صادقین  (1987-1930)

میرا کالم مجتبیٰ حسین
ہاں تو میں صادقین کے گھر کے در و دیوار کا ذکر کررہا تھا اور بات سرورق تک پہنچ گئی۔ صادقین کے اسسٹنٹ میاں انور نے جب دیکھا کہ گھر کے ہر کمرے کی دیوار پر صادقین کے بنائے ہوئے نقش ابھرتے جارہے ہیں تو انہوں نے بھی حسب استطاعت باورچی خانہ کی دیواروں پر طبع آزمائی شروع کردی۔ سارے گھر میں یہی ایک ایسی جگہ تھی جہاں صادقین کا گزر نہیں ہوتا تھا۔ مگر آفریں ہے میاں انور پر کہ انہوں نے باورچی خانہ کی مناسبت سے اس کی دیواروں پر ایسی ’’لذیذ‘‘ اور’’ چٹپٹی‘‘ دو شیزاؤں کی تصویریں بنادی تھیں اور ان ہی کی مناسبت سے ایسی رباعیاں لکھ دی تھیں کہ انہیں دیکھ کر ہر قسم کی بھوک میں اضافہ ہوجاتا تھا۔ غرض صادقین کے گھر کے درو دیوار ان کے لئے ٹیلی فون ڈائرکٹری بھی تھے اور کلینڈر بھی ۔ میں جب بھی ان کے یہاں جاتا تو ان دیواروں کا مطالعہ ضرور کرتا تھا۔ خاصی دلچسپ دیواریں تھیں۔
ہندوستان میں چودہ مہینوں کے قیام میں صادقین کو میں نے جب بھی دیکھا، کام میں جٹا ہوا دیکھا، میں نے اپنی آنکھوں سے انہیں ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کے لئے آیات قرآنی کی خطاطی کرتے دیکھا ہے۔ جنگ پورہ میں انہوں نے آرٹ کی گنگا بہادی تھی۔ ہر کوئی آتا اور اس میں ڈبکی لگاکر چلا جاتا تھا۔ صادقین کو میں نے اتنی بار اور اتنے لمبے عرصے تک خطاطی کرتے دیکھا ہے کہ اب خود میرا ہینڈرائٹنگ بھی بدل گیا ہے۔ صادقین کی خطاطی کا میرے ہینڈ رائٹنگ پر اثر انداز ہونا ضروری بھی تھا۔ فرق صرف اتنا ہے کہ صادقین سے ملنے سے پہلے لوگ میرے ہینڈ رائٹنگ کو پڑھ پاتے تھے اور اب بالکل نہیں پڑھ سکتے۔ آرٹ اسی کو کہتے ہیں۔
آرٹ کی دنیا میں گم ہونے کی فرضی باتیں تو میں نے بہت سن رکھی تھیں۔ مگر کسی کو سچ مچ آرٹ کی دنیا میں گم ہوتے نہیں دیکھا تھا۔ صادقین کو دیکھ کر یہ حسرت بھی پوری ہوگئی۔ دہلی میں وہ دو مہینوں تک نمائشوں میں مصروف رہے۔ وہاں سے فارغ ہوئے تو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ جغرافیہ میں ایک میورل بنانے میں مصروف ہوگئے۔ وہاں سے فرصت ملی تو جناب عابد علی خاں ایڈیٹر روزنامہ ’’سیاست‘‘ کی دعوت پر حیدرآباد چلے گئے۔ ان کے قیام حیدرآباد کے دنوں میں میں بھی حیدرآباد میں تھا۔ حیدرآباد میں انہوں نے وہ مچایا جسے تہلکہ کہتے ہیں، وہاں کے ’’اردو گھر‘‘ کے لئے جب یہ میورل بنارہے تھے تو سینکڑوں افراد انہیں کام کرتے ہوئے دیکھنے کے لئے آتے تھے۔ بعد میں اردو گھر میں جب ان کی خطاطی کی نمائش ہوئی تو اس کا حال بیان کرنے کی نہ مجھ میں تاب ہے نہ مجال۔ بلامبالغہ روزانہ دس ہزار سے زائد افراد اس نمائش کو دیکھنے کے لئے آتے تھے۔ میلے کا ساسماں تھا۔ چائے کی عارضی دوکانیں کھل گئی تھیں۔ عارضی سائیکل اسٹینڈ چالو ہوگئے تھے۔ آئس کریم والوں اور میوہ فروشوں کے ٹھیلے آگئے تھے۔ جیب کترے بھلا اس موقع پر کیوں چپ رہتے۔ انہوں نے بھی اپنا کاروبار چمکایا۔
