صدر امریکہ اوباما کی نصیحت

غضنفر علی خان
اپنے دورہ ہندوستان کے موقع پر صدر بارک اوباما نے وداعی سے پہلے دہلی کے سری فورٹ آڈیٹوریم میں اپنی زائداز نصف گھنٹہ تقریر میں کئی اہم مسائل کا جو ہندوستان سے راست تعلق رکھتے ہیں، دلچسپ انداز میں ذکر کیا۔ دیگر باتوں کے علاوہ ہندوستان میں مذہبی رواداری، مذہبی آزادی، ہر شخص کو اپنے عقیدہ پر قائم رہنے کی حق کی بات کرکے یہ تاثر دیا کہ ان مسائل پر ہندوستان کی موجودہ حکومت کو بطور خاص غور کرنا چاہئے۔ صدر اوباما نے ایک لحاظ سے مودی حکومت کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھا۔ توقع کے مطابق اس کا منفی اور مثبت ردعمل بھی دیکھنے میں آیا۔ بعض گوشوں نے اس کو غیرضروری مداخلت قرار دیا تو بہت ساروں نے اس کا خیرمقدم کیا۔ آخر اوباما کو کیا پڑی تھی کہ وہ یہاں آ کر ہمیں سبق دیں کہ ہندوستان مختلف مذاہب کا ملک ہے، یہاں کئی زبانیں، ثقافتیں، کئی عقائد اور کئی مذاہب کے لوگ ہیں۔ یہ ایک گلدستہ ہے جس کی خوبصورتی اور مہک اس کی ’’صدرنگی‘‘ سے ہے کیوں انہوں نے اپنی تقریر میں ہندوستان کو مشورہ دیا کہ وہ مذہبی رواداری، بھائی چارہ اور عقائد کا احترام کرے۔ ایک بیرونی ملک کے سربراہ کو یہ کیوں محسوس ہوا کہ ہندوستان میں ان اہم باتوں کی کمی ہورہی ہے۔ یہ پہلا اتفاق نہیں کہ کسی امریکی صدر نے ہندوستان کا دورہ کیا۔ اوباما کا دورہ ان ہی معنوں میں اہم ہیکہ انہیں میزبان ملک ہندوستان کی داخلی صورتحال پر تبصرہ کرنا پڑا۔ یہ مودی حکومت کا کارنامہ ہیکہ اس نے ایسے حالات ملک میں پیدا کردیئے ہیں کہ صدر امریکہ کو یہ کہنا پڑا کہ اقلیتوں کے بھی حقوق ہوتے ہیں کیوں انہوں نے کہا کہ ہر مذہب کے ماننے والے کو اپنے عقیدہ پر قائم رہنے کی چھوٹ ہونی چاہئے۔ کیا انہوں نے محسوس کیا کہ موجودہ حکومت میں بعض ایسے عناصر ہیں جو ہماری رنگارنگی تہذیب کو ہماری قوت برداشت کو بین المذہبی تحمل پسندی کو مٹا دینا چاہتے ہیں؟ اگر انہوں نے ایسا محسوس کرتے ہوئے ہمیں مشورہ دیا ہے تو یہ ہمارے لئے بڑی تشویش کی بات ہے۔ یہ کہنے میں کوئی دریغ نہیں کہ یہ بعض انتہاء پسند اور غیرمحتاط عناصر ہمارے سیکولرازم اور ہماری ملی جلی تہذیب کو مٹانے کے درپے ہیں۔ اوباما کو اگر یہ احساس ہوا ہے تو سوچنے کی بات یہ ہیکہ دنیا کے اور ممالک کے لیڈروں کوبھی اب یہ اندازہ ہوگیا ہیکہ ہمارے بھارت میں مذاہب کا احترام باقی نہیں رہا۔ گھر واپسی پروگرام نے تو طوفان کھڑا کردیا ہے۔ امریکہ میں بھی عقائد اور مذاہب کی کمی نہیں، لیکن وہاں کسی عقیدہ کو زبردستی یا کسی لالچ سے بدلا نہیں جاتا۔ ’’لوجہاد‘‘ کے نام پر کوئی دل آزاری نہیںکی جاتی۔

