صادقین  (1987-1930)

میرا کالم مجتبیٰ حسین
۱۱ فروری ۱۹۸۷ء کی شام کو دہلی کے ایک بزرگ شاعر کی پچھترویں سالگرہ منائی جارہی تھی۔ مسرت اور شادمانی کا ماحول تھا۔ تقریروں کا سلسلہ جاری تھا کہ کسی نے چپکے سے آکر میرے کان میں کہا ’’کیا آپ کو پتہ ہے صادقین صاحب چل بسے‘‘۔
میں نے حیرت سے پوچھا ’’کب؟‘‘
بولے ’’کراچی میں ان کا انتقال ہوگیا۔ میں نے بی بی سی سے یہ خبر سنی ہے‘‘۔
میں صادقین کے انتقال کی تفصیلات کے بارے میں مزید کچھ پوچھنا ہی چاہتا تھا کہ مائیکرو فون پر میرا نام پکارا گیا اور میں بزرگ شاعر کو ان کی پچھترویں سال گرہ کی مبارکباد دینے ڈائس پر چلا گیا۔ انہیں مبارکباد دینے کے بعد نیچے آیا تو صادقین کے انتقال کا پرسہ دینے کا خیال آیا۔ سوچا کسے پرسہ دوں۔ صادقین ان لوگوں میں سے نہیں تھے جن کے انتقال کا پرُسہ آپ ان کے پسماندگان اور آل اولاد کو دے کر مطمئن ہوجائیں اور سوچیں کہ چلو ایک سماجی ذمہ داری سے عہدہ برآ ہوگئے۔ وہ مجرد اور اکیلے تھے پھر بھی سب کے تھے۔ وہ سب کے تھے مگر پھر بھی اکیلے تھے۔ سوچا ان صاحب کو ہی پرُسہ دے دوں، جنہوں نے صادقین کے انتقال کی خبر سنائی تھی مگر وہ محفل سے جاچکے تھے۔ میں سوچنے لگا زندگی کا حساب کتاب بھی کتنا عجیب ہے۔ ایک بزرگ دوست پچھتر برس کے ہوگئے اور ایک دوست نے ۵۷ برس میں ہی دنیا چھوڑ دی۔ کون جانے کس کے حصہ میں عمر کی نقدی کتنی آئی ہے۔
میں چپ چاپ محفل سے چلا آیا۔ صادقین کی باتیں یاد آنے لگیں تو یاد آتی ہی چلی گئیں، صادقین سے میری دوستی پرانی نہیں تھی۔۱۹۴۸ء میں ترک وطن کرنے کے ۳۳ برس بعد وہ پانچ برس پہلے ہندوستان آئے تھے۔ میں ان کے نام سے بہت کچھ اور ان کے کام سے کچھ کچھ واقف تھا ۔ ایک دن پتہ چلا کہ دہلی کی غالب اکیڈیمی میں صادقین کی خطاطی کے نمونوں اور غالب سے متعلق ان کی تصویروں کی نمائش مقرر ہے۔ میں صادقین کو نہیں بلکہ ان کی تصویروں کو دیکھنے کے ارادہ سے وہاں پہنچا تو وہاں صادقین کے بھی دیدار ہوگئے۔ نمائش کے افتتاح کے بعد وہ ایک گوشہ میں ایم ایف حسین کے ساتھ کھڑے تھے۔ ایم ایف حسین نے صادقین سے میرا تعارف کرایا تو بولے ’’آپ کے بارے میں بھائی ذہین نقوی سے بہت کچھ سن رکھا ہے۔ میں ہندوستان میں کئی دن رہوں گا۔ آپ سے جلدی ہی ملاقات ہونی چاہئے‘‘۔ میں نے پوچھا ’’ملاقات کب اور کہاں ہوگی؟‘‘
