شنگھائی کانفرنس

خدا کے واسطے وعدہ نہ کیجئے ہم سے
جناب آپ سے وعدہ وفا نہیں ہوتا
شنگھائی کانفرنس
وزیراعظم نریندر مودی کے دورہ چین کے موقع پر صدر چین نے ہندوستان کے ساتھ سال 2020 تک باہمی تجارت کے نشانہ کو 100 ارب امریکی ڈالر تک لے جانے کی تجویز پیش کرتے ہوئے ہند ۔ چین تجارتی سرگرمیوں کی جانب زور دیا ۔ لیکن وزیراعظم مودی نے چین کے پر عزم ’بیلٹ اینڈ روڈ پراجکٹ ‘ کی توثیق نہیں کی ۔ اس پراجکٹ کے تعلق سے ہندوستان کے موقف کو واضح کرتے ہوئے اتنا ضرور کہا کہ ایسے پراجکٹ شروع کرنے سے قبل متعلقہ ملکوں کے اقتدار اعلیٰ اور علاقائی یکجہتی کا احترام کیا جانا چاہئے ۔ مختلف ممالک کو ایک دوسرے سے مربوط کرنے والے پراجکٹ کو 18 ویں شنگھائی کوآپریشن آرگنائزیشن SCO چوٹی کانفرنس کے دیگر شرکاء نے تائید کر کے اپنے مفادات کو ملحوظ رکھا ہے ۔ چین کے اس اعلیٰ سطح کے پراجکٹ کے بارے میں مودی کا مبہم اعتراض اس لیے تھا کیوں کہ یہ پاک مقبوضہ کشمیر میں شروع ہونے جارہا ہے ۔ ہندوستان کا طویل عرصہ سے یہی کہنا ہے کہ چین پاک معاشی راہداری بی آر آئی کا اصل حصہ ہے جو پاک مقبوضہ کشمیر کی راہ سے گذرتا ہے اور یہ علاقائی یکجہتی کے اصولوں کے مغائر ہے ۔ وزیراعظم مودی کو ہندوستان کے پڑوسی ملکوں چین اور پاکستان کے درمیان ایک خط فاصل کھینچتے ہوئے دیکھا گیا ۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ہندوستان کا پاکستان کے تعلق سے جو کچھ بھی موقف ہے اسے اپنی جگہ رکھ کر علاقائی تناظر میں غور کیا جاتا۔ محض پاکستان کی مخالفت میں چین سے قربت اور معاہدوں پر توجہ دے کر دیگر شعبوں میں ہندوستان کے مفادات کو ٹھیس پہونچایا جائے تو آگے چل کر اس کے منفی نتائج برآمد ہوں گے ۔ جس حد تک ہندوستان علاقائی اور ہمسایہ ملکوں کے ساتھ رابطہ کاری کو ترجیح دیتا ہے ، وہیں پاکستان کے معاملہ میں بھی اسے فراخدلی کا مظاہرہ کرنا چاہئے ۔ وزیراعظم مودی نے بہر حال شنگھائی چوٹی کانفرنس میں تحفظ و سلامتی کے مفہوم کو متعارف کروایا ہے ۔ انہوں نے صدر چین ژی جن پنگ کی موجودگی میں بین الاقوامی شمالی جنوب راہداری پراجکٹ چابہار بندرگاہ اور عشق آباد سمجھوتہ سے رابطہ پراجکٹوں سے ہندوستان کی دلچسپی سے بھی واقف کروایا ۔ چین نے اس چوٹی کانفرنس کے ذریعہ اپنے منصوبوں کو روبہ عمل لانے اور عالمی قائدین کے سامنے چین کے ترقیاتی پالیسیوں کو اجاگر تو کیا ہے لیکن آزاد عالمی معیشت کے لیے ان کی خواہش کو چوٹی کانفرنس میں شریک ملکوں کے کتنے نمائندے حمایت کریں گے یہ واضح نہیں ہے ۔ اس کانفرنس میں صدر چین نے امریکہ کی تجارتی پابندیوں کا براہ راست ذکر نہیں کیا لیکن انہوں نے امریکہ کے ان پابندیوں اور پالیسیوں پر شدید تنقید کی ۔ چین کو عالمی مارکٹ میں اپنی بالا دستی بڑھانے کی فکر لاحق ہے ۔ اس لیے وہ علاقائی رابطہ کاری کے ساتھ عالمی رابطوں کو ترجیح دے رہا ہے لیکن اس کے تجارتی عزائم کی راہ میں امریکہ کی پالیسیاں اور پابندیاں حائل ہورہی ہیں ۔ ہندوستان اور چین نے حالیہ دنوں میں اپنی قربتوں کو بڑھایا ہے تو عالمی سطح پر دیگر ملکوں نے بھی تجارتی امور میں اپنا موقف مضبوط بنانے کی کوشش شروع کیا ہے ۔ شنگھائی چوٹی کانفرنس کے انعقاد کا مقصد یہی ہوسکتا ہے کہ چین اپنے تجارتی فریم ورک کے مطابق آگے بڑھنا چاہتا ہے ۔ تاہم وزیراعظم نریندر مودی نے اپنے اس دورہ چین کے دوران دہشت گردی اور انتہا پسندی کے بدبختانہ واقعات کا بھی ذکر کیا ہے ۔ اس کانفرنس میں شریک دیگر ملکوں کے سربراہوں کے سامنے انہوں نے امید ظاہر کی کہ صدر افغانستان اشرف غنی اپنے ملک میں دہشت گردی پر قابو پانے میں کامیاب ہوں گے ۔ بہر حال وزیراعظم مودی نے راہداری پراجکٹ پر اپنے موقف کے ذریعہ پڑوسی ملک پاکستان کے بارے میں ذہنی تحفظ کو ظاہر کیا ہے ۔۔