شہاب الدین کی ضمانت اور نتیش حکومت

اب تو کانٹوں پر گذر کریئے وسیمؔ
آخری وہ پھول گلشن سے گیا
شہاب الدین کی ضمانت اور نتیش حکومت
بہار میں ہوئے اسمبلی انتخابات کے بعد جنتادل یو ‘ آر جے ڈی اور کانگریس اتحاد نے سکون کی سانس لی تھی کیونکہ اس اتحاد کو ریاست میں شاندار کامیابی حاصل ہوئی تھی ۔ یہاں بی جے پی اور اس کے حواریوں کو عوام نے ہزیمت سے دوچار کردیا تھا ۔ نتیش کمار دوبارہ چیف منسٹر بن گئے اور وہ بہار کو ترقی کی راہ پر آگے لیجانے کے عزائم کے ساتھ کام کر نے کا ادعا کر رہے تھے ۔ ایسے میںاچانک طاقتور لیڈر و سابق رکن پارلیمنٹ سیوان کو ہائیکورٹ سے ضمانت مل گئی ۔ وہ گیارہ سال جیل میں رہنے کے بعد ضمانت پر رہا ہوئے ہیں۔ اس ضمانت نے ریاست کی سیاست میں اچانک ہلچل پیدا کردی ہے ۔ وہ نتیش کمار تھے جنہوں نے شہاب الدین کو گرفتار کرکے جیل بھیج دیا تھا ۔ اب نتیش کمار پھر چیف منسٹر ہیں اور اس بار راشٹریہ جنتادل پارٹی کے ساتھ اقتدار کی شریک ہے بلکہ اقتدار کی بڑی جماعت ہے ۔ شہاب الدین راشٹریہ جنتادل ہی سے تعلق رکھتے ہیں۔ پارٹی میں شہاب الدین کا اچھا اثر ہے ۔ وہ چونکہ طاقتور موقف کے حامل ہیں اس لئے پارٹی اکثر و بیشتر انہیں ناراض کرنے سے بھی گریز کرتی ہے ۔ اب جبکہ نتیش کمار کی حکومت آر جے ڈی کی تائید سے چل رہی ہے ایسے میں انہیں مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔ شہاب الدین نے جیل سے رہا ہوتے ہی نتیش کمار کو حالات کا لیڈر قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ ان کے اصل لیڈر تو لالو پرساد یادو ہی ہیں۔ نتیش کمار حکومت نے ہائیکورٹ میں شہاب الدین کی ضمانت کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا تھا ۔ اس کیلئے سپریم کورٹ میں درخواست دائر بھی کردی گئی ہے ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ موجودہ حالات سے خود برسر اقتدار اتحاد کی جماعتیں آر جے ڈی اور جے ڈی یو کس طرح نمٹتی ہیں۔ جے ڈی یو کے اقدامات کو آر جے ڈی کس انداز میں دیکھتی ہے اور شہاب الدین کی تائید سے گریز کیا جاتا ہے یا پھر حکومت پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ آر جے ڈی سربراہ لالو پرساد یادو نے ابھی تک اس سلسلہ میں کچھ بھی اشارے نہیں دئے ہیں اور وہ انتظار کرو اور دیکھو کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں ۔ آر جے ڈی کے دوسرے قائدین تاہم ایسا لگتا ہے کہ شہاب الدین کی حمایت میں آگے آئے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ شہاب الدین مجرم نہیں بلکہ سماجی کارکن ہیں۔
یہ مسئلہ صرف ایک شہاب الدین ان کے جرائم سے متعلق نہیں ہے بلکہ یہ چیف منسٹر نتیش کمار کے مستقبل کے عزائم سے بھی تعلق رکھتا ہے ۔ نتیش کمار ملک کی وزارت عظمی پر نظر رکھتے ہیں اور وہ اسی منصوبے کے تحت اپنے امیج کو بہتر بناکر پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ بہار کی صورتگری کرنے میں بھی انہوں نے جس توجہ اور استقلال کا اظہار کیا ہے اورجس عزم کے ساتھ کام کر رہے ہیں وہ بھی ایک حقیقت ہے ۔ ایک طویل عرصہ کے بعد یہ تاثر مل رہا ہے کہ بہار میں بھی حالات بدل سکتے ہیں اور بدل رہے ہیں۔ اس کیلئے جس سیاسی عزم اور حوصلے کی ضرورت تھی وہ نتیش کمار نے دکھایا ہے ۔ وہ اسی حوصلے کے ساتھ ملک کی وزارت عظمی پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ حالانکہ ان کی اپنی پارٹی مرکز میں اقتدار حاصل نہیں کرسکتی لیکن وہ مخلوط سیاست پر تکیہ کئے ہوئے ہیں۔ ایسے میں انہیں راشٹریہ جنتادل کی تائید کی جس طرح اب ضرورت ہے اسی طرح مستقبل میں بھی ضرورت ہوسکتی ہے ۔ لیکن اس ضرورت کے تابع ہوتے ہوئے وہ شہاب الدین کے تعلق سے نرم موقف اختیار کرنے کو تیار نظر نہیں آتے ۔ شہاب الدین نے بھی نتیش کمار کے ساتھ کسی مصالحانہ انداز کا اشارہ نہیں دیا ہے اور انہیں عملا موقع پرست اور اتفاق سے بننے والے چیف منسٹر قرار دیدیا ہے ۔ اس مسئلہ میں جب تک لالو پرساد یادو خود مداخلت نہیں کرتے اور مناسب انداز میں یہ مسئلہ سلجھانے کی کوشش نہیں کرتے اس وقت تک حالات کے بگڑنے کے اندیشے ضرور برقرار رہ سکتے ہیں اور یہ اندیشے خود نتیش کمار کیلئے یا ان کے عزائم کیلئے اچھے نہیں کہے جاسکتے ۔
جس طرح روایت رہی ہے کہ کسی عدالت کے فیصلے سے کوئی فریق یا حکومت مطمئن نہ ہو تو بالائی عدالت میں اپیل کی جاتی ہے اسی طرح بہار کی حکومت نے بھی شہاب الدین کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی ہے ۔ بہار کی سیاست کیلئے یہ ضروری ہے کہ اس مسئلہ کو صرف قانونی سطح پر ہی رکھا جائے ۔ قانون کے مطابق کام کیا جائے اور اس میں سیاسی مقصد براری کی کوشش نہ کی جائے ۔ اگر ایسا کیا جاتا ہے اور سیاسی عزائم کو سامنے رکھتے ہوئے کوئی کارروائی ہوتی ہے تو پھر جنتادل یو اور آڑ جے ڈی کے اتحاد میں دراڑ بھی پیدا ہوسکتی ہے ۔ یہ اشارے تو نہیں ہیں کہ آر جے ڈی ‘ خود کو شہاب الدین سے الگ تھلگ کرنے کیلئے فی الحال تیار ہوسکتی ہے ۔