فوراً بولے ’’کل شام غالب کے مزار پر ٹھیک چھ بجے۔ میں آپ کا انتظار کروں گا‘‘۔ یہ کہہ کر وہ اپنے مداحوں میں گھر گئے۔ میں شش و پنچ میں پڑ گیا۔ بھلا مزار غالب بھی کوئی ملاقات کی جگہ ہے۔ میں ملاقات کے مقام کی دوبارہ توثیق کرنا چاہتا تھا لیکن بعد میں وہ خواتین کو آٹو گراف دینے میں کچھ اتنے مصروف ہوگئے کہ اس حسین مصروفیت میں خلل انداز ہونے کی ہمت نہیں پڑی۔ میں نے سوچا مانا کہ صادقین غالب کے طرف دار ہیں، سخن فہم بھی شاید ہوں گے۔ اپنے نام کے ساتھ بندۂ غالب لکھتے ہیں۔ لیکن طرف داری کا مطلب یہ تو نہیں کہ غالب کے مزار کو دیوان خانہ میں تبدیل کردیں، تاہم وقت ملاقات تو طئے ہوچکا تھا۔ سوچا پہلے مزار غالب کے اوپر انہیں دیکھ لیں گے۔ یہاں نہ ملیں تو مزار کے اندر انہیں ڈھونڈ لیں گے۔ یہاں بھی نہ ملیں تو غالب اور صادقین دونوں پر فاتحہ پڑھ لیں گے۔ دوسرے دن میں ٹھیک چھ بجے پہنچا تو صادقین سچ مچ غالب کے مزار پر موجود تھے اور ان کی انگشت شہادت خلا میں کچھ تحریر کرنے میں مصروف تھی۔ مجھے دیکھتے ہی خلا کو پینٹ کرنے کا سلسلہ روکا اور بولے ’’میں آپ ہی کا انتظار کررہا تھا‘‘۔
میں نے کہا ’’صادقین صاحب! یہ غالب کے مزار کو مقام ملاقات بنانے کی بھی خوب رہی‘‘۔
ہنس کر بولے’’اصل میں آج غالبؔ سے میرا وقت طئے تھا۔ اس میں آپ کو بھی شامل کرلیا‘‘۔
میں نے کہا ’’غالبؔ سے اگر ملاقات ہوچکی ہو تو اب یہاں سے چلیں، کہیں اور بیٹھتے ہیں کیوں نہ ہم کناٹ پلیس چلیں اور وہاں کسی بڑھیا ریستوران میں بیٹھیں‘‘۔
بولے ’’نہیں! یہیں نظام الدین کے ایک ریستوران میں بیٹھتے ہیں اور مونگ پھلی کھاتے ہیں۔ ریستوران چاہے جیسا بھی ہو، اس کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس کے مالک امروہہ کے ایک صاحب ہیں اور یوں غالبؔ کے بعد انہوں نے اپنی دوسری کمزوری یعنی امروہہ کا ذکر مجھ سے کردیا۔ ۳۳ برس بعد وہ ہندوستان آئے تھے۔ ان برسوں میں دنیا کا شاید ہی کوئی ملک ایسا بچ رہا ہو، جہاں وہ نہ گئے ہوں، لیکن ہر جگہ اپنے امروہہ کو اپنے ساتھ لے گئے۔ میں نے ان کی کتاب ’’رقعات صادقینی‘‘ پڑھی ہے جس میں وہ اپنے بھائی کے نام لندن، پیرس، واشنگٹن، نیویارک، ماسکو اور نہ جانے کن کن شہروں سے خط لکھتے ہیں تو ان بڑے شہروں کے بیچ اپنے امروہہ کو پھیلادیتے ہیں۔ ان ۳۳ برسوں میں امروہہ جتنا ان کے اندر آباد رہ کر پھلتا پھولتا رہا ہے اتنا شاید وہ ہندوستان بھی نہیں پھولا پھلا۔ کلکتہ کے ذکر سے غالب کے سینہ کا جو حال ہوتا تھا وہی حال امروہہ کے ذکر سے صادقین کے سینے کا ہوتا تھا۔ امروہہ میں اپنی نوجوانی کے دنوں کو یاد کرکے کہنے لگے ’’طالب علمی کے زمانے سے ہی مجھے مصوری اور خطاطی  سے دلچسپی رہی ہے۔ میں چھٹی جماعت میں پڑھتا تھا، ان دنوں اسکول سے چھٹی لینے کے لئے درخواست پر طالب علم کے سرپرست کے دستخط تصدیق کے طور پر ضروری سمجھے جاتے تھے۔ ایک دن میں یونہی اسکول سے غائب ہوگیا۔ گھر میں کسی کو نہیں بتایا۔ دوسرے دن میں نے چھٹی کی درخواست پر اپنے والد صاحب کے جعلی دستخط کئے اور درخواست اسکول ماسٹر کے حوالے کی تو استاد نے میری پٹائی شروع کردی‘‘۔
استاد نے کہا ’’تم نے اپنے والد کے جو دستخط کئے ہیں وہ اتنے خوش خط ہیں کہ یہ تمہارے والد کے دستخط نہیں ہوسکتے۔ خوش خطی میں یہ جعل سازی تمہارے سوائے کوئی اور نہیں کرسکتا‘‘۔
صادقین اس واقعے کو سناکر ہنسنے لگے۔ پھر بولے ’’میری خوش خطی کی پہلی سزا مجھے امروہہ میں ہی ملی تھی۔ بعد میں تو کئی جگہ ملتی رہی۔ البتہ زندگی میں پہلی اور آخری جعلی سازی یہیں کی تھی‘‘۔ (صادقین جب ۱۹۴۸ء میں امروہہ سے گئے تھے تو وہ امروہہ کے اسکول میں آرٹ ٹیچر تھے۔)
صادقین سے یہ میری پہلی ملاقات تھی۔ میں جانے لگا تو بولے ’’بھائی! آپ سے روز ملاقات ہونی چاہئے۔ غالب کے مزار پر یا غالب اکیڈیمی میں۔ میں کچھ دن اور دہلی میں رہوں گا‘‘۔
مجھے پتہ نہیں تھا کہ صادقین اور کتنے دنوں تک دہلی میں رہیں گے۔ مگر میں نے ان کے بارے میں سن رکھا تھا کہ حضرت داغ کی طرح یہ جہاں بیٹھ جاتے ہیں، وہیں بیٹھ جاتے ہیں۔ پاکستان وہ گئے تو تھے اپنے بڑے بھائی سے ملنے مگر جب گئے تو وہیں کے ہورہے۔ فرانس کی وزارت ثقافت نے انہیں پانچ مہینوں کی دعوت پر پیرس بلایا تو سات برسوں تک پیرس کو اپنا ہیڈکوارٹر بنایا۔ یورپ کے سارے ملکوں کی سیر کی اور اپنی تصویروں کی نمائشیں کیں۔ پیرس جیسے آرٹ کے بین الاقوامی مرکز میں اپنے آپ کو منوانے اور خوش حالی اور مادی آسائشوں کی دہلیز پر قدم رکھنے کے بعد ایک دن اچانک اپنے والد کے ساتھ مختصر سے عرصے کے لئے پاکستان میں قیام کے ارادہ سے کراچی واپس آئے تو پھر پاکستان ہی کے ہورہے۔ ایک بار کراچی سے لاہور اس ارادہ کے ساتھ گئے کہ پندرہ دن لاہور میں قیام کریں گے۔ مگر لاہور میں دس برس کے لئے ٹک گئے۔ ان کی خانہ بدوشی کے بیسیوں قصے سن رکھے تھے اور یہ بھی سنا تھا کہ وہ ہر ملک کو اپنا ملک سمجھتے ہیں۔ ملکوں اور شہروں کے تعلق سے ایک رباعی میں انہوں نے اپنے رویہ کا اظہار یوں کیا تھا۔
البرز نہ الوند کا باشندہ ہوں
دلی نہ سمرقند کا باشندہ ہوں
ساری دنیا مرا وطن ہے یعنی!
