شیخ پیٹ میں 400 سالہ قدیم تاریخی مسجد تنازعات اور لاپرواہی کا شکار

 

حیدرآباد ۔ 31 مارچ (سیاست نیوز) مصروف ترین علاقے شیخ پیٹ میں 400 سالہ ایک تاریخی مسجد ارباب مجاز کی عدم توجہ سے خستہ حالت میں ہے حالانکہ تاریخی یادگار کی حفاظت اور نگہداشت کے باوجود اس مسجد کے مینار ٹوٹے ہوئے ہیں اور جگہ جگہ سے گچی نکل رہی ہے۔ علاوہ ازیں اندرونی حصے میں درختوں کی اتنی کثرت ہے جس سے مسجد کا نظر آنا مشکل ہوچکا ہے۔ حکومت کے اعلامیہ دفعہ 1960 جس میں کہا گیا ہیکہ مسجد کو تاریخی یادگار کے تحت اس کی حفاظت کی جائے گی لیکن یہ مسجد ہنوز لاپرواہی کی ایک زندہ مثال ہے اور ہماری تہذیب کی مٹتی ایک نشانی ہے۔ شیخ پیٹ کے مکین مولانا آصف نے کہا کہ مسجد عوام کیلئے کھلی نہیں ہے جبکہ کئی سال پہلے اس کے گیٹ بند کردیئے گئے ہیں اور اس کی کوئی نگہداشت نہیں کررہا ہے۔ کم از کم مسلم طبقہ کیلئے یہ کھلی رہتی تو ہم اس کی نگہداشت کرتے۔ علاوہ ازیں مولانا آزاد یونیورسٹی کے پروفیسر سلمہ احمد فاروقی نے کہا کہ یہ تعجب خیز ہیکہ اس مسجد کے متعلق کسی کو علم نہیں ہے، کسی نے اس پر تحقیق نہیں کی ہے۔ مسجد کے متعلق کوئی کام بھی نہیںکیا گیا۔ محکمہ آثارقدیمہ و میوزیم انڈین نینی ٹرسٹ فار آرٹس اینڈ کلچر ہیریٹیج (آئی این ٹی سی ایچ) کو بھی اس مسجد کے متعلق کوئی علم نہیں ہے۔ ہیرٹیج کی نگہداشت کیلئے موجودہ ارباب مجاز سے جب رابطہ کیا گیا تو اس ضمن میں راجندر نے کہا کہ اس کی تزئین نو تنازعات کی وجہ سے نہیںکی گئی ہے۔ 2008ء میں مسجد کی باؤنڈری وال بنائی گئی اور ہم نے 2015ء میں مسجد کی تزئین نوکا منصوبہ بنایا تھا لیکن یہاں کے مقامی افراد اس مسجد میں نماز ادا کرنا چاہتے ہیں جبکہ دیگر افراد نے اس پر اعتراض کرتے ہوئے پولیس میں شکایت درج کروائی ہے جس کے بعد سے مسجد کو ہاتھ نہیں لگایا گیا ہے۔ لوگ اب اس حصہ میں کچرا ڈالتے ہیں حالانکہ 2015ء میں اس کی صفائی بھی کی گئی تھی۔