صادقین سے آٹو گراف مانگنے والوں کا اتنا ہجوم رہتا تھا کہ صادقین کو ایک بند کمرے میں بٹھایا جاتا تھا اور لوگ قطار باندھ کر کھڑکی میں سے صادقین سے فرمائش کرکے اپنی پسندیدہ آیات لکھوایا کرتے تھے۔ خوب یاد آیا کہ نمائش کے پہلے دن ایک عورت صادقین سے کوئی آیت لکھوا کر لے گئی۔ دوسرے دن وہ سویرے ہی پھر نمائش میں آئی اور لوگوں کے سامنے اعلان کیا کہ اس کا بھائی عرصہ سے بیمار تھا مگر کل جب اس نے صادقین کے ہاتھ سے لکھی ہوئی آیت بیمار کے تکیے کے نیچے رکھی تو شام تک صحت یاب ہوگیا۔ اس اعلان کے بعد جو ہوتا تھا، اس کا اندازہ آپ لگاسکتے ہیں۔ اب صادقین، صادقین نہیں رہ گئے تھے بلکہ پیر و مرشد بن گئے تھے۔ عورتیں اپنے بچوں کے سروں پر ان کا ہاتھ رکھواتیں اور لوگ عقیدت سے ان کے ہاتھ نہ صرف چومتے تھے بلکہ آنکھوں سے بھی لگاتے تھے۔
غرض حیدرآباد میں اتنے لمبے قیام کے باوجود انہوں نے حیدرآباد کے ایسے کئی تاریخی مقامات نہیں دیکھے جنہیں دیکھنے کیلئے لوگ دُور دُور سے آتے ہیں۔ اس کی وجہ غالباً یہ تھی کہ لوگ خود صاؔدقین کو دیکھنے کے لیے دُوردُور سے آنے لگے تھے۔ وہ سارا دن نظام کلب کے کمرے میں بند ہوکر لوگوں کی فرمائشیں پوری کیا کرتے تھے۔ حیدرآباد میں ہی انہوں نے نیشنل جیوفزیکل ریسرچ لیباریٹری کے لیے ایک عالی شان میورل تیار کیا۔
 حیدرآباد سے واپس آئے تو بنارس ہندو یونیورسٹی میں میورل بنانے چلے گئے۔ بنارس سے واپس آکر اطمینان کی دوچار سانسیں بھی نہیں لی تھیں کہ دہلی کے انڈین انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک اسٹڈیز کے لیے ’’ اسمائے حسنیٰ ‘‘ کی خطاطی میں مصروف ہوگئے… صاؔدقین کا یہ ایک عظیم الشان کارنامہ ہے جس میں انہوں نے دو مہینوں کی شبانہ روز محنت کے بعد ایک سو سات کینوس تیار کیے۔ اس کا کو دیکھ کر انسان کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جاتی ہیں۔ میں نے مذاق مذاق میں یہ مشورہ بھی دیا تھا کہ ہمدرد والوں کو اب ایسی دوا بھی تیار کرنا پڑے گی کہ اس کام کو دیکھ کر جب انسان کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جائیں تو انہیں دوا کی مدد سے بند کیا جاسکے۔ جب یہ کام چل رہا تھا تو میں نے دیکھا کہ صاؔدقین کئی کئی دن گھر سے باہر نہیں نکلتے تھے۔ انہیں داڑھی بنانے کا بھی ہوش نہیں رہتا تھا۔ لوگوں کی آمدورفت سے بے نیاز وہ اپنے کام میں کھوئے رہتے تھے۔ جب تک دن میں دو کینوس نہیں بنالیتے تھے ۔ کھانا نہیں کھاتے تھے۔ چاہے رات کا پچھلا پہر ہی کیوں نہ ہوجائے۔ یوں بھی میں نے صاؔدقین کو کھانا کھاتے ہوئے بہت کم دیکھا۔چودہ مہینوں میں بہ مشکل تمام دس بارہ ایسے مبارک و مسعود موقعے آئے جب میں نے انہیںکھانا کھاتے ہوئے دیکھا۔صاؔدقین نے ہندوستان میں جہاں کہیں اور جو کچھ بھی کام کیا وہ فی سبیل اللہ کیا۔ کوئی بھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ صاؔدقین نے کسی کام کا کوئی معاوضہ لیا ہو۔ صاؔدقین نے ہمیں جو کچھ دیا وہ ہماری نظروں کے سامنے ہے۔ مگر انہوں نے ہمیں یہ سب کچھ کیوں دیا اس کا جواب نہ صاؔدقین کے پاس تھا اور نہ ہمارے پاس ہے۔ دین آرٹسٹ کی عادت ہوتی ہے اور لین مدّاحوں کی مجبوری۔
صاؔدقین کے گھر سے مَیں نے کسی کو خالی ہاتھ جاتے نہیں دیکھا۔ جب بھی وہ صاؔدقین سے مل کر واپس جاتا تو اس کے ہاتھ میں یا تو صاؔدقین کے مصافحے کی گرمی ہوتی یا صاؔدقین کے آر ٹ کا کوئی نمونہ۔ دل میں صاؔدقین کی دی ہوئی محبت کا گداز ہوتا۔ آنکھوں میں صاؔدقین کے فن پاروں کی چمک ہوتی یا کانوں میں صاؔدقین کی رُباعیوں کی گونج ہوتی۔ کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ سکندر اگر صاؔدقین کے گھر سے جاتا تو دنیا سے یوں خالی ہاتھ نہ جاتا جس کے ذکر سے تاریخ کی کتابیں بھری پڑی ہیں۔ صاؔدقین اگرچہ دہلی میں اتنے طویل عرصہ تک رہے لیکن تب بھی یوں رہے جیسے:
 دُنیا میں ہوں دُنیا کا طلب گار نہیں ہوں
 اگرچہ وہ دہلی کے معمولات کا حصہ بن گئے تھے لیکن دہلی اُن کے معمولات کا حصہ نہیں بن سکی۔ جو شخص اپنے گھر میں بند اور اپنے آرٹ میں گم رہتا ہو اُسے شہر سے کیا مطلب۔صاؔدقین ان گنے چنے فن کاروں میں تھے جنہیں نہایت کم عمری میں آرٹ کے میدان میں بین الاقوامی شہرت حاصل ہوئی۔پاکستان میں انہیں تمغۂ امتیاز اور نہ جانے کیا کیا مل چکا تھا۔آج سے25برس پہلے پیرس کی بی نائیل نمائش کا بین الاقوامی اعزاز انہیں حاصل ہوچکا تھا۔ دُنیا کی بڑی بڑی آرٹ گیلریوں میں اُن کے آرٹ کے شاہکار موجود ہیں۔ لیکن ایک بات میں نے محسوس کی کہ زندگی جوں جوں اُن کے سرپر عظمتوں کے تاج رکھتی جاتی تھی اُن کا سر فخر سے اونچا ہونے کے بجائے جھکتا جاتا تھا۔ صاؔدقین کے لئے عظمتیں ایک بوجھ کا درجہ رکھتی تھیں۔ جوں جوں یہ بوجھ بڑھتا جاتا تھا وہ کچھ اور بھی منکسرالمزاج دکھائی دیتے تھے۔ وہ اپنے نام کے ساتھ حقیر، فقیر، پُر تقصیر، خْاطی اور عاصی نہ جانے کیا کیا لکھتے تھے۔ انہوں نے اپنے لیے کچھ مخصوص القاب بھی تجویز کررکھے تھے۔ جیسے المجہول، الجاہل، المہمل، الخبیث، المریض، المحتاج، المحکوم، الخاطی، المردود، المکروہ، المقروض، المحدود، الملعون، المجبور، المفلس ۔ وغیرہ وغیرہ لیکن عجز و انکسار کے اس پُتلے میں جب فنکار کی اَنا جاگتی تھی تو یہ فنکار نہ مولویوں کا لحاظ کرتا تھا اور نہ ہی سرمایہ داروں اور صاحب اقتدار لوگوں کو خاطر میں لاتا تھا۔ جب مُلاؤں نے اُن کی تصویروں کے خلاف فتوے جاری کیے اور جلوس نکالے تو انہوں نے اپنی نمائش کی مُدت کچھ اور بڑھادی اور منافقت کے خلاف سینہ تان کر کھڑے ہوگئے۔ صاؔدقین غالباً برصغیر کے واحد مصور تھے جن کی تصویروں کی نمائش پر بم پھینکے گئے۔ شاید ہی کسی  مُصور کو یہ اعزاز حاصل ہوا ہو۔ اپنی ایک رُباعی میں مُلاؤں کے خلاف کہتے ہیں۔:
 جو آج منڈاسے ہیں، لنگوٹے ہوں گے
 ہم ہوں گے کھرے اور یہ کھوٹے ہوں گے
 ہم مینا بکف رند اُٹھیں گے سرِ حشر
 واعظ جو ہیں تھامے ہوئے لوٹے ہوں گے
 صاؔدقین کی حِس مزاح بہت تیز تھی۔ مزے دار فقروں اور دلچسپ لطیفوں پر اُن کی بے ساختہ ہنسی دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی۔ بار بار فقرے یا لطیفے کا اعادہ کرتے چلے جاتے تھے اور ہنستے جاتے تھے۔ لطیفہ کی جُگالی کرتے مَیں نے کسی کو نہیں دیکھا۔ مذاق خود اُن کے بارے میں ہوتا تو اوربھی لطف اندوز ہوتے تھے۔ ایک رات اُن کے مکان پر خوش باشوں کی محفل گرم تھی۔ امیر قزلباشؔ بھی موجود تھے۔ میں نے باتوں باتوں میں پوچھا۔ ’’ صاؔدقین صاحب ! آپ کانام جمع کے صیغہ میں کیوں رکھا گیا ہے۔ صرف صادقؔ کافی تھا۔ صاؔدقین کی کیا ضرورت تھی۔‘‘ بولے ’’ صاؔدقین میرے والدین کی دین ہے۔ میں کیا کرسکتا ہوں۔ ‘‘ اسی اثناء میں اچانک بجلی فیل ہوگئی تو میں نے امیر قزلباشؔ سے کہا ۔ ’’ میاں امیرینؔ جلاؤ اسی بات پر ماچسین اور کروروشن لالٹین، اُٹھاؤ اپنے نعلین اور دباؤ انہیں در بغلین… آؤ میاں انورینؔ چلیں ہم سب ہوٹلین اور کھانا کھائیں ساتھ میں صاؔدقین۔‘‘
 ایک ہی سانس میں جب میں نے یہ جملہ مکمل کیا تو صاؔدقین کا ہنستے ہنستے برا حال ہوگیا۔ بار بار کہتے تھے ’’ بھائی! پھر سے کہو۔ خوب کہا۔ ماچسین، نعلین ، دربغلین، انورین، صاؔدقین، بھئی واہ۔ والدین! کیا نام رکھا تم نے ۔‘‘