میں ارضِ خداوند کا باشندہ ہوں
صادقین سے پہلی ملاقات کے بعد میں نے ذہین نقوی سے کہہ دیا تھا کہ صادقین اتنی آسانی سے ہندوستان سے واپس نہیں جائیں گے ۔چنانچہ میری پیش گوئی صحیح ثابت ہوئی اور ایک دن پتہ چلا کہ صادقین ننے ایک مکان جنگ پورہ میں کرایہ پر لے لیا ہے۔ جب صادقین دو چٹائیاں ، ایک عدد چار پائی، دو عدد بالٹیاں (ایک بالٹی نہانے کے لئے اور ایک بالٹی کوڑا ڈالنے کے لئے) اور  کچھ برتن خرید کر جنگ پورہ میں ’’ٹھاٹ باٹ‘‘ کی زندگی گزارنے لگے تو یوں لگا جیسے وہ دہلی کے معمولات کا حصہ بن گئے ہیں۔ معاف کیجئے میں بھول گیا۔ صادقین نے ایک لوٹا بھی خریدا تھا۔ ساز و سامان جب اتنا کم ہو تو اس میں سے کسی شئے کو بھولنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
مجھے یہ اعتراف بھی کرلینے دیجئے کہ اگر صادقین دہلی نہ آتے تو میں جنگ پورہ سے اور جنگ پورہ مجھ سے اتنا واقف نہ ہوتا۔ یہ ان ہی کی ذات بابرکت کا فیض تھا کہ اس محلہ میں میری آمدورفت اتنی بڑھ گئی تھی کہ جنگ پورہ کے دوچار پٹواڑی پورے اعتماد کے ساتھ وقت ضرورت مجھے سگریٹ بھی اُدھار دے دیتے تھے اور مجھے پر شک نہیں کرتے تھے۔ یہ بھی صادقین کا ہی فیض تھا کہ برسوں بعد مجھے چٹائی پر متواتر بیٹھنے کا موقع ملا۔ ورنہ چٹائی پر بیٹھنے کی پریکٹس کب کی چھوٹ چکی تھی۔ میں تو خیر کس شمار میں ہوں۔ میں نے بڑی بڑی نامور ہستیوں کو جو بڑی بڑی کرسیوں پر براجمان ہیں اور جو شاید نیند میں بھی کرسیوں سے نہیں اُترتیں ، صادقین کے آگے چٹائی پر زانوئے ادب تہہ کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ یوں بھی کرسی پر زانوئے ادب آسانی سے تہہ نہیں ہوتا۔ چٹائی کے استعمال کو دہلی میں دوبارہ رائج کرنے میں صادقین کا بڑا ہاتھ رہاہے۔اگر وہ کچھ دن اور رہ جاتے تو فرنیچر بنانے والوں کا کاروبار ٹھپ ہوجاتا۔ صادقین کے جنگ پورہ والے گھر ’’جی۔ ۱۹‘‘ کو میں صادقین کا گھر نہیں صادقین کا تکیہ کہا کرتا تھا۔ اس گھر میں صادقین کے سوائے کوئی اور قیمتی چیز نہیں تھی۔ بھلا چٹائیاں اور بالٹیاں بھی کہیں قیمتی ہوتی ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ صادقین کے بیٹھنے کی وجہ سے چٹائیوں کی قدر و قیمت بڑھ گئی تھی۔