سینکڑوں کی تعداد میں عیسائیوں اور مسلمانوں کو کوئی دوسرا عقیدہ قبول کرنے پر مجبور نہیں کیا جاتا، جبکہ آج کل یہ سب کچھ دھڑلے سے ہمارے ملک میں ہورہا ہے۔ شاید تبدیلی مذہب کی جو ہوا اس وقت ہندوستان میں چلائی جارہی ہے وہ اوباما کے لئے ناپسندیدہ ثابت ہوئی۔ ان کی تقریر کو اگر ہندوستان کی بدنامی کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ کسی ملک کے سربراہ کو ہمارے عظیم ملک کو یہ سمجھانے کی ضرورت اس وقت ہی لاحق ہوتی ہے، جب عالمی سطح کے لیڈر کو یہ احساس ہوتا ہیکہ ہندوستان میں مذاہب اور عقائد کے مابین ’’پرامن بقائے باہم‘‘ کی فضا باقی نہیں رہی۔ ایک دوسرے کے مذہب اور عقیدہ کا باہمی احترام ختم ہورہا ہے۔ اوباما کو یہ احساس کس نے دلایا اور کیا وہ لوگ جنہوں نے ہندوستان کی شبیہ کو بگاڑا ہے وہ ملک کے دوست اور بہی خواہ کہلانے کے لائق بھی ہیں یا ان ہی لوگوں کو ملک کے سیکولرازم اور صدرنگی کو ختم کرنے کا ذمہ دار قرار دیا جانا چاہئے۔ وزیراعظم مودی کو تو اس بات کا احساس اپنی 8 ماہ کی حکومت کے دوران نہیں ہوا کہ ملک کا سیکولرازم، اس کی ہمہ وجودیت کا شیرازہ بکھر رہا ہے، لیکن امریکی صدر کو اس کا خوب احساس ہوگیا ہے۔ ہندوستان اپنے متعینہ راہ سے ہٹ گیا ہے یا اس کو اپنے راستے سے ہٹانے کی منظم کوشش ہورہی ہے۔ وزیراعظم مودی کو اس صورتحال کے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ ان کی حکومت اور خود ان کو یہ احساس رتی برابر بھی نہیں ہیکہ ’’ہم کس دولت سے محروم ہورہے ہیں‘‘ ہندوستان کی تاریخ رہی ہے کہ ہم نے ساری دنیا کو عقل و دانش کا سبق دیا۔ ہمارے تدبر سے دنیا نے فائدہ اٹھایا، لیکن آج وہی ہندوستان خدانخواستہ اتنا غریب اور علم و دانش کے اعتبار سے اتنا تہی داماں ہوگیا ہیکہ ہمیں دوسروں سے سبق لینا پڑ رہا ہے ہے کہ ہمیں کیا کرناچاہئے۔ اس حالت پر رونا آتا ہے کہ اغیار ہمیں بتا رہے ہیں کہ ہمیں عقائد اور مذاہب کا احترام کرنا چاہئے۔ یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ زینت چمن گلہائے صدرنگ ہی سے برقرار رہ سکتی ہے۔ یہی بات بارک اوباما نے بھی اپنی ٹاؤن ہال والی تقریر میں کہی۔

دوسروں کو سبق دینے والے ہمارے ملک کو آج یاد دلایا جارہا ہیکہ ’’ہندوستان کی مختلف تہذیبی، مذہبی اکائیوں ہی سے ہماری آبرو برقرار ہے۔ اوباما نے کہاکہ ’’امریکہ اور ہندوستان تو قدرتی دوست ہیں‘‘ ایک (یعنی ہندوستان) دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے تو دوسرا (امریکہ) جمہوریت کا سب سے بڑا ضامن ہے۔ اوباما کے دورہ کا ابھی اختتام ہی ہوا تھا کہ بی جے پی کی ویسی ساخت والی ’’قدرتی دوست‘‘ پارٹی شیوسینا نے شورمچانا شروع کردیا کہ ’’دستور ہند کے دیباچہ سے سیکولرازم اور سوشلزم کے الفاظ کو خارج کردینا چاہئے‘‘ لیجئے صاحب اوباما کے مشورہ کی دھجیاں اڑانی شروع کردی گئیں۔ شیوسینا کا یہ بھی کہنا ہیکہ ہندوستان ہندوؤں کا ملک ہے اس لئے ان کی عددی برتری کو تسلیم کیا جانا چاہئے۔ ہندوؤں کو ہی بالادستی حاصل رہنی چاہئے۔ یعنی شیوسینا نے صاف کردیا ہے کہ اوباما کچھ بھی کہیں ہم تو وہی کریں گے جو ہم چاہتے ہیں۔ بھلا اوباما کی بات کا کیا بھرم ہوسکتا ہے جبکہ ملک کے قومی رہنما گاندھی جی کو ہی یہ لوگ تسلیم نہیں کرتے ،جنہوں نے ملک کو سب کچھ دیا۔ وہ ذہن جو گاندھی جی کے قاتل ناتھورام گوڈسے کو محب وطن قرار دیتا ہو اس کے مجسمہ لگاتا ہو اس سے اور کیا توقع کی جاسکتی ہے کہ ایسا ذہن ان باریکیوں کو بھی سمجھے گا جس نے ملک کی آزادی کی جنگ لڑنے والے ہمارے بزرگوں کو تک نہیں بخشا اور انتہائی کوتاہ ذہنی کا ثبوت دیتے ہوئے ان کی قائم کردہ اقدار کو اپنے اقتدار کے نشہ میں روند دیا۔ اب آپ ہی سوچئے کہ یہ عناصر جو اپنے محسنوں اور کرم فرماؤں کو خاطر میں نہیں لاتے وہ صدر امریکہ اوباما کی بات پر کیسے کان دھر سکتے ہیں۔ یہ سب ذہنی اور نفسیاتی مریض ہیں۔