ہندوستان میں چودہ (۱۴) مہینوں کے قیام کے دوران میں صاؔدقین سے میری سینکڑوں ملاقاتیں ہوئیں۔ وہ مجھے بہت عزیز رکھتے تھے۔ ایک دن بھی اُن سے ملاقات نہ ہوتو تو انورؔ سے فون کرواتے تھے۔ میں نے انہیں عالم سرخوشی میں بھی دیکھا اور عالم ہوش میں بھی اور ہردم انہیں ایک دُرویش اور قلندر کے روپ میں پایا۔ مال و متاع اور جاہ و حشمت سے بے نیاز اپنے فن کی دُنیا میں گم ، اپنے بَل بوتے میں مگن… دونوں ہاتھوں سے اپنے فن کی دولت لُٹاتے ہوئے، رنگ و نور کا جادوجگاتے ہوئے صاؔدقین کبھی کبھی عجیب سے لگتے تھے۔ وہ گھنٹوں زماں و مکاں سے بے نیاز ہوکر رنگوں اورخطوں میں کھوئے رہتے تھے۔ صاؔدقین کے سیدھے ہاتھ کی اُنگلیاں لگاتار کام کرنے کی وجہ سے ٹیڑھی ہوگئی تھیں۔
 انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک اسٹڈیز کا کام ختم کرلینے کے بعد وہ کافی مطمئن نظرآنے لگے تھے۔ ایک شام میں اُن کے یہاں پہنچا تو دیکھا کہ بالکل فرصت اور فراغت میں بیٹھے ہیں۔ صاؔدقین کو اس طرح بیکاری کی حالت میں دیکھنے کی عادت نہیں تھی۔ میں نے سوچا ضرور کچھ گڑبڑ ہے۔ مجھے دیکھ کر بولے ’’بھائی ! بہت اچھے وقت آئے۔ میں آپ ہی کا انتظار کررہا تھا۔ ‘‘ پھر میاں انور کو بلا کر کہا ’’ بھئی ایک ٹیکسی لے آنا ۔‘‘
ٹیکسی آگئی تو میں نے پوچھا ’’ کہاں کا قصد ہے ؟ ‘‘ بولے ’’میں نے کہیں جانے کے لیے ٹیکسی نہیں منگوائی۔ یوں سمجھئے کہ ٹیکسی میں بیٹھنے کے لیے ٹیکسی منگوائی ہے۔ کیا ضروری ہے کہ ہم منزل کا تعین کرکے ہی ٹیکسی میں بیٹھیں۔ بس چلیے، یوں ہی ذرا ہوا کھاتے ہیں۔ دہلی میں رہتے ہوئے اتنے دن ہوگئے مگر دہلی کو اس طرح نہیں دیکھا جس طرح اور لوگ دیکھتے ہیں۔ کناٹ پیلیس کو بھی اس وقت دیکھا ہے جب مجھے حیدرآباد، علی گڑھ، امروہہ یا بنارس جانے کے لئے نئی دہلی ریلوے اسٹیشن جانا پڑا ہے۔ ‘‘ ٹیکسی والے سے کہا ’’ میاں تم ہمیں جہاں لے جانا چاہو، لے چلو۔ ہماری نکیل تمہارے ہاتھ میں ہے۔ ہماری کوئی منزل نہیں ہے۔ ہم بڑی دیر تک ’’ ادب برائے ادب ‘‘ یا ’’ فن برائے فن ‘‘ کے انداز میں سیر کرتے رہے۔ جب ٹیکسی گھوم گھام کر صفدر جنگ کے مقبرے کے پاس پہنچی تو میں نے کہا ’’ صاؔدقین صاحب ! ہم نے ’’ سفر برائے سفر ‘‘ بہت کرلیا ہے۔ اب بتایئے کہاں چلیں گے؟ ‘‘ کچھ دیر سوچ کربولے۔ ’’ میرا خیال ہے اب مجھے پاکستان جانا چاہئے۔‘‘
 دوسرے دن میں اُن کے ہاں گیا تو دیکھا کہ بنجارے نے اپنا ساز و سامان سمیٹنا شروع کردیا ہے اور آٹھ دن بعد وہ پاکستان کے لیے روانہ ہوگئے۔ دہلی میں اُن کی آخری شام مجھے اب تک یاد ہے۔ بولے ’’بھئی یہ چودہ مہینے آپ کی رفاقت میں خوب گزرے۔ یہ شب و روز ہمیشہ یاد رہیں گے۔ اب آپ پاکستان آیئے۔ آ پ بھی عجیب آدمی ہیں۔ ساری دنیا گھوم لی لیکن پاکستان نہیں آئے۔ حیرت ہے کہ اپنے بڑے بھائی ابراہیم جلیس کے انتقال پر بھی نہیں آئے۔ اس بار کم از کم میری خاطر ہی پاکستان آیئے۔‘‘