اس گھر کا نقشہ یاد کرتا ہوں تو حیرت ہوتی ہے کہ صادقین نے اتنے کم ساز و سامان کے ساتھ آخر ایک سال سے زیادہ کی مدت اس گھر میں کیسے گزارلی۔ صادقین کے قیام دہلی کا زیادہ حصہ اسی گھر میں گزرا۔ وہ گھر سے باہر کم ہی نکلتے تھے بہت نکلے تو ملا کی دوڑ کی طرح غالب اکیڈیمی یا مزار غالب تک گئے۔ وہ گھنٹوں گھر کی چہار دیواری میں بند اپنے کام میں منہمک رہتے تھے۔ اس گھر کے در و دیوار کا بھی کچھ حال بیان ہوجائے تو کوئی مضائقہ نہیں۔ جب یہ پہلے پہل اس گھر میں آئے تھے تو در و دیوار سچ مچ در و دیوار لگتے تھے۔ بعد میں یہ در و دیوار صفحہ قرطاس میں تبدیل ہوتے چلے گئے۔ اس کی دیواروں پر ابتداء میں کچھ ضروری دوستوں کے غیرضروری پتے لکھے گئے۔ پھر ٹیلی فون نمبروں کی خطاطی کی باری آئی۔ یہ بھی بتاتا چلوں کہ بعض ایسے ناپسندیدہ عناصر جن سے میں اپنا ٹیلیفون نمبر پوشیدہ رکھنا چاہتا تھا ، انہیں میرا نمبر صادقین کے گھر کی دیوار ہی سے ملا۔ یہ اور بات ہے کہ بعض پسندیدہ عناصر کے پتے ، جن کی مجھے عرصہ سے تلاش تھی، صادقین کے گھر کی دیوار ہی سے ملے۔ غیرضروری پتوں اور ضروری ٹیلی فون نمبروں کی خطاطی سے فرصت ملی تو کبھی کبھی یوں بھی ہوا کہ صادقین کام میں مصروف ہیں اور کسی دوست نے کسی خاص تاریخ کو اپنے یہاں بلایا تو صادقین نے وہیں، برش لے کر دیوار پر بطور یادداشت لکھ لیا کہ فلاں صاحب کے پاس جانا ہے۔ پھر یادداشتوں سے متعلق تحریروں کے بعد کتابوں کے سر اوراق کی باری آئی۔ اکثر ادیب و شاعر اپنی کتابوں کے نام اپنے ناموں یا تخلصوں سمیت کمرے کی دیوار پر لکھ جاتے تھے کہ تاکہ بعد میں صادقین اس نوشتہ دیوار کی مدد سے ان کی کتاب کا سرورق بناسکیں۔ ایک صاحب نے تو اپنی کتاب کا قد آدم سرورق بقلم خود سالم دیوار پر بنادیاتھا۔
سرورق پر یاد آیا کہ صادقین نے ہندوستان میں اتنی کتابوں کے سرورق بنائے ہیں کہ اگلے دس پندرہ برس تک یہ سرورق وقفہ وقفہ سے چھپتے رہیں گے۔ دس پندرہ برس کی بات اس لئے کہہ رہا ہوں کہ ایک دن ایک صاحب بڑے خشوع وخضوع کے ساتھ اپنے مجموعہ کلام کا سرورق صادقین سے بنوارہے تھے۔ صادقین کسی کام سے اندر گئے تو میں نے ان شاعر صاحب سے پوچھا ’’آپ تو بڑی عجلت میں صادقین سے اپنے مجموعہ کلام کا سرورق بنوارہے ہیں ، مجموعہ کلام کب تک چھپوائیں گے‘‘۔
بولے’’صاحب ! فی الحال تو میرے پاس ایک تخلص ہے اور اس مجموعہ کلام کا نام ہے۔ شاعری تو سرورق بننے کے بعد شروع کروں گا۔ صادقین اب ہندوستان سے جائیں گے تو نہ جانے کب آئیں گے۔ اس لئے حفظ ماتقدم کے طور پر اپنے مجموعہ کلام کا جس میں اس وقت تک نہ کلام ہے نہ مجموعہ ، سرورق بنوارہا ہوں۔ کل کلاں کو واقعی شعر کہنے لگ جاؤں تو صادقین صاحب کو کہاں ڈھونڈتا پھروں گا۔ یوں بھی اچھا شعر اور برُا وقت پوچھ کر نہیں آتے‘‘۔