ہیں ترازو میں
بڑی تعریف سنتے تھے نمائش گاہ عالم کی
یہاں تو کوئی چیز ایسی نہیں ہاں آدمی کچھ ہے
صفیؔ احباب پرور طبیعت کے آدمی تھے ۔ ہمیشہ دوست و احباب میں گھرے ہوئے رہتے اور ان کی قدر کیا کرتے تھے ؎
جو دوست کی خوشی ہو وہ اپنی خوشی رہے
ہے تو یہی ہے ایک طریقہ نباہ کا
صفیؔ اپنے احباب سے اپنا آخری مدعا یوں بیان کرتے ہیں ؎
دوستوں سے یہ التجا ہے مری
مغفرت کے لئے دعا کرنا
یہ منفرد مزاج کا پرگو ، قلندر صفت شاعر 21 مارچ 1954ء کو دارفانی سے کوچ کرگیا ۔ احاطہ درگاہ حضرت سردار بیگ صاحب واقع بھوئی گوڑہ حیدرآباد میں سپرد خاک ہوئے۔