میں نے کہا ’’ پاکستان اتنا قریب ہے کہ سفر کی خواہش ہی نہیں ہوتی۔ مجھے تو لمبی اُڑانیں بھرنے کا شوق ہے۔ اگر آپ کا پاکستان یورپ میں ہوتا تو نہ جانے کتنی بار آتا۔‘‘بولے ’’ اب مذاق نہ کیجئے۔ آنے کا وعدہ کیجئے ورنہ مجھے پھر ہندوستان آنا پڑے گا۔‘‘
 میں نے کہا ’’ یہی تو میں چاہتا ہوں ۔‘‘
 آخری شام وہ کچھ جذباتی ہوگئے تھے۔ ہمیں ایک دوست کے ہاں رات کے کھانے پر جانا تھا۔ ہندوستان میں طویل قیام کے دوران میں ، میں نے صاؔ دقین کو کبھی بہکتے ہوئے نہیں دیکھا تھا۔ مگر اس شام وہ بہکے توبہکتے ہی چلے گئے۔ رات کے پچھلے پہر میں انہیں گھر چھوڑ آیا۔دوسرے دن دوپہر میں اُن کی روانگی تھی۔حسب وعدہ میں اُنہیں وداع کرنے کے لئے ہوائی اڈہ پر پہنچ گیا تھا۔ اُن کا ساز و سامان طیارے میں جاچکا تھا۔ میاں انور اور دیگر احباب بھی پہنچ چکے تھے۔ مگر صاؔدقین کا دُور دُور تک کوئی پتہ نہ تھا۔مائیکرو فون پر بار بار اعلان ہورہا تھا کہ کراچی جانے والا طیارہ پرواز کے لئے تیار ہے۔ مسافرین سے آخری بار درخواست کی جاتی ہے کہ وہ طیارے میں سوار ہوجائیں۔ اچانک صاؔدقین ایک موٹر سے برآمد ہوئے۔ یوں لگا جیسے وہ ہندوستان سے جانے کے لیے آخری اعلان کا انتظار کررہے تھے۔ بڑی عجلت میں بغل گیر ہوئے بولے ’’ آ پ کو پاکستان ضرور آنا ہے۔‘‘
 میں نے کہا ۔ ’’ آؤں گا ۔ ‘’
 بولے ’’ میرے جیتے جی آنا ہے۔ ‘‘
 میں نے کہا ۔ ’’ بے شک ! ‘‘
 بولے۔ ’’ مگر مجھے بہت زیادہ آزمائش میں نہ ڈالنا ۔‘‘
 اور یوں چودہ مہینوں کے مراسم ایک موڑ پر اچانک رُک گئے۔ میں نے سوچا تھا کہ کبھی نہ کبھی ، کہیں نہ کہیں ان رشتوں میں پھر سے جان پڑ جائے گی اور یہ پھر سے سانس لینے لگیں گے۔ پچھلے تین برسوں میں انہوں نے کئی احباب کے ذریعے مجھے خود اپنا وعدہ یاد دلایا مگر میں نہ جاسکا۔ ڈیڑھ مہینے پہلے انہوں نے ایک دوست کے ذریعہ کہلا بھیجا۔’’ آپ نہیں آتے تو پھر میں ہی دو تین مہینوں میں ہندوستان آنے کی کوشش کروں گا۔‘‘
 میں نے کئی احباب کو صاؔدقین کی متوقع آمد کی خوش خبری سنائی کہ یار و آرہے ہیں صاؔدقین جلاؤ پھر سے ماچسین اور بیٹھو پھر چٹائی پر۔ ‘‘
 مگر صاؔدقین نے اس بار ’’ سفر برائے سفر ‘‘ کرتے ہوئے اچانک ایک ایسے راستے پر روانہ ہونے کا فیصلہ کرلیا جہاں سے کوئی واپس نہیں آتا۔ وہ سچ مچ رنگ و نور کا آدمی تھا۔ اپنے سارے رنگ اس دنیا میں چھوڑ گیا اور اپنے جینے کا ڈھنگ اپنے ساتھ لے گیا:
مت سہل انہیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں
 تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں
                              ( فروری ۱۹۸۷ء )